71ء کی کہانی: کوا سفید ہے، بنگال پاکستان ہے
پاکستانی بنگلہ دیش سے آنکھیں ملانے سے کتراتے ہیں۔ 1970 کے واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ ایک گمراہ کن بیانیے کا سہارا لیتے ہوئے اس پورے معاملے کو بڑی صفائی سے ایک 'سازش' قرار دے دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ سازش ہوئی ہو۔ لیکن کس نے کس کے خلاف سازش کی اور کب؟ بنگالی کیا چاہتے تھے؟ وہ اس انتہائی حد تک کیونکر پہنچے جس کے بعد راستے الگ ہوگئے؟
یہ مضمون اس سلسلے کا پہلا حصّہ ہے جو اس ملک میں جمہوریت کی نشوونما کے نقطہ نظر سے 1971 میں رونما ہونے والے واقعات کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔
شاعری میں مبالغہ آرائی عام ہے اور کاروبار میں ہیرا پھیری، لیکن اس کی بھی کچھ حدیں ہیں۔ آپ کوے کو سفید نہیں کہہ سکتے۔
لیکن معاملہ سیاست کا ہو تو سب کچھ ممکن ہے۔ حتیٰ کہ آپ لفظ "ناانصافی" کی جگہ "انصاف" استعمال کر سکتے ہیں اور"عدم مساوات" کو چھپانا ہو تو اس کی جگہ کم ازکم "مساوات" کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اگر آپ کا خیال ہے کہ میں مبالغہ آرائی سے کام لے رہا ہوں توپھر آپ کو ہمارے ملک کی ابتدائی تاریخ کے ایک اور اہم واقعہ کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔
1947 میں سیاسی منظرنامہ
1947 میں جو علاقے پاکستان کے حصّے میں آئے، ان پر برطانیہ مختلف بندوبست کے ساتھ حکومت کرتا تھا۔ بنگال، پنجاب اور خیبر پختونخوا (اس وقت کا صوبہ سرحد) میں فعال منتخب اسمبلیاں موجود تھیں۔ بلوچستان میں حکومت کا نظم و نسق ایک نامزد کمشنر چلایا کرتا تھا، قبائلی علاقوں میں پولیٹکل ایجنٹس تعینات تھے۔
اس کے علاوہ کئی ایک خود مختار ریاستیں تھیں جن میں تاجِ برطانیہ کی فرماں روائی میں والیان ریاست کی برائے نام حکومتیں قائم تھیں۔ ان خودمختار ریاستوں کا حدود اربع مختلف تھا۔ امب کی خودمختار ریاست تو اتنی چھوٹی تھی کہ 1970 میں تربیلا ڈیم کی جھیل میں ڈوب گئی۔
بہاول پور کا شمار ہندوستان کی سب سے بڑی ریاستوں میں ہوتا تھا اور اس کا رقبہ پنجاب کے موجودہ تین ضلعوں کے برابر تھا۔ بلوچ ریاستوں کی آبادی بہت ہی کم تھی جبکہ پنجاب گنجان آباد تھا۔ ان ساری اکائیوں کو"ریاست" ہی کہا جاتا تھا خواہ یہ کتنے ہی کم درجہ کی ہی کیوں نہ ہوں.
جب "بنگالی مسئلے" نے سر اٹھایا
14 اگست 1947 کو جن لوگوں کے ہاتھ میں اس نئے ملک کی باگ ڈور سونپی گئی، ان کو ایسا نظام تشکیل دینا تھا، جہاں یہ ساری اکائیاں مل جل کر امن و آشتی سے رہتیں اور ترقی کرتیں۔
یقیناً یہ سب لوگ سر جوڑ کر بیٹھے لیکن انہوں نے جس راستے کو بھی چنا اور ریاستی اقتدار کی تقسیم کے لیے جو بھی طریقے ڈھونڈھے ان سب کا ایک ہی خوفناک نتیجہ سامنے آیا: ملک کے باقی تمام علاقوں کو یکجا کر دیا جاتا تب بھی بنگالیوں کی اکثریت تھی اور جمہوریت کے تحت اس نئی ریاست میں غالب حصّہ حاصل کرنے سے انہیں کوئی بھی نہیں روک سکتا تھا۔
اور یہ اس سوچ کے یکسر خلاف تھا جس کے تحت یہ سمجھا گیا تھا کہ یہ ملک اسلام کے لیے نشاۃ ثانیہ ثابت ہوگا اور اس کا جھنڈا جنوبی ایشیا کی ہر دوسری عمارت پر لہرایا جائے گا۔
کالے رنگ کے بنگالی جن کی ثقافت اور زبان اپنے ہم وطن ہندوؤں جیسی تھی، اس پرطمع خواہش کا حصّہ نہیں بن سکتے تھے۔ یہ عظیم کارنامہ تو صرف اعلیٰ نسب کی مسلمان اشرافیہ ہی سرانجام دے سکتی تھی جو ہندوستان سے ہجرت کرکے آئی تھی۔ ان کے ساتھ چند اور لوگ بھی شامل تھے جو ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے اور باقی ان کا ساتھ دے رہے تھے.
چنانچہ یہ پہلا دوراہا تھا جو ہمارے ملک کے سامنے وارد ہوا۔ اگر ہم سیدھا سادا جمہوری راستہ اختیار کرتے تو عظمتِ رفتہ کو بحال کرنے کے سنہری موقع سے ہاتھ دھو بیٹھتے (کیوں کہ تب حکومت بنگالی اکثریت کے ہاتھ میں چلی جاتی) یا بصورت دیگر اگر ہم اپنی اس خواہش پر اڑے رہتے تو پھر ہمیں جمہوریت کو چھوڑتے ہوئے "بنگالی مسئلے" سے چھٹکارہ پانے کا کوئی غیر جمہوری حل تلاش کرنا پڑتا۔
دستور کا پہلا ڈرافٹ — ڈیڈلاک کیسے پیدا ہوا؟
آخر کار پتہ یہ چلا کہ ایسا کرنا کچھ اتنا مشکل بھی نہیں تھا۔ حکمران اشرافیہ نے فتوؤں، تاریخی حوالوں اور اقوالِ زریں کا ایک خزینہ ڈھونڈ نکالا، جس کے ذریعے وہ 'عظیم تر قومی مفاد' کے لیے ان اصولوں میں رد و بدل کر سکتے تھے، اور یہ کہ جمہوریت پر سختی سے کاربند رہنے کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ یہ بہرحال ایک مغربی نظریہ ہے جو ہمارے طرزِ سیاست کے لیے سراسر نامناسب ہے۔
ہمارے ایک صاحبِ کشف نے تو ہمیں یہ کہہ کر جمہوریت کے خطروں سے خبردار بھی کر دیا تھا کہ اس نظام میں افراد کو ان کی پاکیزگی اور طہارت کی بنیاد پر نہیں پرکھا جاتا، بلکہ صرف گنا جاتا ہے۔
جب ستمبر 1950 میں دستور ساز اسمبلی کے سامنے آئین کا پہلا مسودہ (بنیادی اصولوں کی عبوری رپورٹ) پیش کیا گیا تو اس میں دو منتخب ایوانوں کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ ایک تو ہاؤس آف یونٹس، جس میں تمام صوبوں کو مساوی نمائندگی حاصل ہوگی (جیسا کہ آج کل سینیٹ میں تمام صوبوں کو حاصل ہے) اور دوسرا ہاؤس آف پیپل۔
کمیٹی نے اس بارے میں کوئی تجویز پیش نہیں کی تھی کہ اس ایوان میں جس کے اراکین عوام براہ راست منتخب کریں گے، صوبوں کو کس طرح نمائندگی دی جائے گی۔ اس پر اتفاق رائے نہیں تھا۔ بنگالیوں کو نصف نشستیں پیش کی گئی تھیں جبکہ آبادی کے تناسب سے ان کا حصّہ کہیں زیادہ تھا۔ وہ اپنے حق سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نھیں تھے چنانچہ ڈیڈلاک پیدا ہوگیا۔
دوسرا ڈرافٹ — ناظم الدین کی جزوی 'مساوات'
تاہم، وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے واضح تجاویز پیش کیں۔ جب انہوں نے اسمبلی میں دوسرا مسودہ پیش کیا تو ہاؤس آف یونٹس میں 120 نشستیں رکھی گئیں اور ہاؤس آف پیپل میں 400۔ ان میں سے نصف نشستیں مشرقی بنگال کو دی گئیں اور باقی نشستوں کو مغربی پاکستان کی نو اکائیوں (صوبہ پنجاب، سندھ، سرحد، موجودہ فاٹا کا علاقہ، بہاول پور، بلوچستان، بلوچستان کی ریاستیں، ریاست خیرپور اور وفاقی دارالحکومت) میں کم و بیش ان کی آبادیوں کے تناسب سے تقسیم کر دیا گیا۔
اس اصول، یعنی آبادی کے تناسب سے تقسیم، کو بنگال کو نشستیں دیتے وقت نہیں اپنایا گیا۔ اس واضح عدم مساوات اور ناانصافی کو 'مساوات کے اصول' کا نام دیا گیا یعنی یہ کہا گیا: پاکستان کے دو بازو ہیں، مشرقی پاکستان جو مشرقی بنگال پر مشتمل ہے اور مغربی پاکستان جو نو اکائیوں پرمشتمل ہے اور یہ کہ دونوں بازوؤں کو مساوی نمائندگی ملنی چاہیے۔ بنگالیوں نے اس عدم مساوات کو تسلیم نہیں کیا اور اس مسودہ کو مسترد کر دیا گیا۔
تیسرا ڈرافٹ — محمد علی بوگرا کی حساب دانی
اگلے وزیرِ اعظم محمد علی بوگرا، جنہیں اپنی حساب دانی پر ناز تھا، نے اکتوبر 1954 میں تیسرا مسودہ پیش کیا جس میں مغربی پاکستان کی نو اکائیوں کو چار گروپوں میں اکٹھا کر دیا گیا اور پانچویں اکائی بنگال تھا۔ ان سب کو برابر نشستیں دی گئیں۔ یعنی ہاؤس آف یونٹس میں (فی گروپ 10 نشستیں) جبکہ ہاؤس آف پیپل کی 300 نشستوں کو کم و بیش ان کی آبادی کے تناسب سے تقسیم کر دیا گیا۔
مشرقی بنگال کو 300 نشستوں میں سے 165 نشستیں ملیں اور اس طرح ہاؤس آف پیپل میں ان کی اکثریت ہو گئی لیکن ہاؤس آف یونٹس میں انہیں اکثریت حاصل نہیں تھی کیوں کہ 50 نشستوں میں انہیں 10 نشستیں ملی تھیں.
تمام قوانین کے لیے لازم تھا کہ انہیں دونوں ایوانوں سے منظوری حاصل ہو اور مشترکہ اجلاس میں (جس میں 350 اراکین تھے) مشرقی بنگال (175 = 10+165) کو مغربی پاکستان کے مساوی درجہ حاصل تھا۔ ایک طرح سے یہ بنگالی قوم پرستوں اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ دونوں ہی کے لیے تسلی بخش حل تھا۔
لیکن حکمران طبقہ تو کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ دستور ساز اسمبلی نے مسودہ منظور کر لیا اور ایک ٹیم کو آئین سازی کا فریضہ سونپا گیا، لیکن گورنر جنرل غلام محمد نے حکومت برطرف کر دی اور اسی مہینے اسمبلی تحلیل کر دی گئی۔
ون یونٹ اسکیم
عدلیہ نے اس غیر جمہوری قدم کی توثیق کر دی اور "نظریہءِ ضرورت" کا پہلی مرتبہ اختراع اور استعمال کیا گیا۔ تقریباً ایک سال بعد گورنر جنرل نے دوسری دستور ساز اسمبلی تشکیل دی۔ پہلی اسمبلی کے برعکس اس میں "مساوات کے اصول" کو پیشِ نظر رکھا گیا، یعنی دوسری دستور ساز اسمبلی میں نصف اراکین (80 میں سے 40) مشرقی بنگال سے لیے گئے جبکہ پہلی اسمبلی میں اسے 69 میں سے 44 نشستیں حاصل تھیں۔
نئی دستور ساز اسمبلی نے جو سب سے پہلا اہم کام کیا وہ یہ تھا کہ مغربی پاکستان کی نو اکائیوں کو ملا کر ایک صوبہ بنایا گیا جسے مغربی پاکستان کا نام دیا گیا، جبکہ اس اقدام کو ون یونٹ اسکیم کہا گیا۔
اس سے مساوات کی کہانی کو قدرے آئینی اور اخلاقی بنیادیں مل گئیں، کیوں کہ اب ملک کے دو صوبے تھے جن سے مساوی سلوک کیا جا رہا تھا بجائے دس یونٹوں کے، جس میں سے ایک یونٹ کو باقی نو سے کم درجہ حاصل تھا۔
حکمران طبقہ جسے ہم آج اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں، واشگاف الفاظ میں اس کا اعادہ کر رہا تھا کہ وہ مشرقی بنگال کے لیے 'مساوات' کے علاوہ کچھ تسلیم نہیں کرے گا۔ چنانچہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ اس اسمبلی نے مارچ 1956 میں باالاخر جو آئین منظور کیا گیا اس میں صرف ایک منتخب ایوان یعنی قومی اسمبلی کی گنجائش رکھی گئی تھی، جو 300 اراکین پر مشتمل تھی اور جسے عوام نے براہِ راست منتخب کرنا تھا۔ ان میں سے نصف کا تعلق مشرقی پاکستان اور نصف کا مغربی پاکستان سے ہونا تھا۔
بنگالیوں کو جمہوریت پر اعتماد تھا، لیکن وہ پاکستان پر اعتماد کھو بیٹھے۔
پہلی اسمبلی میں عام انتخابات منعقد کرانے کا حوصلہ نہ تھا۔ سبھی جانتے تھے کہ وسیع اختلاف رائے کے پیش نظر مجوزہ نظام کے تحت انتخابات منعقد ہوئے تو انتشار اور بڑھے گا۔ جنرل ایوب نے سوچا کہ قوت کا بے دریغ استعمال نتیجہ خیز متبادل ہو سکتا ہے، چنانچہ وہ اس میں کود پڑے۔
ان کا خیال غلط تھا۔
انہوں نے بندوق کی نوک پر ملک کو متحد رکھا تھا۔ ایک دہائی بعد جب انھیں بالاخر اپنی بندوق ہٹانی پڑی تو جنرل یحییٰ بالغ حقِ رائے دہی کی بنیاد پر دستور ساز قومی اسمبلی کے براہ راست انتخابات منعقد کروانے پر تیار ہوگئے۔
ان کے لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت (کیوں کہ ان دنوں کوئی آئین موجود نہیں تھا) 300 اراکین پر مشتمل قومی اسمبلی کی تجویز پیش کی گئی جن میں سے 162 مشرقی بنگال سے منتخب کیے جانے تھے، یعنی بنگالیوں کے پرانے مطالبے کو تسلیم کر لیا گیا تھا۔
لیکن شاید اب بہت دیر ہو چکی تھی۔
یہ بلاگ اس سے پہلے دسمبر 2012 میں ڈان کی ویب سائٹ پر شائع ہوچکا ہے۔
لکھاری الیکشن اور گورننس میں دلچسپی رکھنے والے آزاد محقق ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر TahirMehdiZ@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔