نقطہ نظر

2015: پاکستان کے لیے 7 اہم خبریں کون سی؟

2015 میں صرف 7 خبروں کا تجزیہ کر کے جانا جاسکتا ہے کہ پاکستان کس سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔

2015: پاکستان کے لیے 7 اہم خبریں کون سی؟

طاہر مہدی


اگر میں یہ کہوں کہ پاکستان اپنی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے، تو میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے زیادہ تر لوگ میری اس بات کو ہنسی میں اڑا دیں گے کیونکہ یہ بات لاکھوں بار کہی جاچکی ہے۔ اس لیے میں نے سوچا کہ صرف 7 چیزوں کی نشاندہی کردی جائے، اور پڑھنے والوں پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ پاکستان 2015 میں کس سمت میں آگے بڑھے گا۔

یہ لیجیے۔

1۔ شمالی ڈکوٹا میں جو کچھ بھی ہو


تیل پر یہ رسہ کشی 2015 میں بھی جاری رہے گی۔ تو آرام سے ٹیک لگا کر بیٹھیے، اور تیزی سے گرتی قیمتوں کا مزہ لیتے ہوئے امید کریں کہ اس سال کم لوڈ شیڈنگ ہوگی۔

کہتے ہیں کہ جب ہاتھیوں کی لڑائی ہوتی ہے، تو نقصان گھاس کا ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت عالمی معیشت کے ساتھ کچھ بالکل مختلف ہورہا ہے۔ جہاں ایک طرف تیل کی بڑی کمپنیوں کے درمیان جاری جنگ شدید تر ہوتی جارہی ہے، تو وہیں گھاس کا فائدہ ہوتا نظر آرہا ہے۔

عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں حالیہ تاریخ کی بدترین گراوٹ دیکھنے میں آرہی ہے۔ جون 2014 میں 115 ڈالر فی بیرل سے یہ وسط دسمبر میں 60 ڈالر فی بیرل تک ہوچکی ہے۔ مشہور میگزین دی اکنامسٹ کے مطابق تیل کی قیمت میں 40 ڈالر کمی سے تیل پیدا کرنے والوں سے صارفین کو 1.3 ٹریلین ڈالر منتقل ہوتے ہیں۔ (1.3 ٹریلین کتنا ہوتا ہے؟ 2013 میں چین کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) 9.24 ٹریلین تھی)۔

جون سے لے کر اب تک تقریباً 55 ڈالر کی کمی تمام ترقی پذیر معیشتوں کے لیے خوش آئند ہے۔ صارفین کی جیب میں زیادہ پیسہ ہونے کا مطلب ہے کہ تمام چیزوں کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے چیزوں کی تیاری پر کم لاگت آتی ہے، اور نتیجتاً ان چیزوں کی قیمتیں زیادہ لوگوں کی پہنچ میں ہوتی ہیں۔ گندم اگانے والے کسانوں سے لے کر عام شہریوں تک اور بڑے بڑے ایکسپورٹ آرڈر پورے کرنے والے صنعت کاروں تک، سب ہی کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔

پاکستانی حکومت جو تیزی سے شدید تر ہوتے توانائی بحران پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے، اس کے لیے یہ ایک نادر موقع ہے۔ یہ اس کا فائدہ سیاسی اور معاشی دونوں میدانوں میں اٹھا سکتی ہے۔ تیل کی کم قیمتوں کا مطلب توانائی کی پیداواری قیمت میں کمی ہے، جس سے لوڈ شیڈنگ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

اور تیل کی قیمتوں میں اس کمی کا سہرا شمالی ڈکوٹا اور ٹیکساس کی تیل کمپنیوں کو جاتا ہے، جنہوں نے ایک نئی تکنیک 'فریکنگ' کے ذریعے ان ذخائر سے بھی تیل حاصل کرنا شروع کردیا ہے، جو پہلے پہنچ سے باہر تھے، یا ان تک رسائی مہنگی سمجھی جاتی تھی۔ اس تکنیک سے حاصل شدہ ایندھن جسے 'شیل گیس' بھی کہا جارہا ہے، کی بے تحاشہ سپلائی نے تیل کی قیمتوں کو انتہائی کم سطح پر لا کھڑا کیا ہے۔ دی اکنامسٹ کے الفاظ میں کہیں تو اس وقت 'شیخوں اور شیل' کی جنگ جاری ہے، اور ابھی مزید حیران کن تبدیلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔

تو، اچھے وقت کا مزہ لیں، بہتر معیشت کی امید کریں، اور کہیں جائیے گا نہیں، کیوں کہ تیل پیدا کرنے والوں کے درمیان فری اسٹائل ریسلنگ میچ ابھی جاری ہے۔

2۔ اسلام آباد کی لال مسجد اور لاہور میں چوبرجی کے اندر اور باہر


اب جبکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ ایک نیا رخ لے چکی ہے، تو ہماری مقامی جنگجو تنظیموں کے ساتھ جو کچھ بھی ہوگا (یا نہیں ہوگا) ہمارے ملک کی نئی سوچ کو تشکیل دے گا۔

2014 کے اختتام پر لگتا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ ٹاپ گیئر میں جاچکی ہے، اور کلچ بھی مکمل طور پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اب یہ حتمی طور پر آگے بڑھ رہی ہے، اور طاقت اور عزم کے نئے اور کافی اشارے سامنے آچکے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جنگ جاری رہے گی۔

لیکن دھوکا مت کھائیے گا۔ پچھلی کچھ دہائیوں سے ہم پاکستانی جس دہشتگردی کا شکار ہیں، وہ صرف کچھ تشدد پسند اور گمراہ عناصر کا کام نہیں ہے۔ اس نے ہمارے معاشرے، ہماری سیاست، اور ہماری معیشت میں اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیں۔

دہشتگردی کی حمایت اور اسے جاری رکھنے کے لیے جن نظریات کو فروغ دیا گیا تھا، وہی نظریات یہ طے کرتے ہیں کہ ہم اپنے مذہب کو، مذہبی اقلیتوں کو، اور دیگر مذاہب کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ یہی نظریات یہ طے کرتے ہیں کہ نیشنل ازم کیا ہے، اور طے کرتے ہیں کہ ہم جس پاکستان میں رہتے ہیں وہ کس طرح کا ہوگا۔

یہ نظریات اور انہیں جاری رکھنے والے اسٹرکچر برف کے اس پہاڑ کی بنیاد ہیں، جس کی چوٹی دہشتگرد ہیں۔ بھلے ہی دہشتگردوں کی اموات معنی رکھتی ہیں، لیکن یہ کوئی ٹی 20 میچ نہیں، جس میں زیادہ اسکور بنا کر قوم کا جذبہ آسمان تک پہنچا دیا جائے۔

برف کے اس پہاڑ کی چوٹی، یعنی دہشتگرد، تو پگھلا دی جائے گی، سوال یہ ہے کہ بنیاد کے ساتھ کیا ہوگا۔

تو اگر آپ 2015 میں پاکستان میں حقیقی تبدیلی کے آثار دیکھنا چاہتے ہیں، تو یہ دیکھیں کہ اسلام آباد کی لال مسجد میں کیا ہوتا ہے، جس کے طلبا نے کھلم کھلا داعش کے جنگجوؤں کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔

یہ بھی دیکھیے گا کہ لاہور میں چوبرجی، جو جماعت الدعوۃ کا ورکنگ ہیڈکوارٹر ہے، اور جہاں سے ہندوستان کے خلاف زہر پھیلایا جاتا ہے، میں کیا ہوتا ہے۔ یہ ہیڈکوارٹر اس پوزیشن میں بھی ہے کہ منتخب حکومتوں کی جانب سے علاقائی تعاون کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کو واپس لینے پر مجبور کردے۔

یہ دیکھنا بھی اہم ہوگا کہ لشکرِ جھنگوی، اور اہلِ تشیع کے خلاف 'جہاد' کر رہی درجنوں دیگر تنظیموں کے ساتھ کیا ہوتا ہے، جو پاکستان میں عقائد کو نفرت سے بھر دینے، اور برداشت کو غداری قرار دینے میں اہم کردار ادا کرچکی ہیں۔

3۔ کابل کی برف کے نیچے کیا چھپا ہے؟


کیا ہم افغانستان میں پاکستان کی جنگی حکمتِ عملی، خفیہ معاہدوں، اور طالبان کا اختتام، اور امن اور علاقائی تعاون پر مبنی نئے عہد کا آغاز دیکھیں گے؟

21 مارچ 2015 کو افغانستان میں نوروز منایا جائے گا۔ پورے وسط ایشیائی خطے بشمول ایران اور افغانستان میں یہ بڑے سالانہ تہواروں میں سے ایک ہے۔ یہ بہار کی آمد پر منایا جاتا ہے جب زندگی ایک چکر مکمل کر کے دوسرا شروع کرتی ہے۔ برف پگھلتی ہے، ندیوں میں پانی ایک بار پھر بہنا شروع ہوتا ہے، اور نئے سال کا آغاز ہوتا ہے۔

سورج کی تیز روشنی کے ساتھ ہی برف کی گہری چادر تلے دبی ہوئی کئی چیزیں سر اٹھانا شروع کرتی ہیں۔ اس میں پھول اور پرانے زخم دونوں شامل ہیں۔ آنے والی بہار افغانیوں کے لیے ایک غیر معمولی وقت ہوگا، کیونکہ تین دہائیوں پر مبنی خون ریزی کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب ایک پرامن مستقبل کی امیدیں مضبوط ترین ہوں گی۔

زیادہ تر امریکی اور اتحادی فوجی اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہوں گے، جبکہ باقی براہِ راست لڑائی سے دور رہیں گے، جس کا مطلب یہ ہے کہ افغان نیشنل آرمی اپنے دشمن طالبان کے آمنے سامنے ہوگی۔

یہ طالبان کے لیے آخری موقع ہوگا کہ وہ افغانستان میں موجود سسٹم کو درہم برہم کر کے اپنی امارت (یا خلافت) کو واپس بحال کرسکیں، جو امریکی افواج نے 2001 میں ختم کردی تھی۔

جنگجو قوت کے طور پر طالبان اب بہت کمزور ہوچکے ہیں۔ ان کی سپلائی لائنز محدود ہوچکی ہیں، جبکہ ان کا مورال بھی گر چکا ہے۔ آنے والی بہار یہ واضح کردے گی کہ بحیثیت جنگجو قوت طالبان کتنے طاقتور ہیں۔ انہیں جنگ میں حتمی شکست دینے اور ان کے ساتھ کیے گئے امن معاہدوں کو توڑنے کے لیے اقدامات بھی کیے جارہے ہیں۔

افغانستان میں میدانِ جنگ اور مذاکرات کی میز پر جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ پاکستان کے لیے بھی اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ یہی پائیدار امن، علاقائی تعاون اور معاشی ترقی کی راہ ہموار کرسکتا ہے، اور اگر کچھ غلط ہوا، تو یہ صرف معمولی تعطل نہیں ہوگا بلکہ اس سے حالات مزید خراب ہوں گے۔

طالبان کی واپسی کے آثار نہیں لگتے، لیکن کابل پر پریشانی اور امید کے ساتھ نظر رکھیں۔

اور ویسے پاکستان کی افغانستان میں مزید حکمتِ عملی افغانستان میں امن کے لیے انتہائی خطرناک ہوگی۔ تو اگر آپ 'پاکستان دنیا بھر سے زیادہ عظیم ہے' کی سوچ رکھتے ہیں، تو نیشنل ازم پر ایک کورس دوبارہ کرلیجیے۔

4۔ کیا 'علاقہ غیر' 'اپنا' بنے گا؟


ایک طویل عرصے سے رکے ہوئے کام، یعنی فاٹا کو پاکستان میں ضم کرنے اور قبائلی بھائیوں کو پاکستانی شہری بنانے کا وقت آچکا ہے۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جاری فوجی کارروائی نے بڑی تعداد میں مقامی افراد کو نقل مکانی پر مجبور کیا ہے۔ جیسے ہی یہ کارروائی اپنے نتائج حاصل کرتی جائے گی، آئی ڈی پیز اپنے گھروں کو لوٹنا چاہیں گے۔

لیکن کیا وہ اسی فاٹا، جسے مقامی زبان میں علاقہ غیر بھی کہا جاتا ہے، لوٹیں گے جو اب تک کالونیل طرز کے نظامِ حکومت کے تحت ہے؟ یہ علاقہ ایک طویل عرصے سے 'نیم حکومت' کے زیرِ انتظام ہے، جس کا مطلب ہے کہ شہریوں کو حقوق حاصل نہیں جبکہ حکام پر کوئی ذمہ داریاں نہیں۔

پاکستان کا یہ علاقہ طویل عرصے سے لاقانونیت میں رکھا گیا ہے، اور اسے ایسی فیکٹری میں تبدیل کردیا گیا ہے جہاں سے نظریاتی قاتل پیدا ہوتے ہیں، جو مشتبہ مقاصد کے لیے لڑتے ہیں تاکہ خارجہ پالیسی کے محاذ پر کچھ چیزیں حاصل کی جاسکیں۔ پاکستان اب اپنے ان اسٹریٹیجک اثاثوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتا ہے، جو ایک بدل چکے عالمی منظرنامے میں صرف ایک بوجھ بن کر رہ گئے ہیں۔

لیکن اگر پاکستان واقعی عسکریت پسندی کو جڑ سے اکھاڑنا اور اس کے واپس سر اٹھانے کو ناممکن بنانا چاہتا ہے، تو اسے 'جان قربان کردینے کو تیار غیور قبائلیوں' کے نظریے کو چھوڑنا ہوگا۔ اسے قانون کی حکمرانی کو ان علاقوں تک بڑھانا ہوگا، اور قبائیلیوں کو اپنا ایسا شہری تصور کرنا ہوگا جنہیں اسکول، کالجوں، یونیورسٹیوں، ہسپتالوں، کلینکس، پولیس، اور دیگر شہری سہولیات کی ضرورت ہے۔

فاٹا کو وفاقِ پاکستان میں ضم کرنے کے لیے تمام پارٹیوں میں اتفاقِ رائے ہونا ضروری ہے، جبکہ اس کے لیے آئینی ترامیم کرنا ہوں گی۔ ہوسکتا ہے کہ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ضروری ہو کہ پاکستان اور افغانستان اپنے درمیان موجود سرحد ڈیورنڈ لائن کے بارے میں مذاکرات کریں۔

تو قبائلی علاقوں کو پاکستان میں شامل کرنے پر بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس کی تفصیلات اہم ہوں گی، اور ایسی کسی بھی خبر کی غیر موجودگی پریشان کن ہوگی۔

5۔ کیا عمران خان واپس آئیں گے؟


دھرنا ختم ہوا ہے لیکن مسائل نہیں۔ پی ٹی آئی کی اگلی سیاست کیا ہوگی؟ کیا نیا سال نیا عمران خان بھی لائے گا؟

عمران خان نے 16 دسمبر کے سانحے کے بعد اپنے سیاسی کریئر کا سب سے بڑے ایڈونچر ختم کرنے کا اعلان کیا۔ ان کی تحریک ویسے بھی بند گلی میں تھی، اور ان کے کئی ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت اب ایک باعزت واپسی کے موقع کا انتظار کر رہی تھی۔

پاکستان تحریک انصاف اب 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کے معاملے پر حکمران جماعت سے مذاکرات کر رہی ہے۔ فی الحال تو مذاکرات کسی نتیجے تک پہنچتے ہوئے نہیں دکھائی دیتے، لیکن پھر بھی یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ مستقبل میں یہ کس نقطے پر پہنچتے ہیں۔

دہشتگردی کے خلاف مہم نئے مسائل سامنے لائے گی، جبکہ 2015 کا دوسرا نصف آتے آتے قومی سیاسی ایجنڈے تبدیل ہونے کی بھی توقع ہے۔ اگر یہ مہم جلد کامیاب ہوگئی، تو کون اس کا کریڈٹ لے گا اور اسے سیاسی طور پر کیش کرائے گا؟ اور اگر یہ ناکام ہوجاتی ہے تو اس سے جنم لینے والے نئے مسائل کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے گا؟

شاید پی ٹی آئی کی سیاست صرف گذشتہ انتخابات میں دھاندلی کے مسئلے تک محدود نہ رہے۔

خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت اس وقت مرکزی اہمیت کی حامل ہے، اور دہشتگردی کے خلاف مہم کے بارے میں اس کے اقدامات اور موقف پر قومی سطح پر طویل بحث اور مخالفت ہوگی۔ اس صوبے میں پی ٹی آئی اتحادی حکومت کی قائد ہے، جبکہ ایوان میں اس کی پوزیشن مضبوط نہیں ہے۔

مختصراً کہیں تو جیسے جیسے نئی سیاسی حقیقتیں جنم لیں گی، ویسے ویسے سیاست کرنے کے لیے نئے مواقع بھی میسر آئیں گے۔

یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ پی ٹی آئی کس روپ کا انتخاب کرتی ہے، کیونکہ اس کا انتخاب نہ صرف آنے والے سال میں روز مرہ کی سیاست پر اثرانداز ہوگا، بلکہ آنے والے سالوں میں خیبرپختونخواہ اور پنجاب کی سیاست پر بھی اثرانداز ہوگا۔

تو ہم سانس روکے نئے عمران خان کے منتظر ہیں۔

6۔ مڈ ٹرم فیصلہ؟


بلدیاتی انتخابات کرانے کا پریشر پہلے سے کہیں زیادہ ہوگا۔ طاقت کے نظام میں تبدیلیاں ممکن ہیں۔

بھلے ہی نواز شریف کی حکومت پی ٹی آئی کی سیاسی مہم کے اچانک خاتمے پر سکھ کا سانس لے رہی ہے، لیکن ابھی اس کی باقی مدت کے لیے مسائل کا اختتام نہیں ہوا ہے۔ ابھی اس کو مزید کئی چیلنجز کا سامنا کرنا ہے، جن میں سے ایک مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانا ہے۔

بلدیاتی انتخابات کرانا منتخب حکومتوں کی آئینی ذمہ داری ہے اور سپریم کورٹ مسلسل ان پر یہ کروانے کے لیے پریشر ڈال رہی ہے۔ لیکن حکومتیں بھی ایک کے بعد ایک وجوہات کو بہانہ بنا کر اس مسئلے کو التوا میں ڈالے ہوئے ہیں۔ سکیورٹی صورتحال ایک اور بہانہ فراہم کرسکتی ہے لیکن اب یہ زیادہ عرصے تک نہیں چلے گا۔

سپریم کورٹ نے حال ہی میں وفاقی حکومت سے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کروائی ہے، ایک اور ذمہ داری جسے حکومت پورا کرنے سے انکاری تھی۔

بلدیاتی انتخابات صرف اس لیے اہم نہیں ہوں گے کہ یہ انتخابی جمہوریت کو عام آدمی کی پہنچ میں لائیں گے، بلکہ اس لیے بھی کہ انہیں مڈٹرم الیکشن بھی قرار دیا جاسکے گا۔ ان انتخابات کے مجموعی نتائج میں قومی سیاست کا رخ تبدیل کرنے جتنی طاقت ہوگی۔

مثال کے طور پر اگر پی ٹی آئی بلدیاتی انتخابات میں خیبرپختونخواہ میں کامیابی اور پنجاب میں الیکشن 2013 والی یا اس سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے، تو یہ نواز شریف کی حکومت کو ایک نئی توانائی اور ایک مستحکم قانونی پوزیشن سے چیلنج دے سکے گی۔

دوسری طرف اگر پاکستان مسلم لیگ ن پنجاب میں اپنی پوزیشن برقرار رکھتی ہے، یا مزید سیٹیں جیت جاتی ہے، تو یہ خود کو 2018 کے عام انتخابات تک محفوظ سمجھے گی۔ بلدیاتی انتخابات کراچی اور باقی کے سندھ کے درمیان موجود طاقت کے توازن کو بھی توڑ سکتے ہیں۔

تو بلدیاتی انتخابات جب بھی ہوں، چاہے 2015 میں یا اس سے اگلے سال، نئی سیاسی حقیقتوں کو جنم دیں گے۔

7۔ ڈالروں کی بارش


بےتحاشہ غیرملکی سرمایہ کاری پاکستان آنے کے لیے بے تاب ہے، انتظار صرف دہشتگردی کے خاتمے کا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم خرابی کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔

بیسیوں ارب ڈالر کے میگا پراجیکٹس پاکستان کے مشرق، مغرب، اور شمال میں قائم ہونے کے لیے تیار ہیں۔ چین اپنے تیزی سے ترقی پاتے شمال مغربی علاقے سنکیانگ تک رسائی ممکن بنانے کے لیے ٹریڈ کوریڈور بنانے کے لیے بے چین ہے۔ اس کے علاوہ یہ افغانستان میں واقع دنیا کی دوسری بڑی تانبے کی کان پر بھی کام کرنے کا خواہشمند ہے۔

افغانستان اور ہندوستان پاکستان کے ذریعے راستہ چاہتے ہیں، کیونکہ ہندوستان افغانستان کے علاقے بامیان میں موجود لوہے کی کان تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔

اس کے علاوہ کچھ ہی دن پہلے تاجکستان نے پاکستان سے زمینی روٹ استعمال کرنے کی اجازت مانگی ہے تاکہ مشرقِ وسطیٰ سے تیل امپورٹ کیا جاسکے۔ تاجکستان سے افغانستان، پاکستان، اور ہندوستان تک گیس پائپ لائن پراجیکٹ پر بھی گذشتہ کچھ سالوں سے مذاکرات جاری ہیں۔

یہ پراجیکٹس ہماری معیشت کے لیے ترقی کا پیغام لائیں گے، اور ہماری مڈل کلاس کا سائز بڑھائیں گے۔ یہ مواقع ہمارے دروازے پر دستک دیے جارہے ہیں، اور جیسے ہی دہشتگردی ختم ہوگی، تو یہ دروازے سے اندر آجائیں گے۔

میگا پراجیکٹس کے سرمایہ کار اپنے پراجیکٹس کی راہ میں حائل ہونے والی مشکلات کا اندازہ بہت گہرائی سے لگاتے ہیں، اور جب تک ملک میں دہشتگردی موجود ہے تب تک ان پراجیکٹس پر کام آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ تو اگلے سال جب بھی آپ کو ایسا لگے کہ دہشتگردی کم ہوئی ہے، تو امید رکھیں کہ کئی ارب ڈالر کے پراجیکٹس فوراً شروع ہوں گے۔ اور اگر آپ ان پراجیکٹس کے شروع ہونے کی خبر سنیں، تو سمجھ جائیں کہ ہم اپنے ملک میں دہشتگردی کے مسئلے کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


طاہر مہدی جمہوریت اور گورننس پر ریسرچ کرنے والے ادارے پنجاب لوک سجاگ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر TahirMehdiZ@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

طاہر مہدی

لکھاری الیکشن اور گورننس میں دلچسپی رکھنے والے آزاد محقق ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر TahirMehdiZ@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔