سولرپینل کی درآمدپرعائد ٹیکس اورڈیوٹی ختم
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے متبادل توانائی سے استفادہ اور اس کے فروغ کے لیے سولر پینل کی درآمد پر عائد تمام ٹیکسز اور ڈیوٹی ختم کر دی ہے۔
واضح رہے کہ اس وقت سولز پینل اور اس کے متعلقہ پرزہ جات پر 5 فیصد ڈیوٹی اور 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے۔
حکومت کے اس فیصلے کے بعد مقامی طور پر سولر پینل تیار کرنے والے شمسی توانائی سے استفادہ کرنے کے لیے پینل کے درکار پرزہ جات بغیر کسی ڈیوٹی در آمد کر سکیں گے۔
15-2014 کے بجٹ میں حکومت نے سولر پینلز اور اس کے دیگر پرزہ جات کی درآمد پر 5 فیصد ڈیوٹی اور 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا تھا جس سے مقامی سطح پر سولر پینلز اور مکمل سولر سسٹم کی قیمت میں اضافہ ہو گیا ہے۔
ٹیکسز اور ڈیوٹی کے خاتمے کے حوالے پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے صدر فیض بھٹہ نے کہا ہے کہ حکومت کی اس فیصلے سے سولر سسٹم کی قیمتوں میں کمی ہوگی اور 100 واٹ کا پینل 3000 روپے تک سستا ہو جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جولائی 2014 میں ڈیوٹی اور ٹیکس عائد ہونے کے بعد 100 واٹ کا پینل 11ہزار روپے تک پہنچ چکا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سولر سسٹم میں 50 فیصد قیمت سولر پینل کی ہوتی تھی یوں ٹیکس کے خاتمے سے سسٹم کی قیمت میں 30فیصد تک کمی آجائے گی۔
فیض بھٹہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ سولر سسٹم میں 50 فیصد قیمت بیٹری کی ہوتی ہے، سولر بیٹری کی درآمد پر 50 فیصد ٹیکس اور ڈیوٹی عائد ہوتی ہے جن میں 20 فیصد کسٹم ڈیوٹی اور 17 فیصد جی ایس ٹی بھی شامل ہوتا ہے۔
انہوں نے ایسوسی ایشن کی جانب سے مطالبہ کیا کہ سولر بیٹری پر مکمل طور پر ٹیکس اور ڈیوٹی کا خاتمہ کیا جائے۔
سرکاری حکام کے مطابق سولر بیٹری پر عائد ٹیکس اور ڈیوٹی کے حوالے سے غور کیا جا رہا ہے۔
شمسی توانائی سے استفادہ کرنے کے لیے 14-2013 میں 350 میگا واٹ سے 400 میگاواٹ تک سولر پینل درآمد کیے گئے تھے جبکہ رواں برس 900 میگاواٹ تک کے درآمد کیے جانے کا امکان ہے۔
فیض بھٹہ نے بھی امید ظاہر کی کہ توانائی کے بحران اور سولر سسٹم کی قیمت میں کمی کے بعد شمسی توانائی سے استفادہ کرنے کے لے زیادہ تعداد میں پینلز کی درآمد کا امکان ہے۔
حکام کے مطابق حکومت نے مقامی سطح پر سولر پینل بنانے والے منفیکچررز کو جون 2015 تک کی مہلت دی ہے کہ وہ عالمی معیار کے سولر پینل بنائیں جبکہ وزیر اعظم نے وزیر خزانہ کو مقامی مینفیکچررز کے اعتراضات دور کرنے کا ٹاسک دیا ہے۔
پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے صدر فیض بھٹہ کے مطابق اس وقت سب سے زیادہ چین سے سولر پینل کی درٓمد کی جا رہی ہے جبکہ جرمنی سمیت چند دیگر ممالک سے بھی درآمد ہوتے ہیں۔
15-2014 کے بجٹ میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے مقامی طور پر پارٹس بنانے والوں کی رعایت ختم کر دی تھی جس سے ان میں تشویش پیدا ہو گئی تھی اور انہوں نے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا تھا اور سولر پینل مقامی طور بناے والوں اور درآمد کرنے والوں میں تفریق ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
حکومت کا موجودہ اقدام متبادل ذرائع سے توانائی کی پیداوار میں اضافے کا حصہ ہے۔