دنیا

آرمی چیف کی افغان صدر سے ملاقات

جنرل راحیل شریف کے دورے کا مقصد پاکستان اورافغانستان کے درمیان سیکیورٹی اورانسداد دہشت گردی کیخلاف تعاون میں اضافہ ہے۔

کابل: پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل راحیل شریف، اعلیٰ افغان عسکری حکام سے ملاقات کے لیے بدھ کو اپنے ایک روزہ ہنگامی دورے پر کابل پہنچے، جہاں انھوں نے افغان صدر اشرف غنی اور ایساف کمانڈر سے اہم ملاقاتیں کی ہیں۔

ڈان نیوز کے مطابق آرمی چیف نے کابل کا دورہ گزشتہ روز پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے تناظر میں کیا ہے جس کے دروان 132 بچوں سمیت 141 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

آرمی چیف کے دورے کا مقصد پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کے خلاف تعاون میں اضافہ ہے۔

جنرل راحیل شریف نے انٹیلی جنس معلومات افغان حکام سے شیئر کیں جن کے مطابق پشاور واقعے کے ماسٹر مائنڈ افغانستان کی سرزمین سے حملے کے لیے ہدایات دیتے رہے۔

افغان صدراشرف غنی کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا جائے گا ۔

اشرف غنی کا کہنا تھا کہ افغانستان سمجھتا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ کوششوں سے ہی ممکن ہے۔

ذرائع کے مطابق پشاور حملے میں کمانڈر عمر نارے کے ملوث ہونے کی اطلاعات ہیں، جو پاک افغان سرحد کے قریب روپوش ہے اور پشاور حملے کا ماسٹر مائنڈ بتایا جا رہا ہے۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق آرمی چیف دورۂ کابل کے دوران افغان عسکری حکام سے ملاقات میں افغانستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر پاک افغان فورسز کے مشترکہ آپریشن کے سلسلے میں تعاون کی درخواست کریں گے۔

انتہائی موقر ذرائع کے مطابق آرمی چیف، افغان عسکری حکام سے تحریک طالبان پاکستان کے امیر مولوی فضل اللہ کی حوالگی کا مطالبہ کریں گے۔

تحریک طالبان پاکستان سوات کے امیر ملا فضل اللہ نے ابتداء میں سوات کے ایک گاؤں میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ بعدازاں انہوں نے سوات میں تبلیغی کاموں کے لیے ایک ایف ایم ریڈیو بھی قائم کیا جس پر وہ اکثر خطاب بھی کرتے تھے۔

انہوں نے وادی میں سخت اسلامی قوانین کے نفاذ کی بھی کوشش کی اور اس مہم کے دوران نہ صرف ان کے جنگجوؤں نے سکول تباہ کیے بلکہ لوگوں کو عوامی مقامات پر کوڑے مارے گئے اور ان کے سر بھی قلم کیے گئے۔

سوات میں فوجی آپریشن سے قبل حکومت پاکستان نے مولوی فضل اللہ کو پکڑنے میں مدد دینے پر انعام کا اعلان کیا تھا اور جون 2009 میں ان کے سر کی قیمت پچاس لاکھ روپے سے بڑھا کر پانچ کروڑ روپے کر دی گئی تھی۔

اس علاقے میں پاکستانی فوج کے آپریشن کے بعد 2009 کے آخر میں فضل اللہ افغانستان کے صوبہ نورستان فرار ہوگئے، جہاں وہ اب بھی مقیم ہیں۔

فضل اللہ پر افغانستان میں قیام کے باوجود پاکستانی سرزمین پر شدت پسندی کی کارروائیاں کروانے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔

سوات کی طالبہ ملالہ یوسفزئی پر حملے میں بھی انہی کے جنگجوؤں کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا گیا تھا جبکہ پاکستانی حکام ان کو افغان سرحد پار سے متصل پاکستانی علاقے میں سکیورٹی فورسز پر حملوں کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں۔