خطیب لال مسجد کی گرفتاری، پولیس ہچکچاہٹ کا شکار
اسلام آباد: سول سوسائٹی کے اراکین کو دھمکی دینے پر متنازع لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کے خلاف جمعہ کو مقدمہ درج اور وارنٹ گرفتاری جاری کیے جانے کے بعد معاملہ گرم ہو گیا ہے۔
لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کی جانب سے پشاور سانحے کی مذمت سے انکار کے بعد سول سوسائٹی کے اراکین نے ان کے خلاف احتجاج کیا تھا جس پر مسجد کے خطیب نے انہیں دھمکیاں دی تھیں۔
پولیس افسران نے ڈان کو بتایا کہ آرمی پبلک اسکول میں ہونے والے قتل عام کے بعد پیدا ہونے والی موجودہ تناؤ کی صورتحال کے پیش نظر حکومت نے انسداد دہشتگردی ایکٹ کے شیڈول 4 کے ضمرے میں آنے والے تمام افراد کی گرفتاری کے احکامات پہلے ہی جاری کردیے تھے۔
تاہم پولیس افسران کا کہنا ہے کہ عبدالعزیز کے معاملے میں احکامات پر عمل درآمد کے سلسلے میں وہ مشکلات کا شکار ہیں اور اگر انہیں امن عامہ کے قیام کے ایکٹ(ایم پی او) کے تحت گرفتار کیا جاتا ہے تو اس سے امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
لال مسجد کے خطیب گزشتہ ہفتے جمعہ کے خطبے میں پہلے ہی دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر انہیں گرفتار کیا گیا تو ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع کردیے جائیں گے۔
سید نعیم اطہر بخاری، محمد جبران ناصر، فرزانہ باری، شان تاثیر اور یگر کی شکایت پر 19 دسمبر کو خطیب کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ایف آئی آر میں مجرمانہ دھمکیوں کے الزام میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 506(2) شامل کی گئی تھی جو ایک ناقابل ضمانت جرم ہے۔
جمعہ کو آبپارہ پولیس کے حکام سول کورٹ کے جج ثاقب جواد کے سامنے حاضر ہوئے اور مقدمے کی تفتیش میں تعاون نہ کرنے پر عبدالعزیز کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی درخواست کی۔ بعدازاں جج نے وارنٹ گرفتاری جاری دیے اور حکام کا کہنا ہے کہ وہ احکامات پر عملدرآمد اور خطیب کی گرفتاری کے لیے پرعزم ہیں۔
تاہم حکام کا کہنا ہے کہ اگر عبدالعزیز رضاکارانہ طور پر تفتیش میں تعاون کرتے ہیں تو ان کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جائے گی لیکن اس اس معاملے میں بھی انہیں خود کو بےقصور ثابت کرنا ہو گا بصورت دیگر ان کی گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔
ایک سینئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وارنٹ گرفتاری حاصل کرنے کے بعد وہ خطیب کے پاس پہنچے جنہوں نے مقدمے میں تعاون کی درخواست قبول کر لی تاہم مولانا عزیز نے اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ شکایات میں دھمکی کا جس دن کا حوالہ دیا گیا ہے، اس دن وہ لال مسجد میں موجود نہ تھے۔
ایسی صورتحال میں تفتیش کار عبدالعزیز کو اپنے سامنے پیش ہونے کا وقت دے سکتے ہیں تاکہ وہ تفتیش میں تعاون کر سکیں لیکن ساتھ ساتھ واضح کیا کہ خطیب لال مسجد کو ایک یا دو دن سے زیادہ کا وقت نہیں دیا جائے گا۔
تاہم افسران نے ڈان کے اس سوال کا جواب دینے سے انکار کردیا کہ آیا مولانا عبدالعزیز اس وقت اپنی رہائش گاہ پر موجود ہیں یا نہیں۔ دیگر حکام نے دعویٰ کیا کہ خطیب سیکٹر جی-6 میں اپنی رہائش گاہ سے منتقل ہو گئے ہیں اور اس وقت کہیں اور رہائش پذیر ہیں جس کا ممکنہ مقصد ممکنہ گرفتاری کو ٹالنا ہے۔
اس حوالے سے ڈان نے متعدد بار مولانا عبدالعزیز سے رابطے کی کوشش کی لیکن وہ بیان دینے کے لیے دستیاب نہیں تھے۔
جب ڈان نے لال مسجد کے ترجمان احتشام احمد سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ عبدالعزیز کے ترجمان عبدالقادر سے رابطہ کریں۔
عبدالقادر نے کہا کہ ہم نے میڈیا کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے اور ہم نہیں معلوم کہ میڈیا کو یہ اطلاعات کہاں سے مل رہی ہیں، انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا خطیب لال مسجد تفتیش کا حصہ نہیں بنیں گے۔
قادر نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کی تردید کہ عبدالعزیز نے مقدمے سے متعلق پولیس ملاقات یا بات چیت کی، جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا عبدالعزیز سیکٹر جی-6 میں واقع اپنی رہائش سے منتقل ہو گئے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ ’وہ جہاں بھی ہیں محفوظ ہیں‘۔
لال مسجد انتظامیہ اور حکومت کے درمیان تناؤ 2001 کے اوائل میں اس وقت شروع ہوا تھا جب عبدالعزیز اور 2007 کے آپریشن میں مارے جانے والے ان کے بھائی عبدالرشید نے مشرف حکومت کے خلاف جارحانہ خطبے دینا شروع کر دیے تھے۔
ان کے خلاف پہلا مقدمہ 28 ستمبر 2001 کو درج ہوا، 2001 سے 2005 کے درمیان دونوں خطیبوں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت پانچ مقدمات سمیت دس مقدمات درج کیے گئے۔
جنوری سے جولائی 2007 کے درمیان عبدلعزیز اور ان کے ساتھیوں کے خلاف آنٹی شمیم اور ان کی بیٹی کے اغوا، پولیس حکام کے اغوا، آفیشل گاڑیوں کو قبضے میں لینےحکومتی اجازت کے بغیر ایف ایم ریڈیو چلانے، سی ڈیز جلانے، حکومت املاک کو تباہ اور سبوتاژ کرنے اور سب سے بڑھ کر رینجرز ٓفیشل کے قتل سمیت 22 مقدمات درج کیے گئے۔
تاہم مولانا عبدالعزیز اب آزاد ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے خلاف درج مقدمات کی کس طرح پیروی کی گئی۔
متعدد کیسز میں گوہان نے اپمے بیانات تبدیل کیے یا وہ عدالت میں پیش ہی نہیں ہوئے جبکہ اسلام آباد پولیس پر بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے مولانا عبدالعزیز کے خلاف کیسز کی تفتیش درست انداز سے نہیں کی اسی وجہ سے لال مسجد کے خطیب کے خلاف اکثر مقدمات ختم ہو گئے۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت میں رینجرز اہلکار کے قتل کیس میں بھی سرکاری حکام مولانا عبدالعزیز کے خلاف ریاکارڈ کروائے گئے بیانات سے منحرف ہو گئے تھے
پہلے انہوں نے بیان دیا تھا کہ مولانا عبدالعزیز اور دیگر نے سیکورٹی فورسز پر فائرنگ کے احکامات دیئے تھے جبکہ سرکاری املاک کا مطالبہ کیا تھا مگر بعد میں وہ اپنے اس بیان سے ہٹ گئے۔
اسی طرح اسلام آباد کی بارہ کوہ کے سی ڈیز کی دکان کے مالک بھی اپنے بیان سے ہٹ گئے تھے، پہلے انہوں نے اپنی دکان نذر آتش کرنے کا مقدمہ درج کروایا تھا جبکہ بعد مہں انہوں نے بیان دیا کہ انہوں نے خود لال مسد کے لوگوں کو ہالی ووڈ کی سی ڈیز جلانے کے لیے کہا تھا۔
اس کے علاوہ 2007 میں پولیس اہلکاروں کو اغواء کرنے کا مقدمہ بھی تعطل کا شکار ہے اس کیس کی صرف ابتدائی سماعت 2011 میں ہوئی تھی اس کے بعد کسی بھی قسم کی سماعت نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی گواہ پیش کیے گئے ہیں۔