فوجی عدالتیں صرف نواز دور میں کیوں؟
16 دسمبرکو پیش آنے والے سانحہ پشاور کے 16 دِن بعد جمعے کو اسلام آباد میں ہونے والی قومی کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں کے مابین فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے آئین اور آرمی ایکٹ میں ترمیم پر اتفاق ہوگیا۔ جس کے بعد آئین میں 21 ویں ترمیم کے لیے بل ہفتے کے روز قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔
کانفرنس کے بعد وزیرِ اطلاعات پرویز رشید کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالتوں کےقیام کےلیے آئین اورآرمی ایکٹ میں ترمیم کی جائے گی کیونکہ بچوں اور معصوم شہریوں کے قاتلوں کا ٹرائل عام عدالتوں میں ممکن نہیں ہے۔
وزیر اطلاعات کے اس بیان کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ آج تک عدالتوں نے جن مجرموں کو بھی بچوں اور معصوم شہریوں کے قتل کی سزا دی، وہ غلط تھیں اور وہ اس لیے کہ عدالتیں تو اس قابل ہی نہیں کہ وہ اِن سنگین جرائم کے مجرموں کو سزا دے سکیں۔ ملک میں پہلے سے قائم عدالتیں تو صرف ان مجرموں کے لیے تھیں جو کسی کی پشت پناہی کے بغیر جرم کرتے تھے۔ اس کا ثبوت یہ حکومتی فیصلہ ہے۔
پڑھیے: فوجی عدالتوں کا قیام:آئینی ترمیمی بل اسمبلی میں پیش
مانا کہ پاکستان اس وقت بلکہ پچھلے تیرہ سالوں سے حالاتِ جنگ میں ہے۔ سانحہ پشاور میں سو سے زائد معصوم پھول درندگی کا نشانہ بنے۔ مگر ظلم تو معصوم بچوں اور ان کے والدین کے ساتھ ہوا ہے، عدالتوں کے ججوں کے ساتھ تو نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ اس واقع کے بعد جج صاحبان خوفزدہ ہوگئے ہوں اور انھوں نے دہشتگردی کے مقدمے سننے سے انکار کر دیا ہو۔
مگر ایسا بھی نہیں کیونکہ اس سانحے کو ہوئے ابھی تو صرف کچھ دن ہوئے ہیں۔ دہشتگردی کے ملزم تو ثبوتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے پچھلے کئی سالوں سے باعزّت بری ہو رہے ہیں۔ ایسے ہی حالات پچھلی حکومت میں تھے مگر پیپلز پارٹی نے تو فوجی عدالتوں کے قیام کا مطالبہ کبھی نہیں کیا۔
حیرانگی کی بات یہ بھی ہے کہ جب بھی نواز شریف کی حکومت آتی ہے تو حکومت کو یا تو سڑکیں بنانا یاد آتی ہیں یا پھر عدالتیں۔ پہلے حکومت نے تحفظِ پاکستان آرڈیننس کے تحت خصوصی عدالتیں بنائیں اور اب فوجی عدالتیں۔ بس فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے حکومت کی طرف سےاس بار بہانہ مختلف چُنا گیا ہے۔
نواز حکومت کی طرف سے اپنے پہلے دور، پھر اپنے دوسرے دور اور اب اپنے تیسرے دور میں بھی فوجی عدالتوں کا قیام کیا اس بات کی نشاندہی نہیں کہ نواز حکومت کو اعلٰی عدلیہ سمیت کسی بھی عدلیہ پر بھروسہ نہیں اور یہی وجہ ہے کہ نواز حکومت اپنے ہر دور میں فوجی عدالتیں قائم کرتی ہے؟
مزید پڑھیے: ایک افسوسناک دن
ایک اور بات جو ذہن میں آتی ہے کہ سڑکوں کی طرح نواز شریف کو نئی عدالتیں بنانے کا بھی شوق ہے اور اسی وجہ سے اس دورِ حکومت میں پہلے تحفظِ پاکستان آرڈیننس کے ذریعے خصوصی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا اور اب آئین اور آرمی ایکٹ میں نئی ترامیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
کیا وجہ ہے کہ نواز حکومت کی جانب سے 2013 کےانتخابات کے بعد اقتدار میں آکر بھی عدلیہ پر بھروسہ نہیں کیا گیا جو اب ماضی کے مقابلے میں قدرے مستحکم اور غیر جانبدار ہے؟
اس میں کسی کو شک نہیں کہ آج عدلیہ جو آزاد اور غیر جانبدار ہے اس میں مسلم لیگ نواز کا بھی ہاتھ ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ مسلم لیگ نواز جو ابھی تک اپنی پیشانی سے سپریم کورٹ پر حملے کا کلنک نہیں مٹا سکی، عدلیہ کو ہی ہاتھ دکھا جائے-
شاید اس کی وجہ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری بھی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اگر وہ آج بھی سپریم کورٹ کے سربراہ ہوتے تو نواز حکومت فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ نہ کرتی اور سابق چیف جسٹس خصوصی کمیشن یا عدالتوں کے ذریعے دہشتگردی کے مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچاتے۔
ویسے بھی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان مبینہ طور پر الزام لگاتے ہیں کہ سابق چیف جسٹس نے نواز شریف کو جتانے کے لیے انتخابات میں دھاندلی کروائی تھی، لہٰذا سابق چیف جسٹس کی موجودگی میں نواز شریف فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کس منہ سے کرتے؟
جانیے: 'اکیسویں آئینی ترمیمی بل پرارکان پارلیمنٹ کے تاثرات'
جمعے کے روز ہونے والی قومی کانفرنس میں ظاہری طور پر فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کی آمادگی سامنے آئی ہے، حالانکہ پہلے پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی سمیت کئی دیگر جماعتوں کی طرف سے فوجی عدالتوں کے قیام پر تحفظات اور اعتراضات سامنے آرہے تھے۔ مگر آرمی چیف اور دیگر فوجی حکام کی موجودگی میں ہونے والی کانفرنس کے بعد وزیر اطلاعات کے مطابق تمام جماعتیں فوجی عدالتوں کے قیام پر رضا مند ہو گئیں۔
کانفرنس میں غیر سیاسی لوگوں کی شمولیت کے بعد وہ تمام سیاسی جماعتیں جو پہلے فوجی عدالتوں پر طرح طرح کے آئینی و قانونی و اخلاقی اعتراضات اٹھا رہی تھیں، یکایک اس مسئلے پر متفق ہوچکی ہیں جس سے کچھ سوال بھی اٹھ رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ 21ویں ترمیم پاس ہوپاتی ہے، یا پیر کے روز پارلیمنٹ میں ایک بار پھر اعتراضات یاد آجائیں گے؟
بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@
nasim.naveed@gmail.com
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔