بک ریویو: محبت کے 40 اصول
آج کی دنیا میں جب کہ انتہا پسندی نے انسانیت کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، مذہب کے نام پر منافرت پھیلائی جا رہی ہے، اقلیتوں کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں، نظریات کے پردے میں عدم برداشت کا عمل دخل بڑھ گیا ہے، عورتوں پر تشدد بڑھتا جارہا ہے ۔۔۔ ایلیف شفق کی کتاب "محبت کے چالیس اصول" (Forty Rules of Love) اس سلگتی دنیا میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے۔
ایلیف شفق ترکی کی ممتاز مصنفہ ہیں۔ وہ ترکی اور انگریزی دونوں زبانوں میں لکھتی ہیں۔ وہ تیرہ کتابوں کی مصنفہ ہیں جن میں سے سات ناول ہیں۔ ان کی کتابوں کے ترجمے چالیس زبانوں میں ہو چکے ہیں اور انہں متعدد انعامات بھی مل چکے ہیں۔
شفق کا یہ ناول تیرہویں صدی کے عظیم صوفی درویش شمس تبریز اور قرآن پاک کے عظیم اسکالر اور ممتاز شاعر مولانا جلال الدین رومی کے روحانی عشق کی داستان ہے۔ اس داستان کے متوازی محبت کی ایک اور داستان ہے جس کا تعلق اکیسویں صدی سے ہے۔
ایلا ایک امریکی یہودی ہے جو اپنی عمر کے چالیسویں سال میں قدم رکھ چکی ہے۔ اس کے بچے بڑے ہوچکے ہیں اور انہیں اب نگہداشت کی ضرورت نہیں رہی۔ شوہر کی بیوفائی اسے دل گرفتہ کردیتی ہے اور زندگی کے اس بحران سے گذرنے کے لیے وہ اپنے لیے کوئی کام ڈھونڈنے لگتی ہے۔ اسے انگریزی ادب سے دلچسپی ہے چنانچہ ایک پبلشنگ ہاؤس اسے ایڈیٹنگ کے لیے ایک ناول کا مسودہ بھیجتا ہے۔
ناول کا نام (Sweet Blasphemy) ہے جس کا مصنف عزیز زاہرا ایمسٹرڈیم میں رہتا ہے اور صوفی نظریات کا حامل ہے۔ یہ ناول شمس تبریز اور مولانا روم کے بارے میں ہوتا ہے۔ ایلا جیسے جیسے اس ناول کو پڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے اس کی دلچسپی اس ناول کے موضوع اور اس کے مصنف سے بڑھتی جاتی ہے۔ دونوں میں ای میل کے ذریعے تعلقات بڑھتے ہیں۔ خط و کتابت سے عزیز زاہرا کو ایلا کی خاندانی زندگی کے بحران کا علم ہوتا ہے اوروہ اسے صوفی ازم کے پس منظر میں اپنی شخصیت کو پہچاننے اور تبدیلی کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔
عزیززاہرا ایلا سے ملنے کا فیصلہ کرتا ہے اوراس کے شہر میں آتا ہے۔ ایلا اس سے ملنے کے بعد محبت کا مفہوم سمجھتی ہے۔ اس کے سامنے دو راستے ہیں۔ یا تو اپنے شوہر کی بے وفائی کو سہتی رہے اور اپنے بچوں کی زندگی میں غیرضروری طور پر دخل انداز ہوتی رہے جسے اس کے بچے پسند نہیں کرتے، یا اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کرلے۔ بالآخر وہ اپنے شوہر سے طلاق لینے کا فیصلہ کرلیتی ہے۔ اسی دوران اسے پتہ چلتا ہے کہ عزیز زاہرا کینسر کا مریض ہے اور اس کی زندگی کے چند ہی دن باقی رہ گئے ہیں جو وہ اس کے ساتھ گذارنا چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ اس کی زندگی کا خاتمہ اسی شہر میں ہو جہاں شمس تبریز اور مولانا روم ایک دوسرے کی روحانی محبت میں گرفتار ہوئے تھے۔
ایلا عزیز کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس کی تدفین (کونیا) ترکی میں کرتی ہے اور بیٹی کو بتاتی ہے کہ عزیز کا انتقال ہوچکا ہے۔ ایلا اب اپنی زندگی صوفی ازم پر چلتے ہوئے انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کردیتی ہے۔
یہ تو تھی اکیسویں صدی کی محبت کی کہانی۔ شفق نے اس کے متوازی شمس تبریز اور مولانا روم کے روحانی عشق اور شمس تبریز کی ان تعلیمات کو کہانیوں کی شکل میں بیان کیا ہے جو محبت کرنے کے چالیس اصولوں پر مبنی ہیں۔
شمس تبریز اپنے خواب کی تعبیر کی تلاش میں بغداد سے مولانا روم کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں اور کونیا پہنچتے ہیں۔ اس روحانی سفر کے دوران ان کی ملاقات مختلف کرداروں سے ہوتی ہے جو سماج کے ٹھکرائے ہوئے لوگ ہیں۔ حسن ایک بھکاری ہے جو اللہ تعالیٰ سے انصاف کا طلبگار ہے۔ وہ جذام کا مریض ہے اور لوگ اس سے دور بھاگتے ہیں۔ صحرا کا گلاب (Desert Rose) نامی طوائف ایک لڑکی ہے وہ مولانا روم کا وعظ سننے کے لیے مسجد میں مرد کا بھیس بدل کر پہنچتی ہے اور پہچان لی جاتی ہے۔
مسجد میں جمع ہجوم اس کا پیچھا کرتا ہے اور تشدد کے بعد اسے شہر سے باہر نکال دیتا ہے۔ لڑکی اپنی گناہ آلود زندگی سے باہر نکلنا چاہتی ہے لیکن نہیں نکل پاتی۔ شمس تبریز اس کی مدد کو پہنچتے ہیں اور اسے بتاتے ہیں کہ شرافت کا تعلق دل کی نیکی اورروحانی پاکیزگی سے ہے۔ اسی طرح شرابی سلیمان ہے جس کی زندگی کے شب وروز میخانے میں گذرتے ہیں لیکن وہ دل کا نیک ہے۔ شمس تبریز اسے بتاتے ہیں کہ دل کی نیکی باہر کی غلاظت کو دور کردیتی ہے۔ غرضیکہ شمس تبریز قرآنی تعلیمات کو اس کے صحیح مفہوم میں سمجھنے کا درس دیتے ہیں۔
بالآخر ان کی ملاقات مولانا روم سے ہوتی ہے جو مبلغ دین ہیں اور شہر شہر گھوم کر قرآنی تعلیمات کا درس دیتے ہیں۔ شمس تبریز اور مولانا روم ایک دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں۔ ان کے شب وروز ایک دوسرے کی صحبت میں گزرتے ہیں اور قرآنی تعلیمات کا ادراک کرتے ہیں۔ شمس تبریز مولانا روم کو شاعری کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اور اس طرح رومی کی عظیم شاعری مثنوی کی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے۔
مولانا روم کے دو بیٹے ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا علاؤالدین اپنے والد اور شمس تبریز کے روحانی عشق کو برداشت نہیں کرتا اوربالآخر شمس تبریز کو قتل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ دوسرا بیٹا اپنے والد کی شاعری کا مداح ہے۔ وہ ان کی شاعری کو تحریر میں لانے کا عزم کرتا ہے۔ مولانا روم کے لیے شمس تبریز کی جدائی کا غم ناقابل برداشت ہے۔ وہ شمس تبریز کی محبت کو اپنی شاعری میں جذب کر کے دنیا کے سامنے انسانیت کا درس پیش کرتے ہیں۔
مولانا روم صوفی رقص (Whirling Dervish) کے موجد ہیں۔ ایلیف شفق نے شمس تبریز اور مولانا روم کے روحانی عشق کی داستان میں صوفی ازم کا فلسفہ پیش کیا ہے جو انسانیت سے محبت کرنے کا فلسفہ ہے۔ صوفی ازم اور انسانیت سے محبت کا یہی درس ہے جو ہمیں کم و بیش 5 صدیوں بعد غالب، میر، اور دیگر شعرا کے کلام میں بھی نظر آتا ہے۔ غالب نے کیا خوب کہا ہے۔
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بتخانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
ہر جہت سے منفرد یہ کتاب مرد و خواتین اور جوان اور بوڑھے سب ہی پڑھ سکتے ہیں۔ اس کتاب کو شروع کرنے کے بعد رکنا، اور پڑھنے کے بعد اپنے اندر کوئی تبدیلی نہ محسوس کرنا ناممکن ہے۔
نام: فورٹی رولز آف لَو
مصنف: ایلیف شفق
پبلشر: وائیکنگ / پینگوئن
صفحات: 368
قیمت: 9.90 امریکی ڈالر
لکھاری فری لانس جرنلسٹ ہیں، اور سماجی مسائل اور ادب پر لکھنا پسند کرتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔