پاکستان

بینظیر کی برسی میں بلاول کی شرکت غیریقینی

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول اپنے والد آصف زرداری سے مبینہ اختلافات کے سبب 27 دسمبر کو برسی کی تقریب میں شرکت نہیں کریں گے

لاہور/کراچی/لاڑکانہ: 2007 پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد یہ پہلا موقع ہو گا کہ سابق وزیراعظم کے بیٹے اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنے والد آصف علی زرداری سے مبینہ طور پر اختلافات کے باعث اپنی والدہ کی 27 دسمبر کو ہونے والی ساتویں برسی کی تقریب میں ممکنہ طور پر شرکت نہیں کر سکیں گے۔

پیپلز پارٹی کے مشترکہ چیئرمین زرداری اپنے ناراض بیٹے کو منانے کے لیے لندن گئے تھے تاکہ انہیں ہفتے کو گڑھی خدا بخش میں ہونے والی برسی کی تقریب میں شرکت کے لیے وطن واپس لا سکیں لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔

اس تمام پیشرفت سے لمحہ با لمحہ باخبر ذرائع نے جمعرات کو ڈان کو بتایا کہ زرداری جمعہ کو اکیلے وطن واپس لوٹ رہے ہیں کیونکہ ان کے بیٹے بلاول نے لندن میں رہنے کو ترجیح دی ہے۔

اس سلسلے میں مزید تفصیلات جاننے کے لیے جب ڈان نے زرداری اور بلاول کے ترجمان سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس حوالے سے زیادہ بات نہیں کی۔

سابق صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا کہ بینظیر بھٹو کی برسی کی تقریبات میں شرکت کے لیے آصف علی زرداری واپس آ رہے ہیں لیکن ہمیں ابھی تک بلاول کی واپسی کے حوالے سے کوئی تصدیق نہیں کی گئی۔

سینیٹر جہانگیر بدر جنہیں حال ہی میں بلاول کا سیاسی مشیر مقرر کیا گیا ہے، نے کہا کہ میں ابھی تک چیئرمین کی جانب سے تصدیق کیے جانے کا منتظر ہوں کہ آیا وہ آ رہے ہیں یا نہیں۔

تاہم اس موقع پر انہوں نے سابق صدر اور ان کے بیٹے کے درمیان کسی بھی قسم کے اختلافات کی تردید کرنے میں انتہائی جلد بازی سے کام لیتے ہوئے کہا جو لوگ بھی اس طرح کی افواہیں اڑا رہے ہیں وہ اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے گڑھی خدا بخش میں بھٹو کے مزار پر فاتحہ خوانی اور تقریب کے انتظامات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زرداری یا بلاول میں سے کوئی ایک برسی کی تقریب میںشرکت کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ اس موقع پر دونوں موجود ہوں گے لیکن اگر ایسا نہ ہو سکا تو دونوں میں کوئی اک 27 دسمبر کی تقریب میں ضرور شرکت کرے گا۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی سابق صدر اور ان کے بیٹے کے درمیان اختلافات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی افواہیں ہمارے حریف اڑا رہے ہیں۔

ادھر کراچی میں وزیر اطلاعات سندھ نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کی طبیعت ٹھیک نہیں اور ڈاکٹرز نے انہیں سفر نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے لیکن برسی کی تقریب میں ان کی شرکت کی توقع ہے۔

لیکن دلچسپ امر یہ کہ بلاول کی جانب سے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر برسی کی تقریب میں شرکت کے حوالے سے ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا بلکہ انہوں نے اپنی اور اپنے والد کی ایک ساتھ ایک تصویر لگائی ہے جسے پیپلز پارٹی نے کچھ اس طرح بیان کیا کہ یہ باپ بیٹے میں اختلافات کی خبریں اڑانے والوں کے لیے واضح پیغام ہے۔

یاد رہے کہ جب بلاول نے 30 نومبر کو پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کی تقریب میں شرکت نہیں کی تھی تو انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا تھا کہ میرے پرزور اصرار کے باوجود ڈاکٹرز نے مجھے وقتی طور پر جانے کے فیصلے کو مسترد کردیا، آپ پارٹی کارکنان ہماری رہنمائی کرتے رہیں۔

لیکن اس مرتبہ بلاول نے کارکنوں سے کسی قسم کی رہنمائی طلب نہیں کی جو پارٹی کے چیئرمین کو پیپلز پارٹی کی خصوصاً پنجاب میں ازسرنو بحالی کی آخری امید سمجھتے ہیں۔


یہ بھی پڑھیں: زرداری، بلاول کو منانے کے مشن پر لندن پہنچ گئے


ایک طرف پیپلز پارٹی کے ایک سینئر رہنما نے بلاول کی عدم موجودگی کی وجہ سیکیورٹی خدشات بتائی لیکن ڈان سے گفتگو کرنے والے پارٹی کے دیگر رہنماؤں کا مانا ہے کہ اگر بلاول اتنی اہم تقریب میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تو پارٹی کی قیادت کے لیے انتہائی شرمندگی کا سبب بنے گی۔

اس سے قبل 30 نومبر کو لاہور میں منعقدہ یوم تاسیس کی تقریب کے موقع پر بلاول کی غیر موجودگی پر نوجوان رہنما کی اپنے والد کے اختلافات کی خبریں گردش کرنے لگی تھیں۔

سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے بلاول ہاؤس لاہور میں اپنے قیام کے دوران پیپلز پاٹی کے رہنماؤں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلاول کے بیان سے پیپلز پارٹی کے ایم کیو ایم سے تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں اور انہوں نے اپنے بیٹے کو سیاسی سے وقتی طور پر دور رہنے کا مشورہ دیا۔

پیپلز پارٹی کے ایک سینئر رہنما نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ باپ اور بیٹے کے درمیان پارٹی کے امور پر اختلافات پیدا ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ بلاول نے اپنے والد سے مشاورت کیے بغیر جہانگیر بدر اور بشیر ریاض کو بالترتیب سیاسی مشیر اور پریس سیکریٹری مقرر کردیا تھا لیکن زرداری نے اس بات کا برا نہیں مانا اور اپنے بیٹے سے کہا کہ پارٹی کو چلانے کے لیے انہیں مکمل فری ہینڈ اس وقت دیا جائے گا جب وہ سیاسی طور پر بالغ ہو جائیں گے۔