پاکستان

پاکستانی کپاس چننے والی خواتین کی حقوق کے لیے جنگ

ان دیہاتی خواتین نے اجرتوں میں اضافے کے لیے ہڑتال کا جوا کھیلا جو حیرت انگیز طور پر کامیاب بھی ثابت ہوا۔

ویب ڈیسک

عظیمہ خاتون نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ کپاس کے کھیتوں میں روزانہ دو سو روپے سے بھی کم اجرت پر مزدوری کرتے ہوئے گزار دیا۔

پانچ بچوں کی ماں 35 سالہ عظیمہ اور ان کا چالیس کے لگ بھگ خواتین پر مشتمل گروپ اپنے خاندانوں کے لیے خوراک کی فراہمی اور دیگر ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی اجرت کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور ان دیہاتی خواتین نے ہڑتال کردی، حیرت انگیز طور پر یہ جوا کامیاب ثابت ہوا۔

عظیمہ خاتون کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس ان کی روزانہ اجرت میں لگ بھگ دو گنا اضافہ ہوا اور وہ اب ساڑھے تین سو روپے کما رہی ہے اور اس خاتون کی کامیابی نے دیہی خواتین کے اندر اکھٹے ہو کر متحد افرادی قوت کی شکل میں کام کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔

لاکھوں ان پڑھ خواتین جیسے عظیمہ پاکستان میں کپاس چننے کا کام کر رہی ہیں، چین، ہندوستان اور امریکا کے بعد کپاس کی پیدوار والے اس چوتھے بڑے ملک میں خواتین کے لیے کام کرنے کی صورتحال زیادہ بہتر نہیں۔

عظیمہ خاتون کا کہنا ہے کہ وہ صوبہ سندھ کے ایک گاﺅں میران پور کی رہائشی ہے اور وہ معمولی معاوضے کے عوض گھنٹوں کپاس چننے کا کام کرتی ہے "ہماری اجتماعی کوششوں سے پہلے ہمیں اپنے کام سے کوئی منافع نہیں ہوتا تھا"۔

میران پور کی ایک گرم دوپہر میں کپاس کو چنتے ہوئے عظیمہ نے فخریہ انداز میں بتایا "ہم سب نے مل کر کم اجرت کے عوض کام نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا"۔

برطانیہ کے ایک معروف بین الاقوامی تھنک ٹینک اوورسیز ڈویلپمنٹ انسٹیٹوٹ (او ڈی آئی) کے مطابق پاکستان ان چند ایشیائی ممالک سے میں سے ایک ہے جہاں گزشتہ دس برسوں کے دوران زرعی شعبے میں مزدوروں کے معاوضے میں اضافے کی بجائے کمی آئی ہے۔

او ڈی آئی کا کہنا ہے کہ ایشیاء بھر میں دیہی مزدوروں کی اجرتوں میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجوہات میں آبادی کی شرح میں سست روی، زرعی پیداوار میں اضافہ اور لوگوں کا دیہات سے شہروں کی جانب رخ کرنا قابل ذکر ہیں۔

مگر پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں توانائی کے بحران نے کارخانوں کو متاثر کیا ہے، زرعی شعبہ جمود کا شکار ہے جبکہ جاگیردار یہاں بہت طاقتور ہیں۔


روزمرہ کے خطرات

پاکستان میں زرعی اجرتوں نے خواتین پر کافی اثرات مرتب کیے ہیں اور عالمی ادارہ محنت کے مطابق یہاں زرعی شعبے میں سرگرم 74 فیصد خواتین کی عمریں پندرہ سال ہے۔

سال 2014 میں عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے جاری صنفی امتیاز کی فہرست میں پاکستان کو یمن کے بعد صنفی مساوات کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بدترین ملک قرار دیا گیا تھا۔

او ڈی آئی نے دیہی اجرتوں کے حوالے سے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا کہ متعدد خواتین کو غیر رسمی طور پر بہت کم اجرت اور محدود تحفظ کے ساتھ کام دیا جاتا ہے جبکہ 2012 میں تو زرعی شعبے سے وابستہ خواتین کی روزانہ اجرت اوسطاً 140 روپے تک پہنچ گئی تھی حالانکہ 2007 میں یہ معاوضہ 160 روپے کے لگ بھگ تھا۔

کم ترین اجرتوں میں سرفہرست ان خواتین مزدوروں نے لیبر رائٹس کے لیے سرگرم افراد کو بتایا کہ جاگیردار یا منیجرز وغیرہ کئی بار ان کا جائز معاوضہ بھی مارنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ ریکارڈز پڑھنے سے قاصر ہوتی ہیں جبکہ کئی بار انہیں جنسی طور پر ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔

کام کے دوران لُو لگ جانا، سانپوں کا ڈسنا، کیڑے مار ادویات کے مضر اثرات اور کپاس کے سخت پھول سے ہاتھوں کا کٹنا ان کے روزمرہ کے خطرات کا حصہ ہیں۔

عظیمہ خاتون اور دیگر اب اپنے اسکول جانے کی عمر کے بچوں کو ریکارڈز کی کتابیں چیک کرانے کے لیے لاتی ہیں یا اپنی رنگا رنگ ساڑھیوں پر گرہیں باندھ کر یہ حساب کرتی ہیں کہ انہوں نے کتنے دن کام کیا ہے۔

سندھ کمیونٹی فاﺅنڈیشن کے سربراہ جاوید حسین کے بقول"اگرچہ یہ خواتین ہندسوں کو پڑھ نہیں سکتیں مگر وہ پھر بھی وہ ان گرہوں کی مدد سے بتاسکتی ہیں کہ انہوں نے کتنے دن کام کیا ہے "۔

اس تنظیم کا مقصد مختلف برادریوں کی سماجی و معاشی حالت بہتر بنانا ہے اور اس حوالے سے 2600 خواتین کو سودے بازی اور لیبر رائٹس کے حوالے سے تربیت بھی فراہم کی گئی ہے۔

حکومت سے منسلک پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی کے ڈائریکٹر محمد علی تالپور کا کہنا ہے کہ کھیتوں کے مالکان اپنے ورکرز کے مسائل سے ہمدردی رکھتے ہیں۔

تاہم انہوں نے انتباہ کیا کہ کہ بہت زیادہ اجرتیں پاکستان کے کپاس کے کاشتکاروں کو کاروبار سے باہر کرسکتی ہیں" کپاس کی کاشت کرنے والے کے لیے اس وقت اپنے اخراجات کو پورا کرنا بہت مشکل ثابت ہورہا ہے"۔

عالمی سطح پر کپاس کی قیمتیں پانچ سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں جس کی وجہ چین میں طلب کی کمی اور انسانوں کے تیار کردہ دھاگوں کی مقبولیت ہے۔

پاکستان میں کپاس کی پیداوار سالانہ ایک کروڑ تیس لاکھ گانٹھیں ہے جبکہ عالمی سطح پر مجموعی پیداوار 119 ملین گانٹھوں تک ہوتی ہے، رواں برس حکومتنے پہلے ہی دس لاکھ گانٹھوں کی خریداری کرکے قیمتوں کو بڑھانے کی کوشش کی ہے۔

جاوید حسین کا کہنا ہے کہ سندھ کمیونٹی فاﺅنڈیشن چھوٹے زمینداروں سے بات چیت کرنے کے ساتھ ورکرز کو مارکیٹ پرائسز پڑھنے کی تربیت فراہم کر رہی ہے تاکہ جھگڑوں کی بجائے بات چیت کو یقینی بنایا جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ بڑے جاگیردار عام طور پر اجرتوں پر بات چیت کے لیے تیار نہیں ہوتے اور ان زرعی ورکرز کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی بھی موجود تھی مگر چھوٹے زمیندار اکثر اپنے مزدوروں سے ہمدردی کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔

میران پور کے قریب ایک چھوٹے کاٹن فارم کے مالک کریم اللہ نے رواں برس اپنے مزدوروں کو روزانہ تین سو روپے کے لگ بھگ اجرت دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ معاوضے میں مزید اضافہ اس وقت تک نہیں کرسکتے جب تک کپاس کی قیمت نہیں بڑھ جاتی۔

ان کے بقول "ہم کپاس کی قیمت فروخت کے مطابق معاوضے کی ادائیگی کرتے ہیں اور اجرتوں میں اضافہ اسی صورت میں ہوگا جب فصل کی قیمت بڑھ جائے گی، میں ایک چھوٹا کاشتکار ہوں درحقیقت بڑے جاگیردار اجرتوں کی شرح کا تعین کرتے ہیں"۔