'عافیہ صدیقی: 'لیڈی القاعدہ' سے 'لیڈی اسلامک اسٹیٹ
کراچی: الجیریا سے لے کرعراق اور یمن تک علاقے میں موجود شدت پسند گروپس اپنے مطالبات میں محض عافیہ صدیقی کا ہی نام دہراتے ہیں جو کہ امریکا کی قید میں ہیں۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والی عافیہ صدیقی بنیادی طور پر سائنسدان ہیں اور ان پر امریکی فوجیوں پر حملے کا الزام ہے۔
القاعدہ سے لے کر دولت اسلامیہ جیسے شدت پسند گروپ، اغواء کیے گئے بہت سے افراد کے بدلے میں 42 سالہ عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کر چکے ہیں، اس سلسلے میں حالیہ مثال امریکی صحافی جمیز فولی ہیں جن کا رواں برس اگست میں اسلامک اسٹیٹ کی جانب سے سر قلم کردیا گیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں عافیہ صدیقی کے خاندان نے ان کی بے گناہی اور ان کے نام سے منسلک ہولناکیوں کے خلاف احتجاج کیا۔
عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی کا کہنا ہے کہ اگر امریکا نے یا پاکستانیوں نے اس حوالے سے کچھ نہیں کیا تو دولت اسلامیہ جیسے لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔
مزید پڑھیں: آئی ایس کا امریکا سے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ
اب جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے دوسرے عشرے میں داخل ہو گئی ہے، امریکی صحافی جیمز فولی کے واقعے کے بعد عافیہ صدیقی کو 'لیڈی القاعدہ ' سے ' لیڈی اسلامک اسٹیٹ' کا لقب ملنے کے خطرات بھی بڑھ گئے ہیں۔
عافیہ صدیقی کی کہانی 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' سے جڑی کہانیوں میں سب سے اہم ہے، جو مارچ 2003 میں اُس وقت شروع ہوئی جب القاعدہ کے نمبر تین اور نائن الیون حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کو کراچی سے گرفتار کیا گیا۔
خالد شیخ محمد کو گرفتاری کے بعد گوانتاناموبے منتقل کردیا گیا، جہاں سی آئی اے کے تشدد کے حوالے سے امریکی سینیٹ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ وہاں ان پر بدترین تشدد کیا گیا۔
ان کی گرفتاری کے بعد جلد ہی عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں کے ہمراہ کراچی سے لاپتہ ہوگئیں۔
امریکی میڈیا کی کچھ رپورٹس کے مطابق عافیہ صدیقی وہ پہلی خاتون ہیں جن پر اسامہ بن لادن کے دہشت گرد نیٹ ورک سے تعلق کا الزام لگا یا گیا، اس طرح انھیں 'لیڈی القاعدہ' کا خطاب بھی دیا گیا۔
پانچ سال بعد عافیہ صدیقی کو 2008 میں افغان صوبے غزنی سے گرفتار کرلیا گیا۔
امریکی عدالتی دستاویزات کے مطابق 'عافیہ صدیقی کے پاس سے مبینہ طور پردو کلو سوڈیم سائینائیڈ، کیمیائی ہتھیاروں کی دستاویزات اور دیگر چیزیں برآمد ہوئی تھیں، جن سے عندیہ ملتا تھا کہ وہ امریکی فوجیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کررہی ہیں' ۔
افغانستان نے انھیں امریکا کے حوالے کردیا اور جب عافیہ سے امریکی فوجیوں اور ایف بی آئی عہدیداران نے سوالات کیے تو انہوں نے مبینہ طور پر ایک رائفل اٹھا کر ان پر فائرنگ کردی، جوابی فائرنگ میں وہ زخمی ہوگئیں۔ جس کے بعد انہیں امریکا بھیج دیا گیا جہاں 2010 میں انہیں اقدام قتل کا مجرم قرار دے کر 86 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
عافیہ صدیقی کو جس جرم میں سزا سنائی گئی اس میں کہیں بھی القاعدہ سے ان کے تعلق کا حوالہ نہیں ملتا اور اس حوالے سے بھی کوئی شواہد نہیں ملتے کہ 2003 میں اپنی گمشدگی اور پھر 2008 میں منظر عام پر آنے کے دوران وہ کہاں رہیں؟
حتیٰ کہ امریکی جج رچرڈ برمن نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ انھیں اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ عافیہ صدیقی اور ان کا بیٹا افغانستان میں کیوں موجود تھے۔
انھوں نے اس دعویٰ کی حمایت کی کہ عافیہ صدیقی کو پاک۔ امریکا خفیہ پلاٹ کا شکار بنایا گیا۔
عافیہ صدیقی کے خاندان کے مطابق وہ اور ان کے تین بچے احمد، مریم اور سلیمان (جو اُس وقت چھ ماہ کا تھا لیکن اب اس دنیا میں نہیں ہے) گلشن اقبال میں واقع اپنے گھر سے کراچی ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہو رہے تھے جب انھیں پاکستانی اور امریکی اہلکاروں نے پکڑ لیا۔
عافیہ کی بہن فوزیہ صدیقی نے اے ایف پی کو بتایا کہ جب عافیہ کو گئے ہوئے کچھ گھنٹے گزر گئے تو دروازے پر دستک ہوئی، میری والدہ نے دروازہ کھولا تو وہاں موجود ایک شخص نے کہا کہ 'اگر تم لوگوں نے اس بارے میں کچھ کہا یا اس واقعے کی رپورٹ درج کروانے کی کوشش کی تو تم ان چاروں کی لاشیں پاؤ گے'۔
جبکہ 2010 میں نیو یارک میں اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران عافیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ انھیں افغانستان میں طویل عرصہ تک خفیہ قید میں رکھا گیا۔
ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ بگرام جیل میں قیدی نمبر 650 کی حیثیت سے قید تھیں، تاہم امریکا اس کی تردید کرتا ہے۔
عافیہ صدیقی پاکستان اور زیمبیا میں اپنا بچپن گزارنے کے بعد 18 سال کی عمر میں ٹیکساس چلی گئیں جہاں ان کے بھائی رہائش پزیر تھے، جس کے بعد انھوں نے بوسٹن کی مشہور ایم آئی ٹی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور پھر نیورو سائنسز میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
نوے کی دہائی میں ان کی شادی کراچی کے ایک ڈاکٹر امجد خان سے کردی گئی، جو بعد میں امریکا چلے گئے۔
اپنی تعلیم کے دوران عافہ صدیقی خدمت خلق کے کاموں میں بھی مصروف رہیں جبکہ یونیورسٹیوں میں قرآن پاک تقسیم کرنا بھی ان کا ایک اہم اسماجی کام تھا۔
سال 2001 سے یہ جوڑا اسلامی تنظیموں کو چندہ دینے اور امجد خان کے نام پر جنگی سازو سامان خریدنے کے بعد ایف بی آئی کی نظروں میں آیا۔ یہی وہ سال تھا جب عافیہ پاکستان آئیں اور انھوں نے امجد سے طلاق کا مطالبہ کیا۔
امریکی ذرائع کے مطابق انھوں نے دوسری شادی خالد شیخ محمد کے بھتیجے عمار البلوشی سے کی تاہم ان کے خاندان نے اس کی تردید کی ہے۔
کچھ امریکی افسران کا ماننا ہے کہ امریکا میں عافیہ القاعدہ سے منسلک رہیں جبکہ 2003 سے 2008 کے دوران افغانستان میں انھوں نے بلوشی کے خاندان کے ساتھ وقت گزارا۔ واضح رہے کہ بلوشی کو 2003 میں گرفتار کر کے گوانتاناموبے بھیج دیا گیا تھا۔
جبکہ اُس وقت کے حکمران سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے بھی اس بات کی تردی کردی تھی کہ انھوں نے کسی پاکستانی کو امریکا کے حوالے نہیں کیا۔