نقطہ نظر

قائد اعظم کی زندگی کے گمشدہ اوراق

’تم جانتی ہو وزیراعظم کیوں آئے ہیں؟ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ میری بیماری کتنی شدید ہے اور میں کتنا عرصہ زندہ رہ سکتا ہوں۔‘

قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی کے کچھ پہلو ایسے ہیں جو آج تک کسی بھی عام پاکستانی کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں کچھ ایسے حقائق منظر عام پر آتے ہیں جو پاکستان کی نوکر شاہی سے ہضم نہیں ہوتے، حتیٰ کہ قائد اعظم محمّد علی جناح کے بارے میں ایسی معلومات جو ان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے لکھی ہیں وہ بھی ریکارڈ سے غا ئب کردی گئیں۔

پاک و ہند کی تاریخ نویسی ہمیشہ سے مستند ہونے کے بجائے متنازع رہی ہے۔ عموماً تاریخ نویسی کا عمل راجوں مہاراجوں اور بادشاہوں کے پیشہ ور مورخین ان کے دور میں کرتے تھے۔ اس طرح لکھی جانے والی تاریخیں ہمیشہ مدح سرائی سے بھر پور ہوتی تھیں، یہ تاریخیں عوامی تاریخیں نہیں ہوتی تھیں، بلکہ ان میں فقط حکمرانوں کی فتوحات، سخاوت اور نام نہاد کارناموں کا ذکر ہوتا تھا۔

دور قدیم میں اس طرح کی تاریخ نویسی کی وجہ بالکل واضح تھی کہ حکمران یہ سمجھتے تھے کہ ان کے تمام 'کارنامے' عقل و فہم کا عالیشان نمونہ ہیں لیکن یہ سلسلہ صرف دور قدیم تک محدود نہیں رہا بلکہ دور جدید میں بھی حکمران ایسی تاریخیں اور سوانح عمریاں لکھواتے ہیں جس میں صرف ان کے کارناموں کا ہی ذکر ہوتا ہے۔

سابق فوجی آمر ایوب خان کے دور میں ایک ادیب نے ایک ناول لکھا اور چھپوانے کے لیے پبلشر کے پاس لے گیا لیکن اسے سخت مایوسی کا شکار ہونا پڑا جب تمام پبلشرز نے انہیں بتایا کہ ان کا ادارہ صدر ایوب کی کتاب ’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی، فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ چھاپ رہے ہیں، اور ناول چھاپنے کے لیے ان کے پاس بالکل وقت نہیں ہے۔ بڑی کوششوں کے بعد انہوں نے ایک چھاپے خانے کے مالک کو کتاب چھاپنے کے لیے تیار کرلیا لیکن پریس کے مالک نے شرط یہ رکھی کہ کاغذ کا بندوبست مصنف خود کریں۔

اب موصوف کاغذ کی تلاش میں نکلے تو کاغذ فروشوں کا جواب بھی یہی تھا کہ کاغذ صدر ایوب کی کتاب کے لیے دستیاب ہے، اس کے علاوہ کسی اور کتاب کے لیے کاغذ ناپید ہے۔ بڑی مشکل سے انہوں نے کاغذ کا بندوبست بھی کر لیا اور یوں کتاب چھپ گئی۔ چھپنے کے بعد انہوں نے جب کتب فروشوں سے کتاب کی فروخت کے لیے رابطہ کیا تو ان کا جواب بھی یہی تھا کہ ان کی دکان اس وقت صرف صدر ایوب کی کتاب سے سجی ہوئی ہے اور وہی فروخت ہو رہی ہے، کسی اور کتاب کی فروخت سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

موصوف نے مایوس ہو کر تمام کتابیں اپنے چھوٹے سے گھر میں رکھ دیں۔ ان کی بیگم نے کچھ عرصے تک تو کتابوں کے انبار کو برداشت کیا لیکن کچھ عرصے بعد روز مطالبہ کرنا شروع کر دیا کہ ایک تو گھر پہلے ہی چھوٹا سا ہے اور اس میں بھی آدھی جگہ کتابوں نے گھیر رکھی ہے۔

روز روز کے جھنجھٹ سے تنگ آ کر آخر حضرت کتابیں لے کر پرانی کتابوں کے بازار ریگل چوک پہنچے۔ یہ ان کے لیے آخری صدمہ تھا جب پرانی کتابیں فروخت کرنے والوں نے بھی ٹکا سا جواب دیا کہ اس وقت وہ صرف صدر ایوب کی کتاب ردی میں بیچ رہے ہیں، کسی اور کتاب کی گنجائش نہیں ہے۔

اس طرح کی کتابوں کا یہی حشر ہوتا ہے۔ ہاں تو ہم ذکر کر رہے تھے محمد علی جناح کی موت و حیات کے حوالے سے ان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے ایک کتاب ’مائی برادر‘ یعنی 'میرا بھائی' لکھی، لیکن اشاعت سے قبل اس کے چند صفحے غائب ہو گئے۔ یہ کارنامہ قائد اعظم اکادمی کے روح رواں جناب شریف المجاہد نے انجام دیا تھا۔

ہم نے جب شریف صاحب سے اس سلسلے میں بات کی تو انہوں نے کہا کہ چوں کہ یہ صفحات نظریہ پاکستان کے خلاف تھے اس لیے ہم نے کتاب سے حذف کر دیے اور ان کو اپنے اس عمل پر نہ تب کوئی افسوس تھا، اور نا ہی آج ہے!

جب ہم نے انہیں بتایا کہ یہ صفحات تو قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب ’شہاب نامہ‘ مطبوعہ 1988ء میں چھاپ دیے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ مواد حذف کروانے میں قدرت اللہ شہاب نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔

آئیے اب ان صفحات پر نظر ڈالتے ہیں؛

پہلا واقعہ جولائی 1948ء کا ہے، جب قائد اعظم علالت کی وجہ سے علاج اور آرام کے لیے زیارت میں تشریف رکھتے تھے۔ محترمہ مس فاطمہ جناح نے لکھا ہے کہ جولائی کے آخر میں ایک روز وزیراعظم نواب لیاقت علی خان اور سیکریٹری جنرل مسٹر محمد علی اچانک زیارت پہنچ گئے۔

ان کے آنے کی پہلے سے کوئی اطلاع نہ تھی۔ وزیراعظم نے ڈاکٹر الہٰی بخش سے پوچھا کہ قائد اعظم کی صحت کے متعلق ان کی تشخیص کیا ہے؟ ڈاکٹر نے کہا کہ انہیں مس فاطمہ جناح نے یہاں بلایا ہے، اس لیے وہ اپنے مریض کے متعلق کوئی بات صرف انہی کو بتا سکتے ہیں۔

نواب صاحب نے زور دیا کہ ’وزیر اعظم کی حیثیت سے میں قائد اعظم کی صحت کے متعلق متفکر ہوں‘۔

ڈاکٹر نے ادب سے جواب دیا۔ ’جی ہاں، بے شک۔ لیکن میں اپنے مریض کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں بتا سکتا‘۔

جب مس فاطمہ جناح نے قائد اعظم کو وزیراعظم کی آمد کی اطلاع دی، تو وہ مسکرائے اور فرمایا؛

’تم جانتی ہو وہ کیوں آئے ہیں؟ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ میری بیماری کتنی شدید ہے اور میں کتنا عرصہ زندہ رہ سکتا ہوں۔ تم نیچے جاؤ اور پرائم منسٹر سے کہہ دو کہ میں انہیں ابھی ملوں گا۔‘

مس فاطمہ جناح نے کہا ’اب کافی دیر ہو گئی ہے۔ کل صبح ان سے مل لیں۔‘

’نہیں‘ قائد اعظم نے فرمایا۔ ’انہیں ابھی آنے دو، اور بچشم خود دیکھ لینے دو۔‘

وزیر اعظم آدھے گھنٹے کے قریب قائد اعظم کے پاس رہے۔ اس کے بعد جب مس فاطمہ اندر گئیں، تو قائد اعظم بے حد تھکے ہوئے تھے۔ انہوں نے کچھ جوس مانگا اور پھر چوہدری محمد علی کو اپنے پاس بلایا۔ سیکریٹری جنرل پندرہ منٹ تک قائد اعظم کے ساتھ رہے۔ اس کے بعد مس فاطمہ جناح دوبارہ قائد اعظم کے کمرے میں گئیں اور پوچھا کہ کیا وہ جوس یا کافی پینا پسند کریں گے؟

قائد اعظم نے جواب نہ دیا، کیونکہ وہ کسی سوچ میں محو تھے۔ اب ڈنر کا وقت آگیا تھا۔

قائد اعظم نے مس فاطمہ جناح سے فرمایا، ’بہتر ہے کہ تم نیچے چلی جاؤ اور ان کے ساتھ کھانا کھاؤ۔‘

’نہیں‘ مس جناح نے اصرار کیا۔ ’میں آپ کے پاس ہی بیٹھوں گی اور یہیں پر کھانا کھا لوں گی‘۔

’نہیں‘، قائد اعظم نے کہا، ’یہ مناسب نہیں۔ وہ یہاں پر ہمارے مہمان ہیں۔ جاؤ اور ان کے ساتھ کھانا کھاؤ۔‘

مس فاطمہ جناح لکھتی ہیں کہ کھانے کی میز پر انہوں نے وزیراعظم کو بڑے خوشگوار موڈ میں پایا۔ وہ پرمذاق باتیں کرتے رہے، جب کہ مس فاطمہ کا اپنا دل اپنے بھائی کے لیے خوف سے کانپ رہا تھا، جو اوپر کی منزل میں بستر علالت پر اکیلے پڑے تھے۔ کھانے کے دوران چوہدری محمد علی چپ چاپ کسی سوچ میں گم رہے۔

کھانا ختم ہونے سے پہلے ہی مس فاطمہ جناح اوپر چلی گئیں۔ انہوں نے بڑے ضبط سے اپنے آنسوؤں کو روک رکھا تھا۔ قائد اعظم انہیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا، ’فطی، تمہیں ہمت سے کام لینا چاہیے۔‘

اس واقعے کے دو ڈھائی ہفتے بعد چودہ اگست کو پاکستان کی آزادی کی پہلی سالگرہ آئی۔ اپنی کمزوری صحت کے باوجود یوم پاکستان پر قائد اعظم نے قوم کے نام بڑا ولولہ انگیز پیغام جاری کیا۔ مس جناح نے اپنے مسودے میں لکھا ہے کہ یوم پاکستان کے چند روز بعد وزیر خزانہ مسٹر غلام محمد قائد اعظم سے ملنے کوئٹہ آئے۔ لنچ کے وقت جب مس فاطمہ جناح ان کے ساتھ اکیلی بیٹھی تھیں تو مسٹر غلام محمد نے کہا، ’مس جناح میں ایک بات آپ کو ضرور بتانا چاہتا ہوں۔ یوم پاکستان پر قائد اعظم نے قوم کے نام جو پیغام دیا تھا، اسے خاطر خواہ اہمیت اور تشہیر نہیں دی گئی۔ اس کے برعکس وزیراعظم کے پیغام کے پوسٹر چھاپ کر انہیں نہ صرف شہر شہر دیواروں پر چسپاں کیا گیا ہے، بلکہ ہوائی جہازوں کے ذریعے اسے بڑے بڑے شہروں پر پھینکا بھی گیا ہے۔‘

مس جناح نے یہ بات خاموشی سے سن لی کیونکہ اس وقت انہیں اپنے بھائی کی صحت کی فکر تھی، پبلسٹی کی نہیں۔

یہ تھی ان گمشدہ اوراق کی کہانی جو محترمہ فاطمہ جناح کی کتاب ’میرا بھائی‘ سے حذف کر دیں گئی تھیں۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسی بے شمار وارداتیں ہوئی ہیں اور ہما ری کوشش ہے کہ ان تمام واقعات کو اصلی شکل میں آپ کی خد مت میں پیش کیا جائے، اگر آپ کے پاس بھی اس قسم کی کوئی معلومات ہوں تو ہمیں ضرور آگاہ کیجیے گا۔

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔