پاکستان

کراچی کو سونامی سے بچانے والی ڈھال خطرے میں

آلودگی، ناقص نظام آبپاشی اور غیرقانونی کٹائی نے قدرتی ڈھال کو غیریقینی صورتحال کا شکار کردیا ہے۔

کراچی کو سونامی سے بچانے والی ڈھال خطرے میں

پاکستان کے صنعتی حب کراچی کو صدیوں سے بحیرہ عرب کی پرجوش لہروں سے تحفظ دینے والے ساحلی جنگلات برسوں سے جاری غیرقانونی کٹائی کے عمل اور آبپاشی کے ناقص نظام کی بدولت خطرے کے دہانے تک پہنچ گئے ہیں۔

ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مینگروو کے جنگلات کی شکل میں قائم اس قدرتی رکاوٹ کے خاتمے کی صورت میں دو کروڑ سے زائد آبادی والا شہر شدید سمندری طوفان اور سونامی جیسے بڑے خطرات میں گھر جائے گا۔

کراچی کے قریب دریائے سندھ کا ہمالیہ سے شروع ہونے والا طویل سفر سمندر میں گر کر ختم ہوتا ہے جہاں دریائی طاس پر مینگروو کے سرسبز جنگلات قائم ہیں جو ایسا قدرتی نظام ہے جو کھارے اور تازہ پانی کے ملنے سے فروغ پاتا ہے۔

ماہی گیر طالب کچھی کو اب بھی یاد ہے کہ وہ مون سون کے دوران آنے والے طوفانوں میں کس طرح مینگروو کے جنگلات میں پناہ لیتا تھا " جب بھی طوفان آتا ہم چار کشتیوں کو درختوں سے باندھ دیتے اور پھر اس میں بیٹھ کر آپس میں بات چیت اور گیت گاتے"۔

سمندری ماہر محمد معظم خان کے مطابق اب ان جنگلات کا رقبہ بہت کم رہ گیا ہے، بیسویں صدی کے آغاز پر یہ چھ لاکھ ہیکٹر رقبے تک پھیلے ہوئے تھے مگر اب یہ رقبہ صرف ایک لاکھ تیس ہزار ہیکڑ ہی رہ گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جنگلات کا بڑا حصہ غیرقانونی کٹائی، قریبی صنعتوں سے خارج ہونے والی آلودگی اور اوپری بہاﺅ پر سندھ اور پنجاب کے میدانی علاقوں میں کاشتکاری کے لیے آبپاشی نظام کے تحت دریائی بہاﺅ میں تبدیلیاں لانے سے متاثر ہوا ہے۔

مینگروو کے جنگلات میں پلنے والی مچھلیوں اور گھونگھوں کی فروخت سے اپنا روزگار کمانے والے ماہی گیر برسوں سے سمندری حیات کی افزائش نسل میں آنے والی کمی کے بارے میں بات کررہے ہیں مگر کراچی کے ساحلی علاقے ابراہیم حیدری سے کچھ دیر کے لیے کشتی میں سیر کے دوران صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ مقامی آبادی کس طرح مینگروو کے درختوں کو کاٹ کر لے جارہی ہوتی ہے۔

کچھ لوگ اس کے پتوں کو اپنے مویشیوں کی غذا کے لیے استعمال کرتے ہیں جبکہ دیگر شاخیں فروخت کرکے اپنا روزگار کماتے ہیں۔ حاجی ابراہیم نامی ایک بزرگ شخص نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ شاخوں کا ایک بنڈل دس سے بیس روپے میں فروخت کرتا ہے۔

مینگروو کی کٹائی غیرقانونی ہے مگر ایسا کرنے کی صورت میں زیادہ سے زیادہ سزا صرف 36 ہزار روپے تک جرمانہ ہے اور وہ بھی بہت کم ہی کسی ملزم کو دی جاتی ہے۔

آلودگی

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور اقتصادی و صنعتی مرکز ہے، یہاں کارخانوں کی بڑی تعداد کے نتیجے میں دریائے سندھ کے طاس میں آلودگی بھی بڑھی ہے۔

کراچی کے مشرقی حصے میں ایک پاور پلانٹ کے قریب مینگروو کے درخت خشک اور مرجھائے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں ان کے قریب مچھلیوں کی افزائش نسل متاثر ہوئی ہے اور اس چیز نے پاکستان فشرفوک فورم کے کمال شاہ کو مشتعل کردیا ہے۔

وہ کہتے ہیں " میں سمجھ نہیں سکتا کہ آخر لوگ مینگروو کو کیوں نشانہ بناتے ہیں، یہ تو بالکل ایسا ہی ہے کہ آپ اپنے پڑوسی کا پیٹ خالی کرکے اپنا بھررہے ہو"۔

ان کا کہنا ہے " اگر ہم کسی اور ملک میں ہوتے تو مینگروو کے جنگلات کو اہمیت اور تحفظ دیا جاتا، کیونکہ یہ ساحلوں سے ٹکرانے والے سمندری طوفانوں کی شدت میں کمی کے ساتھ سونی کی صورت میں بھی دفاعی حصار ثابت ہوتے ہیں"۔

ماضی میں یعنی 1945 میں ایک زیرسمندر زلزلے کے نتیجے میں سونامی کراچی سے ٹکرایا تھا جس کے نتیجے میں چار ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے جبکہ اقوام متحدہ نے حال ہی میں ایک مصنوعی زلزلے کے ٹیسٹ کے بعد پیشگوئی کی تھی کہ سونامی آنے کی صورت میں کراچی کو بہت زیادہ خطرات لاحق ہوسکتے ہیں بلکہ وہ صفحہ ہستی سے بھی مٹ سکتا ہے۔

سمندری ماہر محمد معظم خان جو ڈبلیو ڈبلیو ایف کے لیے بھی کام کرتے ہیں، کا کہنا ہے " مینگروو کے جنگلات بہت اہم ماحولی نظام ہے، یہ سمندری طوفان، سونامی اور دیگر قدرتی آفات کے سامنے پہلا دفاعی حصار ہیں"۔

تاہم حالیہ برسوں میں مینگروو کی دوبارہ بوائی سے امید کی کرن پیدا ہوئی ہے کہ اب تک ہونے والے نقصانات کی بھرپائی ممکن ہوسکے گی اور معظم خان بتاتے ہیں " اگر درختوں کو لگانے کا سلسلہ کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ دنیا میں بہت کم علاقے ایسے ہیں جہاں یہ درخت تیزی سے بڑھتے ہیں اور پاکستان ان میں سے ایک ہے"۔