نقطہ نظر

ہماری مڈل کلاس کا رکھ رکھاؤ

صرف ایک طبقہ ہے جسے انتخابات سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا، اور وہی سب سے نمایاں اور بلند آواز بھی ہے، یعنی شہری مڈل کلاس۔

گذشتہ چند ماہ کے دوران عمران خان نے حکومت گرانے کے لیے پاکستان کے شہری علاقوں میں کئی دھرنے و مظاہرے کیے، لیکن اسی دوران لوگ ہمارے معاشرے کی صورتحال کے بارے میں بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ان سوالوں میں سے ایک یہ ہے 'شہری مڈل کلاس کیوں ہمیشہ غصے میں اور تنگ آئی رہتی ہے؟'

2013 کے انتخابات سے پہلے یہ پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے گورننس ماڈل سے تنگ آئی ہوئی تھی، اور انتخابات کے بعد اب ان کا سارا غصہ پاکستان مسلم لیگ ن کی عوامی مسائل سلجھانے میں ناکامی کی جانب منتقل ہوگیا ہے۔ پی ٹی آئی ہمیں کچھ بھی یقین دلانے کی کوشش کرے، لیکن اس کی حقیقی حمایت شہری مڈل کلاس میں ہی موجود ہے، جو ہر کسی کے خلاف اپنے غصے کا اظہار عمران خان کے ذریعے کر رہے ہیں۔

تو پھر معاشرے کے اس چھوٹے، لیکن سب سے نمایاں طبقے کو کیوں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے سنا نہیں جارہا؟

یہ سوال سادہ لگتا ہے، لیکن اس سوال سے نکلنے والے دوسروں سوالوں میں دب کر رہ جاتا ہے۔ اوپر موجود اس بنیادی سوال کے بجائے جو سوال سب سے زیادہ زیرِ بحث رہتا ہے وہ یہ کہ شہری مڈل کلاس کیوں ڈکٹیٹرز کی حمایت کرتی ہے۔ ایک طرح سے اس کی بنیاد میں موجود مسئلے کو نظرانداز کردیا گیا ہے، اور توجہ صرف ان اثرات پر ہے جو معاشرے کے اس اہم اور آواز رکھنے والے طبقے پر ہوتے ہیں۔

ایک شرمیلا معاشرہ

اس سوال کا جواب میرے نزدیک حقیقی ضروریات اور برائے نام ضروریات میں فرق نہ کر پانے میں پوشیدہ ہے۔

ہمارے معاشرے میں یہ چلن عام ہے کہ ہم دوسروں کے سامنے اچھا بننے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان مہمانوں سے کس طرح نمٹا جائے جو زیادہ دیر ٹھہر جائیں؟ کوئی بھی گھرانہ مہمانوں کو صاف الفاظ میں یہ نہیں کہے گا کہ اب کافی دیر ہوچکی ہے اور آپ کو اب چلے جانا چاہیے، کیونکہ ایسا کہنا آداب کے خلاف ہے۔

اس کے بجائے وہ زیادہ مہمان نوازی کا مظاہرہ کرنے لگیں گے۔ رات کے کھانے کی پیشکش کریں گے، یا کہیں گے کہ رات ہمارے پاس ہی رک جائیے۔ حقیقت میں یہ دلی پیشکش نہیں ہوتی، بلکہ ڈھکے چھپے الفاظ میں چلے جانے کا اشارہ ہوتا ہے۔ سماجی معاہدے کو اچھی طرح سمجھنے والے مہمان فوراً حقیقی پیغام سمجھ جاتے ہیں، اور اسی طرح کا ردِ عمل دیتے ہیں۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ 'رکھ رکھاؤ' ہمارے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اکثر اوقات ہم اسے انتہا تک لے جاتے ہیں ('لوگ کیا کہیں گے' والا مخصوص جملہ، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم کس طرح لوگوں کی نظروں میں اچھا بننے کی کوشش کرتے ہیں)۔

ہم کبھی بھی اپنی پسند ناپسند کے بارے میں کھل کر اظہار نہیں کرتے، اور میرا ماننا ہے کہ یہی تمام مسائل کی جڑ ہے، کیونکہ سیاست اس طرح کام نہیں کرتی۔ سیاست اس سے سادہ تر اور دو ٹوک ہوتی ہے۔

پڑھیے: پاکستان کی "مڈل کلاس" بغاوت

میں سمجھاتا ہوں۔

ہمارے معاشرے کے اس سماجی رویے کو اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ہمارے لوگوں کو خطابت و تقریروں سے بہت پیار ہے۔

سیاست میں ڈیڑھ سال رہنے، اور مزید چار سال سیاست کو پڑھنے کے دوران میں نے اسے قریب سے دیکھا ہے۔ ہمارے طرح کے معاشروں میں عوامیت پسندی کام کر جاتی ہے، کیونکہ ہمیں تقریریں سننے میں بہت اچھی لگتی ہیں۔

انتخابات کے موقع پر ان صفات کا کھل کر سامنے آنا ہماری شہری مڈل کلاس کی ان مایوسیوں کا اظہار ہے جو اسے بری طرح سے جکڑے ہوئے ہیں۔

مڈل کلاس کو انتخابات سے کیا حاصل (نہیں) ہوتا ہے۔

ہر الیکشن سے پہلے سیاستدان بڑی مقدار میں تقریریں اگلتے ہیں، جن کا زیادہ تر ہدف ہمارے معاشرے کا نچلا ترین طبقہ ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف عوام میں، بلکہ مڈل کلاس میں بھی مطالبات اور امیدوں کو جنم دیتا ہے۔

اور یہی وہ جگہ ہے جہاں سماجی طور پر قابلِ قبول عدم اخلاص کی صفت سامنے آتی ہے۔ مڈل کلاس یہ سمجھتے ہیں کہ سیاستدان ان سے وعدے کر رہے ہیں، جبکہ جن حکومتی اقدامات کا وعدہ کیا جارہا ہوتا ہے، وہ ان کے لیے ہوتے ہی نہیں۔

ہماری روایتی الیکشن مہم میں بنیادی طور پر تین عناصر ہوتے ہیں، تقریریں اور بیانات جن کا ہدف ووٹ کی طاقت رکھنے والی عوام ہوتی ہے۔ ان پیغامات کو پھیلانے میں الیکشن لڑنے والے مراعات یافتہ افراد اور معاشرے کا سب سے نمایاں طبقہ یعنی شہری مڈل کلاس کردار ادا کرتا ہے۔

انتخابات کے بعد مراعات یافتہ طبقہ اپنا مقصد، یعنی منتخب ہوجانا، حاصل کرلیتا ہے، جبکہ عوام کو حکومتی پروگرامز کے ذریعے کسی طرح کا ریلیف ملتا ہے (جو ان کی ضروریات کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، لیکن شروعات ہے)۔

صرف ایک طبقہ ہے جسے انتخابات سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا، اور وہی سب سے نمایاں اور بلند آواز بھی ہے، یعنی شہری مڈل کلاس۔ آپ دیکھ رہے ہیں مسئلہ کہاں پر ہے؟

معاشرے کا یہی طبقہ ہے جو آگاہی پھیلاتا ہے، تحرک برپا کرتا ہے، اور نتیجتاً اس بات کی توقع کرتا ہے کہ نئی حکومت ان کے لیے کچھ کرے گی۔

مزید پڑھیے: مسئلہ ہے مڈل کلاس کا

لیکن حقیقت میں اٹھائے جانے والے مسائل ان کی روز مرہ کی زندگی سے تعلق نہیں رکھتے۔ مڈل کلاس کے مسائل کو کبھی اٹھایا ہی نہیں گیا، لیکن انہوں نے کبھی اس بات کا ادراک نہیں کیا۔ اس کی وجہ ہماری سوسائٹی کا کلچر ہے جو پردے کے پیچھے چھپ کر جینا پسند کرتا ہے، اور اپنی خواہشات اور مطالبات کو چھپانا پسند کرتا ہے۔

ان کی ضروریات اور ان کے مطالبات

مثال کے طور پر کسانوں کے لیے سبسڈیاں یا چھوٹے کاروبار کے لیے قرضہ اسکیمیں۔ یہ مطالبات جائز ہیں، لیکن یہ شہری مڈل کلاس کے اس گریجویٹ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے جس کے والدین نے 'تعلیم' پر لاکھوں روپے صرف اس امید پر لگا دیے، کہ ان کا بچہ اچھی جاب حاصل کرسکے۔ کاروبار کے لیے 50 ہزار کا قرضہ بہت سارے لوگوں کے لیے زبردست مدد ہوسکتی ہے، لیکن اس شخص کے لیے یہ بے کار ہے کیونکہ اس کی لگائی ہوئی رقم کے مقابلے میں اسے ملنے والا فائدہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

یا پھر میٹرو بس کا معاملہ ہے جو روزانہ ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو خدمات فراہم کرتی ہے اور ہزاروں لوگوں کے لیے سفر آسان بناتی ہے۔ اس پر سب سے زیادہ تنقید ان لوگوں کی جانب سے کی جارہی ہے جو اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی اس طرح کی کوئی سروس استعمال نہیں کریں گے۔

یہی معاملہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ساتھ بھی ہے جس پر سوشل میڈیا پر تمام وقت، اور کچھ حد تک روایتی میڈیا میں بھی تنقید کی جاتی ہے۔ یہ ایسا پروگرام ہے جو بہتر کام کر تو رہا ہے، لیکن ان لوگوں کے لیے نہیں جو اس معاشرے میں نمایاں ہیں اور آواز رکھتے ہیں۔

یہ سب مل کر اس ہیجان اور مایوسی کو جنم دیتے ہیں جو ہم ٹی وی پر دیکھ رہے ہیں۔

مڈل کلاس جاننا چاہتی ہیں: انہوں نے پورے مرحلے میں حصہ لیا، آواز اٹھائی، تو نتیجہ کہاں ہے؟

انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ انہوں نے جو بھی آواز اٹھائی، وہ مددگار ثابت ہو تو رہی ہے، لیکن ان کے لیے نہیں۔

میرا مطلب ہے، آپ نے الیکشن سے پہلے مڈل کلاس کے لیے مناسب مالیاتی اسکیموں پر کتنی بحثیں دیکھی ہیں؟

جانیے: کیا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کامیاب ہے؟

گھر خریدنے کے لیے وہ سبسڈیز کہاں ہیں جن کی مدد سے آپ 70 سال کے بجائے 40 سال کی عمر تک اپنا گھر بنا سکتے ہیں؟

نئی نوکریاں کہاں ہیں؟

زیادہ تنخواہیں کہاں ہیں؟

ہمارے ملک میں انتخابات کے دوران شاذ و نادر ہی ان مسائل پر پالیسی بحثیں ہوتی ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شہری مڈل کلاس بہت بڑی ووٹنگ طاقت نہیں ہے۔ یہ پورے ووٹوں کے صرف پانچویں حصے پر مشتمل ہے، لیکن وہ آواز رکھنے کو زیادہ ووٹوں کے برابر سمجھ بیٹھتے ہیں۔

ان کے مسائل میں اضافے کے لیے رکھ رکھاؤ کا سماجی کلچر بھی موجود ہے، جس کی وجہ سے یہ اپنے مسائل کے بجائے کسی اور کے مسئلے پر آواز اٹھائے جاتے ہیں۔

وقت آچکا ہے کہ مڈل کلاس یہ سمجھ لیں کہ حکومت سے ان کی ناامیدی تب تک ختم نہیں ہوگی جب تک وہ حکومت سے اپنے مطالبات میں سچے نہیں ہوں گے اور رکھ رکھاؤ کا دامن نہیں چھوڑیں گے۔

اس وقت سسٹم جس طرح بنا ہوا ہے، اس میں صرف شہری مڈل کلاس ہی ہے جو اپنے حقیقی مطالبات سامنے نہیں لارہی، اور یہ ایسا مسئلہ ہے جسے حل کیا جانا ضروری ہے۔

ایسا کرنے کے لیے شہری مڈل کلاس، سیاستدانوں، اور سول ملٹری بیوروکریسی کو چاہیے کہ وہ عوامی اقدامات کے حق میں حقیقی مطالبات کو چھوڑ دینے کے بجائے ان کو سنجیدگی سے لیں۔ معاشرے کے اس حصے کی عزت کی جانی چاہیے کیونکہ اچھی گورننس ہر شہری کا حق ہے، اور ان شہریوں کو خطرناک حد تک طویل عرصے سے نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

عدنان رسول

لکھاری جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر adnanrasool@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔