شہروں کا مایوس کن مستقبل
پاکستان میں متعدد برسوں تک دیہات سے شہروں میں آبادی کی منتقلی کے رجحان پر خاموشی اختیار کی گئی، مگر اب ایسا لگتا ہے کہ ہم ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں ہر وقت اس بات کا حوالہ دیا جاتا ہے۔
ہر پالیسی دستاویز، ہر مقالے اور پریزینٹیشن میں اس بارے میں مخصوص فقروں اور الفاظ کی تکرار ہوتی ہے۔ مثلاً پاکستان خطے میں سب سے زیادہ شہری آبادی والا ملک ہے، اگلے پندرہ سالوں میں پاکستان کی شہری و دیہی آبادیاں برابر ہوجائیں گی؛ پاکستان کے شہروں کی آبادی 2030 میں دس کروڑ سے زائد ہوگی وغیرہ وغیرہ۔
لیکن پاکستان میں شہری زندگی کے معیار پر دوسرے مسائل مثلاً اقتصادی ترقی اور گڈ گورننس پر کھوکلی نعرے بازیوں اور خدشات کے مقابلے میں کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔ اپنے مجموعی تناظر اور وسائل کو مختص کیے جانے حوالے سے دیہی زندگی کے شہری زندگی میں تبدیل ہونے کے عمل سے کچھ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اور کچھ لوگ نقصان، جس کی وجہ سے سیاست کا ایک جداگانہ تشخص قائم ہوتا ہے۔ اسی طرح کے سیاسی تشخص کو مجموعی طور پر سیاسی رجحان کہا جاتا ہے، جو کہ شہروں میں کہیں مفاہمت اور کہیں تنازع کا باعث بنتا ہے۔
کوئی بھی ملک جو آبادی کی دیہات سے شہروں میں منتقلی کے اہم مرحلے سے گزر رہا ہو، وہاں جمہوریت اور فعال ریاست کا استحکام شہروں میں جنم لینے والے تنازعات کی شکل و صورت اور شدت پر منحصر ہوتا ہے۔ یہ بالکل عام فہم بات ہے۔ اربنائیزیشن سے لوگوں کی توقعات اور مطالبات بڑھتے ہیں، لوگوں کے مقاصد بڑھتے ہیں، اور پہلے سے ناکافی وسائل پر مزید بوجھ پڑتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو اربنائزیشن سے مسائل کا جنم لینا ناگزیر ہے۔
ماہرینِ سماجیات نے اس اثر کو پچاس سال پہلے نوٹ کیا تھا۔ 1960 کی دہائی میں اس عمل کی رفتار میں تیزی آنے سے پولیس کی سختی کے ساتھ ساتھ رہائش، اسکولوں اور طبی سہولیات کے حصول میں نسلی عدم مساوات کا مسئلہ سامنے آیا، جس سے نیویارک، فلاڈیلفیا اور شکاگو میں نسلی فسادات پھوٹ پڑے۔ 80 کی دہائی میں مارگریٹ تھیچر کے دورِ حکومت میں اقتصادی سرگرمیوں میں کمی اور نجکاری کی وجہ سے شمالی برطانیہ کے شہروں میں بیروزگاری کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اس کے نتیجے میں بدترین قسم کی 'غنڈہ گردی' اور تشدد سامنے آیا، جس میں ہر ہفتے اور اتوار کی رات کئی جانوں کا ضیاع ہوتا تھا۔
شہری تنازعات ایک دائمی مسئلہ ہیں، اور بھلے ہی ایک ملک دولتمند اور ترقی یافتہ ہو، اور ہر جگہ سی سی ٹی وی کیمرا لگے ہوں، تشدد اب بھی اکثر اوقات سامنے آجاتا ہے، جیسے گزشتہ ماہ امریکی ریاست مسوری میں فرگوسن اور لندن میں کچھ برس پہلے کے پرتشدد فسادات اس حقیقت کے واضح ثبوت ہیں۔
یہ مثالیں ان ممالک کی ہیں، جہاں سیاسی تنازعات کو اکثر پرامن طریقے سے حل کرلیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی کی تنظیمیں، بلدیاتی حکومتوں کا مضبوط نظام، اور مضبوط پولیس، یہ سب ملک کر اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وسائل کے حوالے سے سیاسی بندوبست اور کسی بھی طرح کی عدم مساوات ہمیشہ تشدد سے پاک رہے۔
کیا اس کا اطلاق پاکستان جیسی ریاست پر ہوسکتا ہے جو کمزور اور غیرمنصفانہ ہے، اور بہت جلد شہری اکثریت میں تبدیل ہونے جارہی ہے؟
آئیں ہم ملک کے دو سب سے بڑے شہروں کراچی اور لاہور کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ کراچی کا سیاسی بندوبست، یعنی تنازعات کو حل کرنے کے لیے موجودہ طریقہ کار یہ ہے کہ مزاحمت اور تشدد کے ذریعے معاملات کو قابو میں لایا جائے، بجائے اسکے کہ شہر کی ترقی کے مشترکہ وژن کے تحت مفاہمت کر لی جائے۔
گزشتہ تین دہائیوں کے دوران لسانی اور مذہبی وابستگی رکھنے والے سیاسی گروپس ایسا استحکام لانے میں ناکام رہے ہیں، جو مستقل طور پر تشدد کو جنم نہ دے۔ لورنٹ گیئر اس صورتحال کو 'منظم بدنظمی' کا بالکل درست نام دیتی ہیں۔ شہر کی پیچیدہ تاریخ کو دیکھتے ہوئے الزام کسی بھی ایک فریق پر نہیں ڈالا جاسکتا۔ درحقیقت یہاں کوئی بھی رضاکارانہ طور پر تشدد نہیں چھوڑے گا، کیونکہ دوسرے فریق اسے کچھ فوائد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
دوسری جانب کراچی کے مقابلے میں لاہور کا زیادہ بہتر سیاسی بندوبست دو عناصر کی وجہ سے ہے، پہلا تو یہ کہ ریاست نے بتدریج تشدد پر اجارہ داری قائم کر لی ہے، اور تشدد کی صلاحیت رکھنے والے دیگر غیرسرکاری حلقوں پر کنٹرول اور اثر حاصل کرلیا ہے۔
جبکہ دوسرا اور زیادہ اہم عنصر یہ ہے کہ یہاں لگ بھگ ہر ایک پنجابی ہے۔ کراچی یا ممبئی جیسے شہروں کی طرح کی نسلی کشیدگی کے نہ ہونے، اور کسی طبقاتی سیاست (امیر بمقابلہ غریب) کی عدم موجودگی کے باعث سیاسی اختلافات صرف دھڑوں تک محدود رہتے ہیں۔ دیگر الفاظ میں کہیں تو اختلاف پی ٹی آئی بمقابلہ مسلم لیگ نواز کی جیسی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ یہ عموماً ایک نرم مقابلہ ہے جس میں دونوں فریق تند و تیز ٹوئیٹر پیغامات، کھانے کی میز پر مباحثوں، موبائل پر میسجز اور گاڑیوں کے اسٹکرز جن پر 'گو نواز گو' لکھا ہوتا ہے، کے ذریعے ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہیں۔
پاکستان کی اربنائزیشن میں دونوں شہر بالکل جداگانہ تشخص رکھتے ہیں۔ ابھرتے ہوئے دیگر شہر ہوسکتا ہے کہ کراچی جیسی شدید لسانی تقسیم کا سامنا نہ کریں، لیکن شاید وہ لاہور کی طرح ہم آہنگ بھی نہ ہوں۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو بتدریج ابھرنے والے شہری پاکستان کا سیاسی بندوبست عدم تشدد کے بجائے تشدد پر مبنی ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ ہم یہ پریشان کن حقیقت پشاور اور کوئٹہ جیسے ابھرتے شہروں میں پہلے ہی دیکھ رہے ہیں۔
تو کیا ناکافی وسائل اور بڑھتے شہری تنازعات سے پیدا ہونے والی تباہ کن صورتحال سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟ اگر ماہرین معاشیات سے پوچھا جائے تو وہ جواب میں کہیں گے کہ طرز حکمرانی میں بہتری لائیں اور اقتصادی ترقی کی شرح بڑھائیں۔ ایک بار جب شہری معیشت ترقی کرنے لگے گی، تو اس کے فوائد زیادہ ہوں گے اور لڑنے کے لیے وجوہات کم ہوجائیں گی۔
سادہ الفاظ میں آج کیک کا سائز بڑھا دیا جائے اور اس کے ٹکڑوں کے سائز کی فکر بعد کے لیے چھوڑ دی جائے۔ دوسری جانب ماہرین عمرانیات اور سیاسی ماہرین اس میں ایک اور اہم اضافہ کرسکتے ہیں، وہ یہ کہ تنازعات کا خاتمہ صرف ترقی کے ذریعے ممکن نہیں بلکہ سیاسی اتفاق رائے اور مستحکم اداروں کے ذریعے اسے عدم تشدد کی راہ پر ڈالنا ہوگا۔
پاکستان کے منصوبہ سازوں کے سامنے موجود تجاویز میں سے جو طریقہ کار شہری تنازعات کی شدت میں کمی اور پرامن سیاسی مفاہمت کو فروغ دے سکتا ہے وہ سرگرم اور فعال بلدیاتی نظام ہے۔ مقامی سطح تک فیصلہ سازی کا اختیار دینے کرنے اور گروپس، جماعتوں، دھڑوں کو اقتدار کے لیے غیرقانونی کے بجائے قانونی طریقے سے مقابلے پر ابھارنا پاکستان کے شہروں کو مایوس کن اور بے ہنگم مستقبل سے بچائے گا۔ یہ وقت ہے کہ اس اہم اقدام کو تاخیر ہونے سے پہلے اپنا لیا جائے۔
لکھاری ایک فری لانس کالم نگار ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر umairjav@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
umairjaved@lumsalumni.pk
یہ مضمون ڈان اخبار میں 8 دسمبر 2014 کو شائع ہوا۔
لکھاری فری لانس کالم نگار ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: @umairjav
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔