بدرو سے بودھو تک : ایک روڈ جہاں کوئی نہیں آتا
کیرتھر کے خطے میں رات کو آسمان اتنا شفاف ہوتا ہے کہ آپ اپنی ننگی آنکھوں سے کہکشاﺅں کو دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں کا زمینی منظرنامہ اتنا وسیع ہے کہ یہ انسان کی کھینچی گئی سرحدوں سے بہت دور تک پھیلا ہوا ہے۔
اس خطے کی تاریخ اتنی بھرپور ہے کہ ہر ایک وقت کی بھول بھلیوں میں گم ہوجاتا ہے، یہاں متعدد چوٹیوں پر مشتمل پہاڑی سلسلہ بلوچستان اور سندھ کے درمیان ایک قدرتی سرحد بناتا ہے جن میں گورکھ ہل (5700)، کٹے جی قبر (6877) اور بندو جی قبر (7112) نمایاں ہیں۔
ڈیڑھ سو میل تک پھیلا علاقہ مختلف جنگلی حیات کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے جبکہ یہاں کی ندیاں، چشمے، درے ، تالاب اور تاریخی مقامات اسے مختلف النوع افراد کے لیے ایک مثالی تفریح گاہ بنادیتے ہیں۔
بدقسمتی سے غیریقینی سیکیورٹی صورتحال نے اس زمینی حقیقت کو چھپا لیا ہے کہ یہاں کے مقامی رہائشی سیاحوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے بہت زیادہ بے تاب ہیں اور اپنے علاقے کا چہرہ بہتر بنانا چاہتے ہیں۔
میں گزشتہ برس گورکھ ہل گیا تھا اور اس وقت سے ہی کیرتھر کے خطے میں واپس جانا چاہتا تھا ۔ ایک خاندانی دوست نے بدرو جبل میں ایک بیٹھک کی میزبانی کی اور اس کے بارے میں سنتے ہی میں وہاں جانے کے لیے تیار ہوگیا۔
بدرو جبل کیرتھر کا وہ علاقہ ہے جو زیادہ محفوظ اور دیگر حصوں کے مقابلے میں وہاں تک رسائی زیادہ آسان ہے۔ یہ کراچی سے صرف 320 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور انڈس ہائی وے پر ایک سڑک سے جڑا ہوا ہے۔
یہاں تک کا سفر اس وقت تک غیراہم رہا جب تک ہم تین ہزار فٹ کی بلندی پر نہیں پہنچ گئے جہاں ہم نے نیچے پھیلی وادی کا نظارہ کیا۔ ایک تیل دریافت کرنے والی کمپنی نے بدرو کی سطح پر جگہ جگہ کنویں کھود رکھے ہیں اور ہم پہاڑی کے متعدد حصوں کو جوڑنے والی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کو دیکھ سکتے ہیں۔
ہم نے ایک چھوٹا گیسٹ ہاﺅس تلاش کیا جسے حکومت نے طویل عرصے پہلے تعمیر کیا تھا اور اب وہ اجاڑ حالت میں نظر آتا ہے۔ ہم نے وہاں اپنا سفر روکا اور اطمینان سے پہاڑی کے کنارے پر چہل قدمی کرنے لگے۔ ہم نے نیچے تنگ گھاٹی میں ایک مٹی زدہ سڑک کو دیکھا۔
وہاں ہماری ملاقات ایک مقامی چرواہے سے ہوئی جس کی برادری اس گھاٹی میں مقیم ہے ۔ اس نے ہمیں بتایا کہ اائل کمپنی کی سرمایہ کاری کے بعد ان سے علاقے کی ترقی کا وعدہ کیا گیا تھا۔
موسم سرد ہونے لگا تو ہم واپس گیسٹ ہاﺅس پہنچے جہاں ہمارے میزبانوں نے الاﺅ بھڑکا کر غیرفعال ہٹ کو ایک روایتی اوطاق میں تبدیل کردیا تھا۔
یہاں نوابشاہ سے سوگھار افراد کو مدعو کیا گیا تھا جنھون نے روایتی انداز میں بیٹھک کا آغاز شاہ کی شاعری سے کیا اور پھر مقبول لوک گیت بھی گا کر سنائے۔ بدرو جبل اپنے شفاف آسمان کی بدولت کراچی امیچور آسٹرونومر کلب کے لیے ستاروں کے نظارے کا ایک پسندیدہ مقام بھی ہے۔
کسی نے مجھے بتایا کہ شفاف ہوا کے باعث حکومت نے ایک بار ایک ٹی بی ہسپتال کے تعمیر کے منصوبے پر بھی غور کیا تاہم یہ پراجیکٹ آدھے راستے میں ہی ترک کردیا گیا۔
اگلی صبح ہم نے پہاڑی سے نیچے اترے جس دوران میں جادوئی منچھر جھیل کا ایک کنارہ طویل فاصلے سے بھی دیکھ سکتا تھا اور دیکھنے میں سمندر کی طرح لگ رہی تھی۔
میری آوارہ گردی کی تسکین نہیں ہوئی تھی اور میں نے چند دوستوں کو گورکھ ہل سے قبل آنے والی ایک چھوٹی بستی واہی پنڈی کی جانب سفر کے لیے قائل کرلیا تھا، یہ علاقہ ندیوں، تالابوں اور تاریخی چٹانی آرٹ کے مقام کا گھر بھی مانا جاتا ہے۔
اتفاقی چیزوں کو دریافت کرنا میرا سب سے بڑا ساتھی ہے اور میں اس پر ہی دوبارہ انحصار کرنا چاہتا تھا تاہم ہمارے میزبان نے اصرار کیا کہ ہم اپنے ساتھ ایک گائیڈ کو لے جائیں لہذا ہم کسی کو ڈھونڈنے کے لیے متبادل راستے سے منچھر جھیل کی جانب بڑھے۔
جھیل کا پانی سرما کے ٹھٹھرے سورج کی زرد شعاعوں میں جگمگا رہا تھا اور ہم نے وہاں متعدد چھوٹی بستیوں کو راستے میں دیکھا جو بحیرہ روم کے ساحلوں کی یاد دلارہی تھی۔ ہم نے اپنا گائیڈ ڈھونڈا اور وہ ہماری گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ راستے کی نشاندہی کرنے لگا۔
ہمارا گائیڈ جمن شاہ ایک مصروف کاروباری شخصیت تھا جو سفر کے دوران ایک فروخت کے معاہدے میں الجھا رہا۔ وہ اپنی کشتی کا آدھا حصہ بیچنے کی کوشش کررہا تھا اور مجھے یہ سن کر عجیب لگا کہ آخر کشتی کا آدھا حصہ کیسے فروخت کیا جاسکتا ہے۔
میں نے پوچھا کہ اگر کشتی کے دونوں مالکان نے مختلف سمتوں میں جانے کا فیصلہ کرلیا تو پھر؟ جمن شاہ نے مجھے نظر بھر کر دیکھا۔
پھر اس نے وضاحت کی " ہم نے کشتی کی ملکیت مختلف دنوں میں تقسیم کردی ہے "۔ وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوا اور پھر ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے بولا " وہاں دیکھیں وہ ایک اونٹ ہے"۔
جب میں اپنی ساکھ سے محروم ہوگیا تو وہ پھر بنیادی چیزوں پر بولنا شروع ہوگیا۔ اس علاقے میں پبلک ٹرانسپورٹ نایاب ہے اور لوگ سفر کے لیے موٹر سائیکلوں، اونٹوں اور جیپوں پر ایک دوسرے کو جگہ دیتے ہیں۔
کچھ دور جاکر سڑک غائب ہوگئی اور ایک گرد آلود راستہ سامنے آگیا جہاں ہم نے ایک خاندان کو ایک گدھا گاڑی پر پانی سے بھری جیری کینز لے جاتے دیکھا۔ جمن نے ہمیں بتایا کہ یہاں بجلی موجود نہیں اور لوگوں کو دور دراز سے پانی بھر کر لانا پڑتا ہے۔ میں یہ سن کر حیرت میں مبتلا ہوگیا کہ آخر یہاں کی زندگی کیسی ہوگی۔
کچھ لمحات بعد ہم نے ایک پہاڑی کے کنارے پر ایک قبرستان کو دیکھا جو اپنے شاہی انداز سے افسانوی لگ رہا تھا اور پوری عظمت سے یہاں کھڑا تھا۔
ہمارے گائیڈ کو اس قبرستان کے ماخذ یا بنیاد کا کوئی اندازہ نہیں تھا مگر پھر ایک دوست نے مشورہ دیا اور ہم قبرستان کی جانب چلنے لگے۔
وہاں پر سجی ہوئی قبروں کے سوا کسی قسم کا اشارہ اور کتبہ نہیں تھا۔ مجھے یہ احساس ہورہا تھا کہ یہ وہ قبرستان ہوسکتا ہے جو " بوٹا کوبا" (Butta Quba) کے نام سے معروف ہے جہاں مغل اور کلہوڑا جیسے شاہی خاندانوں کے اراکین محو خواب ہیں۔
اس یادگار کی حالت اب بھی شاندار ہے اور قبریں رنگا رنگ سنگ تراشی اور ڈیزائن سے سجی ہوئی تھیں مگر حیرت انگیز طور پر وہاں دفن افراد کے نام یا خطاب کا ذکر تک نہیں تھا۔ پہاڑی کے کنارے پر ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد بھی واقع ہے۔
میں نے ملحقہ پہاڑی پر اس سے بھی منفرد اسٹرکچر کو دیکھا اور ہم اس جانب بڑھے اور مجھے اچانک ہی معلوم ہوا کہ ہم نے جیک پاٹ حاصل کرلیا ہے۔
یہاں موجود چھوٹا شامیانہ اور ایک قبر ہوسکتا ہے کہ بچنے والی واحد یادگار ہو جو بظاہر ایک اور قبرستان جیسی نظر آتی ہے مگر یہ مانا جاتا ہے کہ یہ اس علاقے کا آتش پرستوں سے دلچسپ تعلق کا ایک مقام ہے۔
یہان موجود قبریں کا تعلق آتش پرستوں کی صدیوں پہلے فراموش کر دی جانے والی روایت سے جوڑا جاتا ہے ۔ یہ قبریں زرد پتھروں کے استعمال سے تعمیر کی گئیں اور یہاں کی نقش نگاری کو دیکھ کر لگتا تھا جیسے سورج کی شعاعیں چھت پر پھیلی ہوئی ہیں۔ انہیں عام طور پر رومن قبروں کے حوالے سے جانا جاتا ہے اور کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ اس کا تعلق سکندر کی فوج سے ہے جس نے تین سو قبل مسیح کے لگ بھگ سندھ پر حملہ کیا تھا۔ ہم وہاں سکوت میں کافی دیر تک کھڑے رہے۔
پھر ہم نے واہی پنڈی کی جانب اپنا سفر دوبارہ شروع کیا اور اس وقت تک ہمارے پاس کوئی منصوبہ نہیں تھا کیونکہ گائیڈ اور میں اس علاقے کے کچھ مقبول مقامات کے تلفظ میں الجھے ہوئے تھے۔
پھر اس نے کہا " چلو آﺅ بودھو آبشار دیکھنے چلتے ہیں" ، میں نے اس مقام کا آسان تلفظ سمجھ لیا اور ہم فوری طور پر وہاں جانے کے لیے تیار ہوگئے۔
بودھو واہی پنڈی کے قریب واقع متعدد آبشاروں میں سے ایک ہے جہاں موسم بہار میں آنے والے پانی کو مقامی افراد مرچیں، ٹماٹر اور دیگر فصلوں کی کاشت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
باقی ماندہ پانی یہاں کی مرکزی ندیوں میں سے ایک میں چلا جاتا ہے جبکہ مقامی افراد مٹی سے بنے گھروں میں رہتے ہیں جن کی چھتیں بھوسے سے بنی ہوتی ہیں۔
جمن مقامی رہائشیوں کو جانتا تھا اور انہوں نے فوری طور پر اپنی اوطاق اور دل ہمارے لیے کھول دیئے۔ یہ پاکستان کے ان افراد میں شامل ہیں جو ایسے مشکل خطے میں رہتے ہیں جہاں بہت کم زمین ہی کاشت کے قابل ہے۔
سیزن میں بہت زیادہ بارش نے مستحکم زندگی کو مزید مشکل بنادیا ہے مگر وہ ہم سے پورے جذبے کے ساتھ ملے اور بچے کیمرا کی جانب دیکھ کر مسکراتے رہے جبکہ بزرگ چائے کے لیے جمع ہوگئے۔
ہم وہاں بیٹھ گئے اور چائے پیتے ہوئے بے فکر سے گپ شپ کرتے رہے۔ وہ لوگ بروہی زبان بولتے تھے جس میں سندھی جملے میں شامل ہوجاتے تھے۔ میں وہاں موجود چارپائی پر گر کر سو جانا چاہتا تھا مگر ہم نے اپنے میزبان سے وعدہ کررکھا تھا کہ سورج غروب ہونے تک واپس نوابشاہ پہنچیں گے۔
لہذا ہم واہی پنڈی کی نامکمل سیر کے احساس کے ساتھ واپس جیپ میں جاکر بیٹھ گئے۔