21ویں آئینی ترمیم پر ووٹنگ کل تک موخر
اسلام آباد: ملک سے دہشت گردی کے خاتمے اور فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے 21ویں ترمیم پر ہونے والی ووٹنگ کل تک کے لیے موخر کردی گئی ہے۔
نمائندہ ڈان نیوز کے مطابق ووٹنگ کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے موخر کی گئی۔
ترمیم کی منظوری کے لیے ایوان میں کم از کم 228 اراکین کی ضرورت تھی تاہم ایوان میں صرف 218 اراکین موجود تھے۔
اجلاس سے خطاب میں21ویں آئینی ترمیم کا دفاع کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ پاکستانی فوج کو آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا پڑتا ہے تاہم دوسری جانب ایسی کوئی حدود نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے دشمن ہر حد پار کرچکے ہیں اس لیے فوجی عدالتیں ضروری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں نے اسکول میں گھس کر بچوں کو مارا جبکہ چند سالوں میں 40 ہزار سے زائد پاکستانیوں کا خون بہایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری عبادت گاہیں اور درس گاہیں بھی محفوظ نہیں، مسجدوں پر بھی خودکش حملے کیے گئے۔
چوہدری نثار نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت غیر معمولی صورتحال ہے اور ہم حالت جنگ میں ہیں جبکہ ملک کا بچہ بچہ جنگ کی صورت حال سے دو چار ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ دنیا میں ملٹری کورٹس جنگ و جدل کے دوران بنیں، نائن الیون کے بعد امریکا میں بھی فوجی عدالتیں بنیں۔
خطاب کے دوران ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد فساد چاپتے ہیں جبکہ ہم سب امن کے خواہاں ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ فوجی عدالتوں میں عام شہری اور سیاستدانوں کا ٹرائل نہیں ہوگا، ان میں صرف دہشت گردوں کا ٹرائل ہوگا۔
چوہدری نثار نے کہا کہ اگر فوج حدود کا خیال نہیں رکھتی تو ایک دن میں میرانشاہ کلیئر ہوجاتا۔
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستار نے کہا کہ اب لکیر کھینچنے کا وقت آگیا ہے، دہشت گرد اپنے برانڈ کا مذہب ہم پر مسلط کرنا نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ داعش اور طالبان ملک کے سب سے بڑے دشمن ہیں جبکہ سانحہ پشاور میں معصوم بچے اوراساتذہ کا خون بہایا گیا۔
فاروق ستار کا مزید کہنا تھا کہ اگر پہلے ہی اتفاق رائے بنالیا جاتا تو معصوموں کی جانیں بچ سکتی تھیں۔
مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں کا قیام:آئینی ترمیمی بل اسمبلی میں پیش
قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد بل سینیٹ میں چلا جائے گا جہاں سے منظوری ہونے پر اس پر صدر پاکستان دستخط کریں گے جس کے بعد 21 ویں ترمیم ملک میں لاگو ہو جائے گی۔
قومی اسمبلی میں 342 میں سے 228 ارکان اور سینیٹ کے 104 میں سے 70 ارکان کی حمایت سے 21 ویں ترمیم منظور ہو سکے گی۔
واضح رہے کہ اس بل کی منظوری کے ذریعے ملک میں 2 سال کے لیے فوجی عدالتیں قائم ہو جائیں گی۔
فوجی عدالتوں کا قیام انسداد دہشت گردی کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے جس سے دہشت گردی سے متعلق مقدمات کے فیصلے فوری طور پر ہوں گے۔
ان ترامیم سے مذہب یا فرقے کے نام پر دہشت گردی اور اغوا برائے تاوان کے ملزمان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا سکے گی۔
وفاقی حکومت کی منظوری سے سول عدالتوں میں دہشت گردی کے زیر سماعت مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں منتقل کیے جا سکیں گے۔
• پاکستان کے خلاف جنگ
• فوج پر حملہ
• اغوا برائے تاوان
• غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو مالی معاونت
• مذہب کے نام پر ہتھیار اٹھانا
• سول اور فوجی تنصیبات پر حملہ
• دھماکہ خیز مواد رکھنے یا کہیں لانے لے جانے جیسے جرائم پر مقدمات فوجی عدالت منتقل ہو جائیں گے۔
یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہشت گردوں کے حملے کے بعد سزائے موت پر غیر اعلانیہ پابندی کو ختم کر دیا گیا جبکہ گرفتار ہونے والے دہشت گردوں کو فوری سزاؤں کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام پر بحث کا آغاز ہوا تھا جس پر سیاسی جماعتوں میں کافی حد تک اتفاق ہو گیا ہے جبکہ اس پر مزید بحث کا بھی امکان ہے۔