سوہن کا حلوہ یا ساون کا حلوہ؟
کسی کے سامنے دو الفاظ 'ملتان' اور 'سردی' بولے جائیں تو تیسرا لفظ سننے والے کی زبان سے خود بہ خود ادا ہو جائے گا اور وہ ہے ۔۔۔ سوہن حلوہ۔
اگر آم گرمیوں کا تحفہ ہے تو سوہن حلوہ سردیوں کی سوغات ہے۔ کوئی بھی رت ہو اہل ملتان اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب کو نہیں بھولتے۔ اخلاص، محبت، دوستی اور تعلق کے اظہار کا جو سلیقہ اور طریقہ ملتانیوں کے ہاں مروج ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سردیاں شروع ہوتے ہی ملتانی اپنے ان عزیز و اقارب اور دوستوں کی فہرستیں بنانا شروع کر دیتے ہیں جن میں انہوں نے یہ میٹھی سوغات بانٹنی ہوتی ہے۔ زیادہ اہمیت کے حامل وہ دوست احباب اور رشتہ دار ہوتے ہیں جو ملتان سے باہر کسی شہر یا ملک میں قیام پذیر ہوں۔
جب آموں کا موسم شروع ہوتا ہے تب بھی اہل ملتان ایسی ہی محبت اور خلوص سے سرشار ہوتے ہیں۔
ادیب، شاعر اور تاریخ دان شاکر حسین شاکر کا کہنا ہے کہ آم یا سوہن حلوہ تحفتاً بھیجنے کا سلسلہ شاید اس وقت شروع ہوا ہوگا جب ملتان کی بیٹیاں کسی دوسرے گاؤں یا شہر بیاہی گئی ہوں گی اور ان کے والدین، بہن بھائی آم اور سوہن حلوہ ان کے گھر لے جایا کرتے ہوں گے یا پھر کسی آنے جانے والے کے ہاتھ بھیج دیا کرتے ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ شروع شروع میں سوہن حلوہ گھروں میں تیار ہوتا تھا، اور تجارتی بنیادوں پر سوہن حلوہ کی تیاری بہت بعد میں شروع ہوئی۔ آج بھی سردیوں میں ملتان کے کچھ گھروں میں سوہن حلوہ تیار کیا جاتا ہے جو دوستوں عزیزوں کو تحفتاً بھیجا جاتا ہے یا پھر گھر آئے مہمانوں کو چائے کے ساتھ تواضع کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
مقامی روایت کے مطابق یہ خاص قسم کا حلوہ جسے اب سب ملتانی سوہن حلوہ کہتے ہیں پہلی بار سوہن نے تیار کیا تھا۔ سوہن ملتان کا ایک ہندو حلوائی تھا اور انواع و اقسام کی مٹھائیاں تیار کرتا تھا۔ ایک دن مٹھائی کے لیے منگوایا جانے والا دودھ پھٹ گیا اور بجائے دودھ کو ضائع کرنے کے سوہن نے تجرباتی طور پر دودھ کو کڑاہی میں ڈال کر آگ پر رکھ دیا۔ جوں جوں دودھ گاڑھا ہوتا گیا سوہن اس میں چمچ ہلاتا گیا۔ دودھ کو مزید گاڑھا کرنے کے لیے سوہن نے اس میں گندم کے آٹے کی کچھ مقدار بھی شامل کر دی۔
جب سوہن نےاپنی نئی مٹھائی کو چکھا تواس منفرد مٹھائی کا ذائقہ اسے بہت لذیذ لگا۔ لیکن سوہن کو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ نئی مٹھائی اس قدر لذیذ بھی ہو سکتی ہے۔ اس نے راہ چلتے لوگوں میں نئی مٹھائی بانٹنی شروع کر دی۔ سوہن نے اتفاقاً بن جانے والی یہ مٹھائی اس وقت باقاعدہ طور پر بنانا شروع کر دی جب لوگ آکر اس سے وہی حلوہ دوبارہ کھلانے کا تقاضا کرنے لگے۔ سوہن کا حلوہ چند دنوں میں شہر بھر میں مشہور ہو گیا اور حاکم شہر دیوان ساون مل کے دربار میں حاضر ہو کر سوہن نے یہ نئی سوغات پیش کی تو شہر کے گورنر کی پسندیدگی کے بعد اس مٹھائی کی طلب کہیں اور زیادہ ہو گئی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دیوان ساون مل جو کہ اٹھارہ سو اکیس میں راجہ رنجیت سنگھ کی طرف سے ملتان کا گورنر بنا کے بھیجا گیا، سوہن حلوے کا 'موجد' ہے۔ تاہم اس مؤقف کے حامل لوگوں سے اختلاف کرنے والوں کا کہنا ہے کہ سوہن حلوہ صدیوں پرانی سوغات ہے۔ دیوان، جو کہ انواع و اقسام کے کھانوں کا شوقین تھا، کے محل میں سوہن حلوہ تیار تو بڑی مقدار میں ہوتا تھا لیکن پہلی بار سوہن حلوے کی تیاری دیوان ساون مل کے محل میں نہیں ہوئی تھی۔
خلیل احمد جن کا گھرانہ کئی دہائیوں سے تجارتی بنیادوں پر سوہن حلوہ تیار کر رہا ہے کا کہنا ہے کہ سوہن حلوہ بنیادی طور پر ایک ایرانی مٹھائی ہے اور ایران سے آئے ہوئے کاریگروں نے اسے پہلے ملتان میں متعارف کرایا جہاں سے برصغیر کے دوسرے شہروں میں یہ مٹھائی مقبول ہوتی چلی گئی۔
نعمان پیرزادہ کے مطابق ان کے دادا مولانا عبدالودود دلی سےسوہن حلوہ بنانا سیکھ کر آئے تھے، اس لیے یہ کہنا کہ ملتان سے حلوے کی ابتداء ہوئی، مناسب نہیں۔ تاہم اب سوہن حلوہ بنانے میں ملتانیوں کا کوئی ثانی نہیں۔
ایران میں سوہن حلوہ شاید اب نہ بنتا ہو لیکن یہ سوغات پاکستان کے علاوہ انڈیا اور بنگلہ دیش میں آج بھی یکساں مقبول ہے۔ ملتانی سوہن حلوہ ایک ایسی آواز ہے جو آپ کو سال کا کوئی سا بھی مہینہ ہو سنائی دے گی۔ یہ آواز خالی ملتان ریلوے اسٹیشن تک محدود نہیں ہے۔ ملتان کا ائیرپورٹ ہو کہ بس سٹاپ، ملتانی سوہن حلوہ بیچنے والے کی آواز آپ کو ضرور سنائی دے گی اور بہت سے مسافر اپنے عزیز و اقارب کے لیے ملتان کی یہ سوغات ضرور لے کر جاتے ہیں۔
یوں توملتان کی ہر مٹھائی کی دکان پر سوہن حلوہ دستاب ہوتا ہے۔ سردیوں میں تو دودھ دہی کی دوکانوں پر شہر کے مختلف گلی کوچوں میں گرما گرم سوہن حلوہ آنے جانے والوں کو متوجہ کرنے کے لیے بڑے بڑے تسلوں میں ڈال کر رکھا جاتا ہے اور ہر شخص اپنی قوت خرید کے مطابق 20 روپیے سے لے کر کلو کے حساب تک سوہن حلوہ خرید کرتا ہے۔
بڑی دکانوں پرسوہن حلوہ ایک اور آدھا کلو کے ٹن پیک میں دستیاب ہے تاکہ لے جانے والوں کو آسانی رہے۔ حافظ کا ملتانی سوہن حلوہ، حافظ مولانا عبدالودود کا سوہن حلوہ، پیر خاصے والے کا قدیمی ملتانی سوہن حلوہ اور ریواڑی والوں کا سوہن حلوہ شہر کے مختلف کونوں میں اپنی مختلف برانچوں کے ساتھ تجارتی بنیادوں پر تیار کیا جاتا اور بیچا جاتا ہے۔ لوگ ملتانی سوہن حلوہ نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ بیرون ملک رہنے والے اپنے عزیزواقارب اور دوست احباب کو بھی بھیجتے ہیں۔
حافظ حبیب الرحمان جنہوں نے سن 1945 میں حسین آگاہی میں سوہن حلوہ کی دکان کھولی تھی کا کہنا ہے کہ عمومی طور پرسوہن حلوہ مختلف قسموں جن میں باداموں والا، کاجو والا، پستہ والا اور اخروٹ والا سوہن حلوہ شامل ہیں، میں دستیاب ہوتا مگر کچھ گاہکوں کو ان کی فرمائش پر زعفرانی سوہن حلوہ تیار کر کے بھی فراہم کیا جاتا ہے، پر آج کل اچھے معیار کا زعفران میسر نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے زعفرانی حلوہ بنانا چھوڑ دیا ہے۔
لیکن اس کے باجود سوہن حلوے کے دیگر عمومی قسمیں اتنی لذیذ ہیں جن کا مٹھائیوں میں کوئی ثانی نہیں ہے۔ سوہن حلوے کا موجد سوہن حلوائی ہو یا دیوان ساون مل، اس سے اس حلوے کی لذت پر کوئی فرق نہیں آتا۔ اس تاریخی اختلاف کے باوجود سوہن حلوہ ملتان کی ایسی سوغات ہے جو ایک بار کھانے والے کو اپنا گرویدہ بنا کر ہی چھوڑتی ہے۔