پاکستان

خطیب لال مسجد کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

دوسری جانب مولانا عبدالعزیزکا گرفتاری نہ دینے اور گرفتار کرنے کی کوشش پر مزاحمت کا فیصلہ، ترجمان لال مسجد ۔
|

اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت میں قائم لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے ہیں، تاہم مولانا عبدالعزیز نے گرفتاری نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق دھمکی آمیز بیانات دینے کی وجہ سے مولانا عبدالعزیز کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری اسلام آباد کی مقامی عدالت کے سینیئر سول جج ثاقب جواد نے جاری کیے۔

جمعے کو پولیس افسران عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ سول سوسائٹی کے اراکین نے مولانا عبدالعزیز کے خلاف قتل کی دھمکیاں دیئے جانے کا مقدمہ درج کروایا ہے، لہذا لال مسجد کے خطیب کو گرفتار کرنے کی اجازت دی جائے۔

عدالت نے معاملہ سُننے کے بعد لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔

دوسری جانب لال مسجد شہداء فاونڈیشن کے ترجمان حافظ احتشام کا کہنا ہے کہ مولانا عبدالعزیز نے گرفتاری نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور اگر انھیں گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو مزاحمت کی جائے گی۔

ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے حافظ احتشام کا کہنا تھا کہ حکومت پہلے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری کو گرفتار کرے۔

یاد رہے کہ 16 دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں طالبان کی دہشت گردی اور معصوم جانوں کی ہلاکتوں کے حوالے سے مولانا عبدالعزیز نے اپنے ایک متنازع بیان میں کہا تھا کہ وہ نہ تو اس واقعے کی مذمت کریں گے اور نہ انھیں 'شہید' کہیں گے۔

مولانا کے اس بیان کے بعد سول سوسائٹی کے اراکین نے ان کے خلاف احتجاج کا آغاز کیا اور دو دن تک مظاہرین لال مسجد کے باہر جمع رہے جس کے دوران مولانا عبدالعزیز کی جانب سے انھیں مبینہ طور پر دھمکیاں بھی دی گئیں۔

نتیجتاً دونوں پارٹیوں (مولانا عبدالعزیز اور سول سوسائٹی اراکین) کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔


مزید پڑھیں: سانحہ پشاور:مذمت نہ کرنے پر مولانا عبدالعزیز کے خلاف مظاہرہ


احتجاج کے تیسرے روز یعنی 20 دسمبر کو سول سوسائٹی مظاہرین نے نیشل پریس کلب (این پی سی) کا رخ کیا اور وہاں مظاہرہ کیا، جبکہ 22 دسمبر کو مظاہرین آبپارہ پولیس اسٹیشن کے باہر جمع ہوئے۔

جس کے بعد آبپارہ تھانے کے ایس ایچ او خالد اعوان نے انھیں یقین دلایا کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے حوالے سے قانونی رائے معلوم کرنے کے بعد شہریوں کو تشدد کے لیے اکسانے اور فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی دفعات بھی ایف آئی آر میں درج کرلی جائیں گی۔

دوسری جانب سول سوسائٹی اراکین نے خبردار کیا تھا کہ اگر ایف آئی آر میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعات شامل نہ کی گئیں اور لال مسجد کے خطیب کو گرفتار نہ کیا گیا تو وہ 26 دسمبر کو آبپارہ پولیس اسٹیشن کے سامنے دوبارہ مظاہرہ کریں گے۔

ان مظاہروں کے آرگنائزر اورانسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم کارکن جبران ناصر نے ڈان کو بتایا کہ پولیس نے مظاہرین کے مطالبے کو پورا کرنے کے لیے دو دن مانگے تھے۔

'پولیس نے انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کو ایف آئی آر میں شامل کرنے اور مولانا عبد العزیز کو گرفتار کرنے کے لیے 24 دسمبر تک کا وقت لیا تھا، 25 دسمبر کو ہم نے خود مظاہرہ نہیں کیا اور عیسائی کمیونٹی کے ساتھ کرسمس کی خوشیاں منائیں'۔

جبران ناصر کے مطابق 'اگر انسدادِ دہشت گردی کی دفعات ایف آئی آر میں شامل نہ کی گئیں اور آج شام 5 بجے تک مولانا کو گرفتار نہ کیا گیا تو ہم اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے'۔

ان کا کہنا تھا کہ سول سوسائٹی اراکین کی جانب سے جن دفعات کا مطالبہ کیا گیا ہے وہ ناقابلِ ضمانت ہیں، لہذا مولانا عبدالعزیز ضمانت قبل ازگرفتاری بھی نہیں کرا سکیں گے۔

ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کی جانب سے بھی لال مسجد کے خطیب کے خلاف کراچی کے تھانہ عزیز آباد میں متحدہ قومی موومنٹ نے ایف آئی آر درج کروائی گئی تھی۔