2014: ایم کیو ایم میں' فالٹ لائنز 'عیاں
کراچی: گزشتہ سال کے وسط میں منظر عام پر آنے والے انتہائی شدید اندرونی بحران کے باعث متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) میں 2014 میں کمزوریوں کی نشاندہی ہونا شروع ہو گئی ہے۔
25 سال پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ پارٹی کے قائد الطاف حسین کو گرفتار کیا گیا تاہم بعد میں وہ ضمانت پر رہا ہو گئے۔
ریلیوں، عوامی اجتماعات، احتجاجوں کے ساتھ ساتھ اتحادی حکومت چھوڑنا اور اس میں شمولیت کا عمل اسی جذبے کے ساتھ جاری و ساری ہے تاہم تنظیمی ڈھانچے کو اندرونی اختلافات کے باعث دھچکا پہنچا اور درپیش متعدد مسائل کے سبب متحدہ کی مجموعی سمت متاثر ہوئی ہے۔
گزشتہ 22 سال سے لندن میں مقیم پارٹی کے سربراہ کی ابھی پارٹی کے معاملات پر گرفت مضبوط ہے پارٹی کے اندر غیر یقینی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ سینئر رہنما بھی یہی سوچتے ہیں کہ شاید وہ اگلے دن اپنے عہدے پر قائم نہ ہوں۔
ابھی تک الطاف حسین کے خلاف باقاعدہ کوئی مقدمہ تو درج نہیں کیا گیا لیکن ان کے خلاف لندن میں مختلف سنگین جرائم کی تحقیقات جاری ہے۔
پارٹی کے سابق اور موجودہ عہدیداران نے تسلیم کیا کہ پارٹی میں تسلسل کی کمی کی وجہ سے سال 2014 میں معاملات بتدریج خراب ہو گئے۔
انہوں نے بتایا کہ اہم حلقوں میں پانی کی کمی، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور صفائی کی ابتر صورتحال جیسے مسائل درپیش ہیں لیکن متحدہ اندرونی مسائل کے سبب ان حلقوں کے مسائل حل کرنے کی جانب توجہ نہیں دے پا رہی۔
یہ سب کچھ 11 مئی 2013 کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد شروع ہوا۔
الطاف حسین نے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو ایک خطاب کیا جس کے بعد کارکنوں نے سینئر رہنماؤں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے مار پیٹ کی۔
آئندہ کچھ دنوں کے دوران الطاف حسین نے رابطہ کمیٹی تحلیل کرتے ہوئے نئی کمیٹی تشکیل دی۔
بعد ازاں انیس قائم خانی اور کراچی کے سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال جیسے ایم کیو ایم کے سینئر رہنما یا تو ملک چھوڑ گئے یا پھر پارٹی میں غیرفعال ہو گئے۔
اپریل 2014 میں ایم کیو ایم نے مصطفیٰ کمال کا استعفیٰ چیئرمین سینیٹ کے سامنے پیش کیا اور اگلے ماہ مولانا تنویر الحق تھانوی اس خالی نشست پر بلامقابلہ منتخب ہو گئے۔
اپریل میں ہی ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی کی زیر قیادت سندھ حکومت میں شمولیت اختیار کی لیکن صوبائی حکومت میں یہ قیام انتہائی مختصر ثابت ہوا اور چھ ماہ سے بھی کم عرصے میں وہ حکومتی اتحاد سے الگ ہو گئے۔
ایک طرف پارٹی معاملات میں پیشرفت جاری تھی لیکن اندرونی بحران 25 مئی اس وقت شدت اختیار کر گیا جب ایم کیو ایم نے ایم اے جناح روڈ برطانوی حکومت کے خلاف دھرنا دیا، اس کی وجہ سے برطانوی حکومت کی جانب سے الطاف کو ’نشانہ‘ بنانا قرار دیا۔
3 جون کو الطاف حسین کو منی لانڈرنگ کیس میں ملوث ہونے کے شبے میں لندن پولیس کے تفتیش کاروں نے گرفتار کیا۔
ایک سینئر رہنما نے اس دن کا ذکر کچھ یوں کیا، ’یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور پورا کراچی چند لمحوں میں بند ہو گیا لیکن اس موقع پر کارکنوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کا درس دینے کے بجائے ہمارے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں تھا‘۔
انہوں نے کہا کہ حیدر عباس رضوی نے نمائش چورنگی پر دھرنا دینے کا فیصلہ کیا کیونکہ ہماری ترجیح کارکنوں کو ایک جگہ جمع کرنا تھا تاکہ انہیں کنٹرول کیا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ دھرنے میں شرکا کی تعداد غیر متاثر کن تھی تاہم اس کے باوجود یہ 8جون کی صبح اس وقت تک جاری رہا جب الطاف حسین نے رہائی کے بعد کارکنوں کو گھر جانے کی تلقین کی۔
ذرائع نے بتایا کہ جب الطاف حسین کو دھرنے میں شرکاء کی اصل تعداد سے آگاہ کیا گیا تو وہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی زیر قیادت نئی ٹیم کی کارکردگی سے شدید مایوس ہوئے اور پارٹی کی سینئر قیادت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔
ایم کیو ایم کے قائد نے آدھے درجن سے زائد مواقع پر عوامی سطح پر پارٹی کی قیادت چھوڑنے کی بھی دھمکی دی۔
جولائی میں انہوں نے رابطہ کمیٹی کے 19 اراکین کو کچھ چھوٹی وجوہات کی بنا پر مختصر دورانیے کے لیے معطل کیا، 4ستمبر کو انہوں نے کراچی رابطہ کمیٹی تحلیل کرتے ہوئے کمیٹی کو دھمکی دی کہ وہ اپنے راستہ ٹھیک کر لے۔
ایم کیو ایم کی کراچی تنظیمی کمیٹی کو اپنا روایہ درست نہ کرنے کے الزام میں 4 ستمبر کو تحلیل کر دیا گیا۔
اسی مہینے الطاف حسین نے ایک بار پھر پارٹی کی قیادت چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے رابطہ کمیٹی پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ جون میں میری گرفتاری پر بعض رابطہ کمیٹی کے اراکین خوش تھے۔
10 دسمبر کو ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کو الطاف حسین نے ایک بار پھر تحلیل کر دیا اور اس پر الزام عائد کی کہ یہ کمیٹی بھی بد عنوانی میں ملوث ہے اسی الزام کے تحت ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے گزشتہ کمیٹی کو بھی گھر بھیج دیا تھا، اب رابطہ کمیٹی کی جگہ ایک ایڈہاک کمیٹی معاملات کی نگرانی کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔
ذرائے کا کہنا ہے کہ الطاف حسین ایم کیو ایم میں آنے والی کمزوریوں سے واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ کمزوریاں ان کے لیے انتخابات میں نقصان دہ ثابت ہوں گی،اسی لیے ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ 2014 میں ’’مہاجر سیاست‘‘ کی جانب واپس آئے ہیں تاکہ ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کو محفوظ کر سکیں۔
2014 کے دوران ایم کیو ایم اپنے کارکنان کی مبینہ ’’ماورائے عدالت چھاپوں، گرفتاریوں اور قتل‘‘ کے خلاف احتجاج کرتی ہوئی نظر آئی جس میں کئی بار شہر کو بند بھی کیا گیا۔
اس سال میں ایم کیو ایم نے نئے صوبوں کے معاملے کو اٹھاتے ہوئے کم از کم 20 انتظامی یونٹس بنانے کا بھی مطالبہ کیا۔
ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد خورشید شاہ کے خلاف بھی لفظ ’مہاجر‘ کو گالی قرار دینے کے بیان پر بھی احتجاج ریکارڈ کروایا۔
جولائی مہینے میں ایم کیو ایم نے شاراہ فیصل پر فوج کے حق میں بھی ریلی کا انعقاد کیا۔
دسمبر میں بھی سانحہ پشاور کے بعد متحدہ نے طالبان کے خلاف اور فوج کی حمایت میں ریلی کا اہتمام کیا۔
متحدہ قومی موومنٹ کی گزشتہ رابطہ کمیٹی میں شامل ایک سینئر پارٹی رہنما کا کہنا تھا کہ سیاسی طور پر تو ہم مضبوط ہیں مگر پارٹی کے اندر کی صورتحال درست نہیں ہے اس کمزوری کو اب پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔