نقطہ نظر

ثنا مرزا کے بارے میں پاکستانیوں کے پانچ افسوسناک ردِعمل

ہمیں اپنی پسند کی سیاسی جماعتوں کی حمایت کرتے ہوئے خواتین کو ہراساں کرنے پر جواز نہیں پیش کرنے چاہیئں۔

جب ایک خاتون صحافی پر ایک سیاسی جلسے کی کوریج کے دوران کچرا پھینکا جائے، اور اس پر جملے کس کر اسے رلا دیا جائے، تو سب سے بہتر ردِ عمل تو یہ ہوگا کہ واقعے کی مذمت کی جائے اور اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا جائے۔

لیکن کاش یہ اتنا آسان ہوتا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی لوگوں کے پاس اپنی سیاسی جماعت کے دفاع میں کہنے کے لیے اتنا کچھ ہے کہ انہیں خواتین کو ہراساں کرنا ایک چھوٹی بات لگتی ہے۔

ثنا مرزا نے پی ٹی آئی کے حالیہ جلسے کے دوران جس صورتحال کا سامنا کیا، اس کے بارے میں کچھ پاکستانیوں کے غلط ردِ عمل کی فہرست نیچے دے رہا ہوں۔

1۔ 'ارے صرف پلاسٹک کی بوتل ہی تو تھی، چھوڑیں بھی۔'

اس ملک میں جب تک ایک عورت کو تین میٹرو بسیں، ایک سوزوکی، اور ایک ٹھیلا کچل کر نہ چلے جائے، تب تک یہ 'ہراساں' کیے جانے کے زمرے میں نہیں آتا۔

اس سے کم کوئی بھی واقعہ ہمارے قیمتی وقت میں سے اتنے کا بھی مستحق نہیں، کہ ہم اسے غلط ہی کہہ سکیں۔

آپ نے پانی کی بوتل دیکھی؟ اصل میں یہ پانی کی بوتلوں کی سیریز تھی، اور اس سے پہلے کئی گھنٹوں تک ان کو بے عزت کیا گیا یہاں تک کہ وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں۔

2۔ 'وہ وہاں کرنے کیا آئی تھیں؟ اگر پریشر نہیں سنبھال سکتے تو جلسوں میں مت آیا کرو۔'

یہ تبصرہ اسی گھسے پٹے تبصرے کی نسل سے تعلق رکھتا ہے جس کے مطابق اگر کوئی عورت کام کی جگہ پر مردوں کی غلط نظروں کو نہیں سہہ سکتی، تو اسے 'ہراساں' کیے جانے کے خلاف لڑنے کے بجائے جاب چھوڑ دینی چاہیے۔

بازار جاتے ہوئے آپ پر سیٹی ماری گئی؟ آپ کی غلطی ہے۔ اگر آپ مارکیٹ جاتے ہوئے تھوڑی سی ہراسگی بھی نہیں برداشت کرسکتیں، تو پھر گھر کیوں نہیں بیٹھ جاتیں؟ اپنے گھر میں ایک مضبوط بنکر بھی بنوا لیں، لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیں کیونکہ یہ ویسے بھی مردوں کا کام ہے۔

یہ ہمارے اسی کلچر کا حصہ ہے جس کے تحت ہم خواتین کو ہراسگی برداشت کرنا سکھاتے ہیں، بجائے اس کے کہ ہراساں کرنے والوں کو ایسا کرنے سے منع کریں۔ کیونکہ ویسے بھی دوسروں کو منع کرنا تو کافی مشکل کام ہے۔

3۔ 'یہ صرف پی ٹی آئی کے امیج کو نقصان پہنچانے کا ڈرامہ تھا'

جی بالکل، ایک ڈرامہ ہی تھا۔

یہ ثنا مرزا کا ہی شیطانی پلان تھا کہ خود کو غنڈوں سے ہراساں کروایا جائے، اور پھر اپنے پلان کی کامیابی پر ہنس پڑیں۔ آپ کو نہیں معلوم تھا کہ خود پر کسی جانی والی آوازیں سننا خواتین کو کتنا پسند ہے؟

ہم لوگ فضول سازشی مفروضوں کے اتنے عادی ہوچکے ہیں، کہ اگر شہباز شریف کیلے کے چھلکے سے بھی پھسل جائیں، تو ہم اسے 'ہمدردی حاصل کرنے کا سیاسی ڈرامہ' کہیں گے۔

4۔ 'بھئی اس فیلڈ میں کام کرنا ہے تو بہادر بننا پڑے گا'

اس فیلڈ سے کیا آپ کا مطلب فلوجہ یا بغداد ہے؟

میرے سیاسی رجحانات کو ایک طرف رکھیں، میری رائے میں ثنا مرزا بہادر ہیں۔ ٹھیک ٹھاک وقت تک بے عزتی کا سامنا کرنے کے بعد وہ آخر جذبات کی تاب نہ لاتے ہوئے رو پڑیں، اور ایسا ہر کسی کے ساتھ ہی ہوسکتا ہے۔

پھر انہوں نے خود کو سنبھالا، اپنے آنسو پونچھے، اور کسی بھی پروفیشنل صحافی کی طرح واپس رپورٹنگ کرنے لگیں۔

5۔ 'ایسا ہر وقت ہی تو ہوتا ہے، اس میں نیا کیا ہے؟'

یہ واقعہ بہت ہی غلط تھا، لیکن اس سے بھی زیادہ غلط یہ ہے کہ آپ اپنی پارٹی وفاداری کی بنا پر اس واقعے کا جواز پیش کیے جارہے ہیں۔ آپ پی ٹی آئی کے جیالے ہیں لیکن خواتین کو ہراساں کیے جانے پر آپ توجیہات پیش کر رہے ہیں۔

میرے دوستو، ایسا مت کرو۔ ہراساں کرنے والی پارٹی کا حصہ مت بنو۔ اس بات کو تسلیم کرو کہ جو ہوا وہ غلط تھا، کہو کہ یہ پی ٹی آئی کے اصولوں کے خلاف ہے، دنیا کو بتاؤ کہ تحریکِ انصاف کے کارکن کبھی بھی خود سے اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتے۔

ویسے بھی خواتین کو ہراساں کرنا صرف پی ٹی آئی کا مسئلہ نہیں ہے۔ خواتین کے ساتھ برا سلوک تمام سیاسی حلقوں میں موجود ہے، پھر بھلے ہی کہیں زیادہ ہے اور کہیں کم۔

'ہراساں کیا جانا تو معمول ہے' کہہ کر اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، بلکہ جہاں ایسا ہوتا نظر آئے، اس کی مخالفت کرنی چاہے۔

اس عمل کو نظرانداز کر کے اس کی جڑیں مضبوط نہیں کرنے دینی چاہیئں۔ اس عمل کی مذمت کر کے ہی ہم اپنے معاشرے میں اس طرح کی برائیوں کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

فراز طلعت

فراز طلعت پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ وہ سائنس اور مختلف سماجی مسائل پر لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ FarazTalat@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔