فوجی عدالتیں: حکومت کا بنیادی آئین میں تبدیلی پرغور
اسلام آباد: حکومت کے قانونی مشیر ملک میں فوجی عدالتیں قائم کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل (1) 8 اور 212-A اور B میں ترمیم پر غور کر رہے ہیں۔
اس معاملے پر ہونے والی پیش رفت سے آگاہ معتبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ زیر غور مجوزہ ترامیم، آئین کی انہی دو شقوں میں متعارف کرائی جائیں گی۔
واضح رہے کہ آرٹیکل 8 بنیادی حقوق کی نفی کرنے والے قوانین ختم کرنے جبکہ آرٹیکل 212 عدالتوں اور ٹریبونلز کے انتظامی امور سے متعلق ہے۔
ان دو آرٹیکلز میں ترامیم کی صورت میں مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف خصوصی عدالتیں قائم کرنے کے لیے 1952 کے آرمی ایکٹ میں تبدیلیاں کی جائیں گی۔
مجوزہ آئینی ترامیم کے مطابق فوجی عدالتیں دو سال تک فعال رہنے کے بعد ختم ہو جائیں گی۔
سرکاری ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ' آئینی ترامیم کا یہ پہلا مسودہ ہے، جسے حکومت جلد از جلد ایوان میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے'۔
آرٹیکل 8 کہتا ہے کہ 'کوئی قانون یا رسم و رواج جو قانون کا حکم رکھتا ہو، تناقض کی اس حد تک کالعدم ہو گا جس حد تک وہ اس باب میں عطا کردہ حقوق کا نقیض ہو'۔
سپریم کورٹ کی وکیل اور انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی سابق چئیرپرسن عاصمہ جہانگیر نے مجوزہ آئینی ترامیم کے حوالے سے ڈان کو بتایا کہ 'یہ پہلے دن سے واضح تھا کہ فوجی عدالتیں قائم کرنے سے پہلے حکومت کو بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ دینے والی آئینی شقیں تحلیل کرنا ہوں گی'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ آئین میں ان ترامیم کی وجہ سے ہر شہری کو حاصل منصفانہ ٹرائل کے حق پر مبنی آرٹیکل 10-A بھی متاثر ہو گا۔
اس آرٹیکل کے مطابق: کسی شخص کو جسے گرفتار کیا گیا ہو، مذکورہ گرفتاری کی وجوہ سے، جس قدر جلد ہو سکے، آگاہ کیے بغیر نہ تو قید رکھا جائے گا اور نہ اسےاپنی پسندکے کسی قانون پیشہ شخص سے مشورہ کرنے اور اس کے ذریعہ صفائی پیش کرنے کے حق سے محروم کیا جائے گا۔
عاصمہ جہانگیر کے خیال میں اس مشق سے عدلیہ کی آزادی شدید متاثر ہو گی۔
المیہ یہ ہے کہ ماضی میں بھی ایسے ہی اقدامات اٹھائے گئے تھے لیکن ہر مرتبہ وہ ضروری نتائج دینے میں ناکام رہے۔
عاصمہ کے مطابق حکومتی شخصیات ماضی سے سبق سیکھنے سے قاصر ہیں۔
عاصمہ نے سوال کیا کہ حکومت کے مطابق فوجی عدالتیں صرف دو سالوں تک فعام رہی گی ۔کیا اس کے بعد موجودہ عدالتیں متحرک ہو سکیں گی؟
' عدالتوں کو قصوار وار ٹہرانے کے بجائے وزیر اعظم تسلیم کریں کہ فوج دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کے ایک حصہ کے طور پرخصوصی عدالتیں قائم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے'۔
'مجھے حیرت ہے کہ آخر کیوں حکومت آئین کی روح کے منافی اس پیش رفت کے لیے بہانے تراش رہی ہے'۔
سابق وزیر قانون اور سپریم کورٹ کے وکیل ڈاکٹر خالد رانجھا نے ڈان کو بتایا کہ حکومت فوجی عدالتیں قائم کرنے کے لیے خواہ کوئی بھی راستہ اپنائے 'مجھے مطلوبہ نتائج ملنے کی ہرگز امید نہیں'۔
'ماضی میں جب بھی ایسے اقدامات اٹھائے گئے، ان پر چھ مہینوں کے اندر اندرشدید تنقید شروع ہو گئی اور بلاآخر عوام کی نظر میں فوج کا رتبہ اور مقام کم ہوا'۔
سپریم کورٹ کے ایک اور وکیل اور اِن دنوں سابق صدر پرویز مشرف کی خصوصی عدالت کے سامنے نمائندگی کرنے والے فواد چوہدری نے کہا کہ موجودہ آئینی فریم ورک میں فوجی عدالتوں کی گنجائش نہیں۔
فواد نے 1999 میں شیخ لیاقت حسین کیس پر سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اس فیصلے پر جسٹس منور مرزا نے ایک اضافی نوٹ بھی تحریر کیا تھا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر یاسین آزاد نے ڈان کو بتایا کہ بار مجوزہ فوجی عدالتوں کے قیام کو چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ اس حوالے سے حکومتی بل کے حتمی مسودہ کا انتظار کر رہے ہیں۔