پشاور مستقل حالتِ جنگ میں
پشاور: خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں زندگی ہمیشہ رواں دواں رہتی ہے لیکن حالیہ چند برسوں میں تباہ کن دہشت گرد حملوں کا سامنا کرنے والا سردی اور دھول مٹی سے اٹا ہوا صوبائی دارالحکومت گزشتہ روز ایک بالکل نئے روپ میں نظر آیا، بالکل خاموش اور ناواقف، سوگ کی کیفیت میں ڈوبا ہوا۔
پشاور کی گزشتہ کل بہت مختلف تھی۔ یہاں کی داستانوں کا محور قصہ خوانی بازار بالکل ویران پڑا تھا۔ شہر کے پرانے حصے کے مرکز میں موجود دکانیں بند تھیں اور انتہائی کم ٹریفک شہر کے مختلف چوراہوں پر ہونے والے چھوٹے احتجاجی مظاہروں کے برابر سے انتہائی خاموشی سے گزر رہا تھا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اب پشاور اور خود پاکستان کس موڑ پر جائے گا؟ ڈان کے اس سوال کا پشاور میں بہت کم لوگوں نے جواب دیا، لیکن امید کی ایک کرن کے ساتھ ۔ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور ایک طویل خاموشی، جو ان کے دل کے حال کی عکاس تھی۔ زیادہ تر افسران اور سیاستدانوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پرہی اس سوال پر تبصرہ کرنا پسند کیا۔
ایک سرکاری عہدیدار نے سیکیورٹی پالیسی کے تحت اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ 'پیر کو ورسک روڈ پر جو کچھ ہوا، یہ ایک بہت بڑی بحث ہے۔ ان (دہشت گردوں ) کا کہنا ہے کہ تم لوگوں نےہمارے لوگوں کو اٹھایا اور انھیں ان کے گھروں سے بے دخل کیا ہے، لہذا ہم تمھارے لوگوں کو قتل کریں گے'۔
مذکورہ عہدیدادرکے مطابق 'ہم اپنے مسائل کو حل کرنے کے بجائے انھیں عسکریت پسندی میں تبدیل کر رہے ہیں۔ یہ ایک مستقل جنگ ہے'۔
گزشتہ روز پشاور میں ہونے والی کثیر الجماعتی کانفرنس کے بعد ایک بڑی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے پشاور کے ایک سیاستدان نے انتہائی اداسی سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ 'اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یہ سب لوگ خوفزدہ ہیں۔ نواز شریف یہ نہیں چاہتے تھے، ضرب عضب کا مقصد بھی یہ نہیں تھا۔ عمران خان صرف مذاکرات چاہتے تھے اور خورشید شاہ بیانات دینے کے علاوہ اور کیا کررہے ہیں'؟
آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورۂ کابل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک سیکیورٹی عہدیدار نے بتایا کہ 'افغانستان یقیناً کچھ لو کچھ دو کے اصول پر بات کرے گا۔ ہم ان سے کسی ایک عسکریت پسند کی حوالگی کے لیے بات کریں گے، وہ ہم سے کسی دوسرے کے بارے میں پوچھیں گے۔ ہم ان سے کسی ایک چیز کا مطالبہ کریں گے، وہ کوئی اور چیز مانگیں گے۔ کیا ہم ان کو کچھ پیش کرنے کے لیے تیار ہیں'؟
عسکریت پسندی کے سرحد کے دونوں جانب موجود ہونے کے باعث تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی قیادت پر مشرقی افغانستان میں پاک افغان سرحد کے ساتھ موجود ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے، لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان، افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو اس بات پر مجبور کرسکے گا کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ سکے۔
صرف ایک سیکیورٹی عہدیدار نے اس حوالے سے امید افزا جواب دیا، جن کا کہنا تھا کہ 'افغانستان کی نئی حومت کو اپنے قدم جمانے اور اپنی پالیسیوں کو مرتب کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔ فی الوقت اس بارے میں کسی نے نہیں سنا کہ افغان طالبان نے نئی افغان حکومت سے مذاکرات کرنے سے انکار کیا ہوا'۔
مذکورہ عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ 'سابق صدر حامد کرزئی کے دورِ حکومت میں طالبان نے مذاکرات سے انکار کیا تھا لیکن ابھی خاموشی ہے اوراس خاموشی کو ایک ابھرتی ہوئی پاکستانی پالیسی میں تبدیلی کی خاموش شہادت کے طور پر پیش کیا گیا تھا'۔
ایک سرکاری افسر کی نظر میں 'انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) ایک مرسیڈیز گاڑی کی طرح ہے، جو کسی ڈرامے کے بادشاہ کی مانند باتیں کرسکتے ہیں'۔
انھوں نے اسٹیلشمنٹ کے کردار پر بھی تنقید کی جنھوں نے حالیہ حکومت مخالف مظاہروں کی مبینہ طور پر حمایت کی۔
دوسری جانب سرکاری افسران اور سیاستدانوں نے خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس ناصر درانی کے کردار پر بھی تنقید کی جنھوں نے پولیس کی صلاحیت کو محدود کردیا ہے۔
ایک افسر کا کہنا تھا کہ 'درانی نے پشاور پولیس کے حوصلے پست کردیئے ہیں۔ وہ ہر دو مہینے بعد بغیر کسی وجہ کے ایس ایچ اوز کو تبدیل کردیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پولیس کو علاقے اور مقامی افراد کے بارے میں مکمل معلومات حاصل نہیں ہو پاتیں'۔
ایک اور افسر کا کہنا تھا کہ 'اپنی اینٹی کرپشن پالیسی کے ساتھ ہر وقت میڈیا پر چھائے رہنے والے درانی کے حوالے سے قومی سطح پرملے جلے تاثرات ہیں، کیونکہ پیچیدہ قوانین کے مطابق معطل یا برطرف افسران کبھی کبھار فوری بحال کردیئے جاتے ہیں، ا س کے علاوہ نظم وضبط کی خلاف ورزی کرنے والے افسران کو ترقی دے دی جاتی ہے یا ان کی کسی اچھی جگہ پوسٹنگ کردی جاتی ہے'۔
دوری جانب ناصر درانی ایک جنگ زدہ علاقے میں مناسب پولیسنگ کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔
پشاور کے ایک ایڈمنسٹریٹر کے مطابق 'جب پشاور ایئرپورٹ پر حملہ کیا گیا تو انھوں نے پولیس کو جہازوں کے ٹیک آف اور لینڈنگ کے مقامات پر جمع کرلیا جبکہ دہشت گرد وہاں موجود ہی نہیں تھے۔ وہ اطراف سے اچانک آئے، اپنے اسلحے کا استعمال کیا اور فرار ہوگئے۔ اصل میں یہ وہ مقام تھا جہاں خصوصی توجہ کی ضرورت تھی'۔
ورسک روڈ پر معصوم بچوں کے قتل عام کے بعد شدید سردی میں ایک ہتھیار ڈالنے کی سی کیفیت نے گزشتہ روز پورے شہر کو گھیرے رکھا۔
کیونکہ پشاورجانتا ہے کہ اسے ایک ایسی جنگ نے جکڑ رکھا ہے جس کا شاید کوئی اختتام نہیں ہے۔