دامن کو ذرا دیکھ ...
کیا اپنے معاشرے کے مظلوم طبقے سے کیے جانے والے سلوک پر شرمندگی کا احساس کافی ہے، یا حکمرانوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھ کر اپنے کاموں سے نظریں چرانا کافی ہے؟ پنجاب پولیس کی جانب سے اپنے حقوق مانگنے والے نابینا افراد پر تشدد ایک نئی بدترین سطح ہے جس کا اعتراف ہر ایک کو کرنا چاہئے۔ ہوسکتا ہے کہ اس واقعے کی تصاویر ہمیں مشتعل کردیں، مگر کیا ہم واقعی حیرت کا شکار ہوئے؟ کیا اپنی ریاست (اور معاشرے) کی جانب سے کمزور یا بدقسمتی کے شکار طبقات چاہے اقلیتی برادری ہو، خواتین یا غریب کی دھجیاں بکھیرنا کوئی خلاف توقع امر ہے؟
ہمارا معاشرہ بے حسی اور دوسروں کو اذیت پہنچا کر خوش ہونے کے امتزاج سے گھرا نظر آتا ہے۔ کیا ماہرین نفسیات اس حالت کے لیے کوئی اصطلاح استعمال کرسکتے ہیں؟ سب کو طاقت کے حصول میں ہی دلچسپی ہے کیونکہ اس کا غلط استعمال کیا جاسکتا ہے (یہاں تک کہ خاندان اور دوست احباب بھی ان لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو طاقت کے حصول کے بعد بھی اس کا دکھاوا نہیں کرتے) اور دوسرے کنارے پر وہ لوگ ہیں جو اس استحصال کو بے حسی سے برداشت کرنے کے قابل ہوچکے ہیں۔
یہ بحث اس موضوع پر نہیں کہ ہم بہت زیادہ بدکردار ہوگئے ہیں اور اب اس کے ساتھ ہی زندہ رہنا ہوگا، بلکہ اس بارے میں ہے، کہ ہمیں منظم ادارہ جاتی اصلاحات اور رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ پنجاب پولیس جرائم اور دہشت گردی کے واقعات کی تفتیش کے دوران غلطیاں کرتی ہے، جب وہ ڈیوٹی سرانجام دیتی ہے اور جب وہ ہجوم کو کنٹرول کرنے کا بیڑہ اٹھاتی ہے۔ اس میں تمام لوگوں کے لیے یکساں مواقع موجود نہیں ہیں، کیونکہ یہ بھی دیگر تمام اداروں کی طرح تربیت اور افرادی قوت کے بحران کا شکار ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جنھیں ہم تسلیم کرنے یا ان پر قابو پانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
کیا شہباز شریف کا پنجاب میں طرز حکمرانی اس سے ملتا جلتا نہیں جو عمران خان نئے پاکستان میں فراہم کرنے کا وعدہ کررہے ہیں: یعنی سب سے اوپر ایک مضبوط شخص بیٹھا ہو، اور پھر سب چیزیں خود ہی درست ہوتی جائیں؟ ہوسکتا ہے کہ شہباز شریف نے پولیس کو یہ ہدایت نہ کی ہو کہ وہ نابینا افراد کی تواضع لاتوں سے کرے، مگر وہ سات سال سے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ ہیں۔ ماڈل ٹاؤن میں ہونے والے قتلِ عام کی طرح اس واقعے کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے۔
لیکن عوامی آراء کے مطابق کیا شہباز شریف دیگر تمام وزرائے اعلیٰ کے مقابلے میں سب سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے وزیراعلیٰ نہیں؟ وہ ہر جگہ ہی موجود ہوتے ہیں؛ سیلابی پانی میں پیدل چلتے ہیں، انسداد ڈینگی مہم میں سامنے سامنے ہوتے ہیں، میٹرو بسیں اور پل تعمیر کراتے ہیں، کرپٹ افراد کو گھسیٹنے کے وعدے کرتے ہیں۔ لیکن آخر اس سب کے باوجود ہم کیوں آگے نہیں بڑھ رہے؟ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ 'ایک مضبوط شخص تمام برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ سکتا ہے' والا ماڈل مستحکم تبدیلی کے لیے غیر موثر ہو؟
لگتا ہے کہ مسلم لیگ نواز نے گزشتہ چند ماہ سے جاری عوامی ہلچل سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔ جب بھی حالات تناؤ کا شکار ہوں، تو حکومت کی جانب سے بلند و بانگ دعوے اور وعدے کیے جاتے ہیں: خود احتسابی، نئے منصوبے، میرٹ پر قیادت وغیرہ۔ لیکن جیسے ہی معاملات تھوڑے ٹھنڈے ہوں، تو کاروبار واپس معمول پر آجاتا ہے۔ مگر کیا ن لیگ پر غیر مستقل مزاجی کا الزام لگایا جاسکتا ہے؟ وہ عمران خان کی ڈیڈ لائنز پر بالکل ویسے ہی ردِ عمل کرتی ہے، جس طرح وہ گورننس کے مسائل کو حل کرنے لیے کرتی ہے، یعنی ایڈ ہاک ذہنیت کے ساتھ۔
ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن کو بھی پی پی پی کی پچھلی حکومت کی طرح حالات کا پورا اندازہ نہیں ہے۔ پی پی پی اب صرف ایک علاقائی پارٹی بن کر رہ گئی ہے، کیونکہ اقتدار میں رہتے ہوئے اس نے یہ دیکھنے سے انکار کردیا تھا، کہ پنجاب میں اس کا خاتمہ ہوتا جارہا ہے۔ اسی طرح عمران خان کی ڈیڈلائنز اور چھوٹے محاذوں میں کامیابیوں سے پریشان مسلم لیگ ن عمران خان کی سب سے بڑی کامیابی کو دیکھنے سے قاصر ہے، جو انہوں نے پنجاب میں متوسط طبقے کے ساتھ ساتھ حکومتی اشرافیہ جو کہ پہلے مسلم لیگ ن کا حصہ سمجھی جاتی تھی، کی وفاداریوں کو تقسیم کرکے حاصل کی ہے۔
آج خاکی وردی والوں اور ان کے خاندانوں کے ووٹ عمران خان کے پاس جارہے ہیں۔ بیوروکریسی، جس میں پنجابیوں کا غلبہ ہے، تقسیم ہوچکی ہے۔ ملک سے باہر مقیم دولت مند پاکستانی پی ٹی آئی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ پروفیشنل متوسط طبقہ، جو بے ڈھنگے سیاستدانوں سے نفرت اور مردِ آہن قسم کے لوگوں کو پسند کرتا ہے، عمران خان کی جانب جھکتا نظر آرہا ہے۔ تاجروں میں فی الحال یہ رجحان نہیں، تاہم اگر توانائی بحران جاری رہتا ہے تو کون جانتا ہے وہ کیا فیصلہ کر لیں۔
پی ٹی آئی کے ساتھ 'سب کچھ یا کچھ نہیں' کا کھیل کھیل کر مسلم لیگ نواز ایسی جماعت کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے جو ماضی اور حال کا تو حصہ ہے مگر مستقبل میں اس کا نشان نظر نہیں آتا بالکل آج کی پی پی پی کی طرح۔
تو کیا عمران خان کا ابھرنا پاکستان میں ترقی لانے کے لیے بہترین ہے؟ ان کے رویے اور پالیسیوں کے پانچ پہلوﺅں نے خود ان کے لیے خیرسگالی رکھنے والے افراد کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
سب سے پہلے تو دہشت گردی کے خلاف ان کی پالیسی میں موجود خامیاں ہیں۔ عمران خان نے حال ہی میں کہا تھا کہ اگر وہ وزیراعظم ہوتے، تو فوج کو فاٹا جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ اس بھیانک خواب کا تصور کریں، جو اس وقت آیا ہے جب شمالی وزیرستان میں کامیاب فوجی آپریشن کے ذریعے دہشت گردی کا بڑا اسٹرکچر سامنے لایا گیا ہے (ٹارچر سیلز، خودکش بمبار و آئی ای ڈی فیکٹریز، دہشت گردی کی معیشت وغیرہ) اور یہ وہ وقت ہے جب لگتا ہے کہ فوج آخر کار غیر ریاستی عناصر کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔
دوسری چیز قانون کو ہاتھ میں لینا ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ کیونکہ انہیں ان کی شرائط پر انصاف نہیں ملا، اس لیے اب ملک بند کرنا ہوگا۔ قانون کی حکمرانی کا کوئی حامی اس اقدام کی وضاحت پیش کرسکتا ہے؟ اس کی مثال بھی موجود ہے۔ 2013 میں پی ٹی آئی نے اپنے کارکنوں کو طاقت کے زور پر خیبر پختونخواہ میں نیٹو کنٹینرز روکنے کی ہدایت کی مگر یہ سرکس عدالتی احکامات کے بعد بتدریج تحلیل ہوگیا۔
تیسرا عمران خان کی ریاست اور حکومت کے درمیان فرق کو سمجھنے کی صلاحیت نہ ہونا ہے۔ عمران خان چاہے لوگوں کو ٹیکس اور بل ادا نہ کرنے پر اکسائیں، رقوم قانونی طور پر بینکوں کے ذریعے بھیجنے سے روکیں، یا ان کا پاکستان کو بند کرنے کا پلان سی، ایسا نظر آتا ہے کہ انہیں اس بات پر کوئی پچھتاوا نہیں کہ وہ مسلم لیگ ن سے بات چیت کرنے کے لیے ملک کو یرغمال بنا لیں۔
چوتھی چیز عمران خان کی انتشار کی سیاست ہے۔ جمہوریت میں لوگوں کو تقسیم کرنے کے بجائے کسی ایک نتیجے پر پہنچنے کے لیے اکھٹا کیا جاتا ہے اور حالات خراب نہیں بلکہ درست کیے جاتے ہیں۔ عمران خان کا امید کا پیغام تلخی اور نفرت سے لپٹا ہوا ہے جس نے ملک کو تقسیم کردیا ہے۔ آج پاکستان ایک تقسیم شدہ گھر ہے؛ یہاں تک کہ عاقل طبقہ بھی سیاسی اختلافات پر ایک دوسرے سے لڑ رہا ہے۔ عمران خان کا اپنے مخالفین اور ناقدین پر غصہ ایک طرف، کیا پی ٹی آئی کے اندر اختلاف رائے کی گنجائش موجود ہے؟
پانچویں چیز ان کے خطرناک حد تک سادہ حل ہیں۔ ہمیں تیس نومبر کو بتایا گیا تھا کہ اگر ووٹوں کی گنتی دیانتداری سے ہوتی تو تعلیم یافتہ متوسط طبقہ پارلیمنٹ پر حکمران ہوتا۔ سیاست میں سے بڑے مہروں کو نکالنا جمہوریت کے لیے مشکل ترین چیلنجز میں سے ہے۔ قانونی طور پر برابری کو سماجی اور سیاسی برابری نہیں کہا جاسکتا۔ الیکشن مہمات کے اخراجات میں اصلاحات، اور یہ کارگر کیوں نہیں، کے بارے میں 101 تھیوریز موجود ہیں۔ عمران خان کو سادہ لوح عوام کو کہانیاں سنانے کے بجائے اصلاحاتی منصوبوں کو سامنے لانا چاہیے۔
ہمیں خود اپنے آپ کا تجزیہ کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ ایک ایسی مسلم لیگ ن کا تصور کریں، جو اپنے اقدامات پر دوبارہ غور کرے، اور ایک ایسی تحریکِ انصاف، جو یہ جانے کے اچھے مقاصد کے لیے غلط طریقے نہیں اختیار کیے جاسکتے۔ پاکستان کو آگے بڑھانے کے لیے دونوں جماعتوں کو ایسی پالیسی کو تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو اصولوں پر مفاہمت کیے بغیر ایک دوسرے کے مخالف مقاصد کے لیے جگہ بناسکے۔
لکھاری وکالت سے وابستہ ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر babar_sattar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
sattar@post.harvard.edu
یہ مضمون ڈان اخبار میں 8 دسمبر 2014 کو شائع ہوا۔