نقطہ نظر

کیا ہم 14 سالہ 'دہشت گرد' کو پھانسی دیں گے؟

پشاور میں مارے جانے والے بچوں کے ساتھ انصاف مزید بچوں کی جانیں لے کر نہیں کیا جاسکتا۔

جو اموات ہوچکی ہیں، ان کا دکھ بھلانے کے لیے اب ہمیں خود بھی کچھ جانیں لینی ہوں گی۔

پھانسیاں دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی جنگ میں ایک نیا باب ہیں۔ ہر روز اعداد و شمار پر بات ہوتی ہے، 8000 انتظار میں ہیں، کچھ کو لٹکایا جاچکا ہے، اور روزانہ ہی اخبارات کے صفحات پھندوں کی تصاویر سے سجے ہوتے ہیں۔

پھانسیوں کی ضرورت، اور ان کے درست قدم اور دہشتگردی کے خلاف موثر ہتھیار ہونے پر پاکستان میں رائے عامہ اتنی ہموار اور پرامید ہے، کہ اس کے خلاف بحث نہیں کی جاسکتی۔

ریاست کی جانب سے موت کی سزا اس لیے غلط نہیں کہ جرم گھناؤنا نہیں تھا، یا یہ کہ قتلِ عام قابلِ سزا نہیں ہے۔ بلکہ اس لیے ہے کہ اس معاملے میں غلطی کی گنجائش موجود ہے۔ کسی غلط شخص کو کسی ناکردہ جرم کی سزا دینا ایسا داغ ہے، جو کوئی بھی ریاست خود پر لگوانا نہیں چاہے گی۔ لیکن یہ کہنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔

اس کے علاوہ بچوں کی جان لینے کا مسئلہ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔

شفقت حسین ایسا ہی ایک شخص ہے۔ جب انسدادِ دہشتگردی عدالت نے 2004 میں اس پر فردِ جرم عائد کی، تو کہا جاتا ہے کہ اس وقت اس کی عمر صرف 14 سال تھی۔ شفقت کے خلاف واحد ثبوت اس کا اپنا اعترافِ جرم تھا، جو اس نے پولیس کی حراست میں 9 دن رہنے کے بعد کیا تھا۔

پڑھیے: پھانسی کا پھندا

انسانی حقوق کے ادارے 'reprieve' سے بات کرتے ہوئے شفقت کا کہنا تھا کہ ان 9 دنوں کے دوران اسے تنہائی میں رکھا گیا، آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی، مارا گیا، بجلی کے جھٹکے دیے گئے، اور سگریٹوں سے جلایا گیا۔

وہ بچہ جو پشاور میں مارے گئے بچوں سے زیادہ عمر کا نہیں تھا، آخر اتنا ٹوٹ گیا کہ اس کے اپنے مطابق اگر پولیس اسے ہرن کو ہاتھی کہنے کا کہتی، تو وہ یہ بھی کہہ ڈالتا۔

لیکن اس کے باوجود انسدادِ دہشتگردی کی عدالت نے اس کا مقدمہ سنا، اور اسے مجرم ٹھہراتے ہوئے موت کی سزا کا حقدار قرار دیا۔

پھر پشاور کا واقعہ ہوا، اور سزائے موت پر سے پابندی اٹھا لی گئی۔

گذشتہ ہفتے انسدادِ دہشتگردی عدالت نے سندھ ہائی کورٹ اور صدر ممنون حسین کی جانب سے شفقت کی رحم کی اپیلیں مسترد کیے جانے کے بعد اس کے بلیک وارنٹ جاری کر کے اس کی پھانسی کی تاریخ طے کی۔

شفقت جو اب 23 سال کا ہوچکا ہے، کو کراچی سینٹرل جیل میں 14 جنوری 2015 کو پھانسی دی جانی تھی۔

مزید پڑھیے: چھ مجرموں کے ڈیتھ وارنٹ جاری

پاکستان میں آخری منٹ پر بچ جانا بہت ہی نایاب ہے۔ سینکڑوں لوگوں کی جان لینے والے بم ہمیشہ پھٹتے ہیں، ڈاکو ہمیشہ بچ نکلتے ہیں، پولیس کبھی وقت پر نہیں پہنچتی، اور دل شکستہ محبوب کتنی ہی منتیں کیوں نہ کرے، لڑکی ہمیشہ دوسرے شخص سے شادی کرلیتی ہے۔

شفقت کے کیس میں بھی یہی ہونے والا تھا۔ سینٹرل جیل کراچی کے حکام نے اس کے گھر والوں سے کہا کہ وہ اب اپنے بچے سے آخری بار ملنے کے لیے تیار ہوجائیں۔

اور پھر اچانک ایک خبر آئی۔

سول سوسائٹی نے کیس میں موجود خامیوں، زبردستی اعترافِ جرم، اور ایک بچے کو سزائے موت دیے جانے کی نشاندہی کی، جس کے بعد اس کی سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا گیا۔ وزارتِ داخلہ اب اس لڑکے کے کیس کی مزید انکوائری کرے گی۔

تو شفقت حسین فی الحال محفوظ ہے۔

لیکن شفقت اور اس کے جیسے دیگر قیدی بچوں، خاص طور پر وہ جو غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، کے لیے یہ عارضی ریلیف ہے۔ اگر دہشتگردی کی ایک اور خوفناک کارروائی ہوتی ہے اور غصے میں بھری ہوئی اس قوم کے دل میں بدلے کی آگ بھڑک اٹھتی ہے، تو قوم کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے اس بچے کو پھانسی چڑھانا آسان ہوگا۔

جب مقصد صرف بدلہ لینا ہو، تو بے قصور یا مجرم ہونا زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ خاص طور پر پاکستان جیسے ملک میں یہ اور بھی زیادہ عام ہے، جو ویسے ہی قوانین کے تحفظ میں دلچسپی نہیں رکھتا۔

جانیے: عدالتیں اور سزائے موت کا قانون

ہوسکتا ہے کہ نئی آئینی ترمیم کے بعد حکومت کیس کو ملک کی نئی نویلی فوجی عدالتوں میں بھجوا دے۔ وہاں پر غریب خاندان اور وسائل کی کمی کے شکار وکلا ایک بار پھر بچے کو معصوم و بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ لیکن ان نئی عدالتوں کے قوانین سے ہم اتنے ہی لاعلم ہیں جتنا کہ شفقت کی تقدیر سے۔

پاکستان میں کئی لوگ سزائے موت کے حامی ہیں۔ بڑوں کے معاملے میں ان کے پاس سزائے موت کے حق میں کتنے ہی مضبوط دلائل ہوں، لیکن شفقت پر جب تشدد کیا گیا، جب کیس چلایا گیا، تو وہ صرف ایک بچہ تھا۔ اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے دلائل پر نظرِثانی کرنے کی ضرورت ہے، اور ان سزاؤں کے پیچھے موجود ظلم، ناانصافی، اور انتقامی کارروائیوں کے امکانات پر بھی غور کرنا چاہیے۔

یہاں تک کہ اگر کوئی بچہ خودکش حملہ آور بھی ہو، تو بھی اس بات کو دھیان میں رکھنا چاہیے کہ برین واشنگ کے ذریعے بچوں کے دماغ کو کس طرح کچھ بھی ماننے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔

لیکن اگر کوئی اس حقیقت کو نہیں مانتا، تو شاید کچھ دوسرے حقائق اسے قائل کرسکتے ہیں۔

ہارورڈ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس میں کی جانے والی تحقیق میں ثابت ہوا ہے کہ دماغ کا وہ حصہ منصوبہ بندی کرنے، نتائج کا اندازہ لگانے، اور خیالات کی درجہ بندی کرنے کے لیے ذمہ دار ہوتا ہے، دماغ کا سب سے دیر سے تکمیل پانے والا حصہ ہے۔

حیران کن: پھانسی صرف 30 سیکنڈز قبل ملتوی

اس کا مطلب ہے کہ کئی ٹین ایجرز میں وہ صلاحیت جو انہیں برین واشنگ کی مزاحمت کرنے میں مدد دے، وہ پیدا ہی نہیں ہوئی ہوتی۔ دنیا کے کئی ممالک میں اس تحقیق کو بنیاد بنا کر بچے مجرموں کو دی جانے والی سزائے موت پر پابندی عائد کردی گئی ہے، بھلے ہی وہ مجرم ثابت ہو بھی جائیں۔

جن بچوں کو ہم بچا نہیں سکے، وہ تو اب جا چکے ہیں۔ جن میدانوں میں وہ کھیلا کرتے تھے، جن گلیوں میں وہ گھوما کرتے تھے، اب ان کے بغیر سنسان ہیں۔ لیکن مزید بچوں کو پھانسی دینا نہ ہی ان بچوں کے ساتھ انصاف کرنے کا کوئی اچھا طریقہ ہے، اور نہ ہی اس طرح سے وہ واپس لائے جاسکتے ہیں۔

اپنی اخلاقی اقدار کھو دینے والے ملک میں ظلم کا نشانہ صرف وہی بچہ نہیں جو خودکش حملے کا نشانہ بنتا ہے، بلکہ وہ بچہ بھی ہے جو خودکش حملہ آور ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

رافعہ ذکریہ

رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔