انٹرسٹیلر: ستاروں کی تسخیر
نسل انسانی کے لیے دوسرے سیاروں میں اپنی آبادیاں بنانے کی جدوجہد پریشان کن حد تک پیچیدہ ہے یعنی ایسا ایونٹ جسے دیکھنے کی خوشی ممکنہ طور پر ہم اپنی زندگیوں میں تو محسوس نہیں کرسکتے۔
اور 'انٹرسٹیلر' میں مقبول فلمساز و ہدایتکار کرسٹوفر نولان نے اس جدوجہد کو مستقبل کے ایک ایسے تصوراتی منظر کے ساتھ پیش کیا ہے جس میں زمین اپنے خوراک کے ذرائع سے محروم ہونے لگتی ہے اور اس وقت نوع انسانی کی بقاء کی واحد امید ایک پُرجوش سائنسی دریافت کے بعد خلاء میں آبادکاری سے جڑ جاتی ہے۔
|
انٹرسٹیلر کو ایک اولو العزم یا بلند حوصلہ فلم کہنا اس کی اہمیت کو کم کرنا ہے، یہ تو گزرے برسوں میں سلور اسکرین پر پیش کی جانے والی ممکنہ طور پر سب سے عظیم الشان داستان ہے جس میں خلائی سفر کی ناقابل بیان خوبصورتی کے ساتھ ساتھ انسانی حالات کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کو بھی بیان کیا گیا ہے۔
اس طرح کے بڑے کینوس پر اگر کسی اور فلم کو ترجیح دی جاسکتی ہے وہ مرحوم اسٹینلے کوبرک کی ‘2000: اے اسپیس اوڈیسے’ ہے جس نے معیار بنایا، بہت کم فلمسازوں نے ہی کوبرک کے اس ماسٹرپیس کے برابری کے مشکل ٹاسک کا بیڑہ اٹھایا ہے۔
مگر اس حوالے سے نولان کو سراہا ضرور جانا چاہئے کہ انہوں نے ایسے مشکل پراجیکٹ کو بنانے کا فیصلہ کیا مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ڈائریکٹر نے کچھ زیادہ ہی زور لگا دیا۔ یعنی اس سائنسی فلم کو جس حد تک تفریحی ہونا چاہئے تھا ویسا ہو نہیں سکا اور وہ بھی اس وقت جب آپ کو اس کی توقع نہ ہونے کے برابر تھی۔
ایک ایسے ہدایتکار جنھوں نے ہمارے سامنے مضبوط کہانی پر مبنی فلمیں جیسے ممینٹو (2000) اور دی ڈارک نائٹ (2008) پیش کی ہو، اسی کرسٹوفر نولان کی انٹرسٹیلر میں کہانی بیان کرنے کا انداز حیرت انگیز حد تک بے ڈھنگا تھا۔
کئی مواقعوں پر ڈائیلاگ مضحکۂ خیز حد تک خراب محسوس ہوتے ہیں اور خطرناک حد تک اس خطے کے قریب جا پہنچتے ہیں جہاں ایم نائٹ شیئملین (لیڈی ان دی واٹر) نے بدقسمتی سے اپنا جھنڈا کافی مستحکم انداز سے گاڑ رکھا ہے۔
فلم کو جو چیز مزید بدتر بنا دیتی ہے وہ کہانی کی روانی کو مناظر میں غیرضروری حد تک کھینچنا ہے۔ خاص طور پر یہ بات اس وقت زیادہ دل کو لگتی ہے جب فلم کے آغاز میں ہمارے خلاء باز ہیرو کوپر (میتھیو مک کونہے) حیرت انگیز طور پر اپنے بچوں کے اسکول کے اساتذہ سے طویل سیاسی تبادلۂ خیال کرتے نظر آتے ہیں۔
انٹرسٹیلر کا جادو دوسرے ایکٹ میں عروج پر نظر آتا ہے جہاں کہانی میں خامیاں نظر آتی ہیں مگر پھر بھی وہ حصہ کمال کا ہے۔
حقیقی دنیا میں حال ہی میں جب مریخ میں انسانی آبادی بسانے کے لیے رضاکاروں کی تلاش کی خبریں سامنے آئیں وہیں لاتعداد افراد نے اس مشن کا حصہ بننے کی خواہش کا اظہار کیا۔
اگر آپ کو کبھی حیرت ہوتی ہے کہ خلائی تسخیر سے محبت کا شوق انسانوں کو کس طرح اپنی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار کردیتا ہے تو اس صورت میں انٹرسٹیلر اس کا جواب ثابت ہوسکتی ہے۔
یہ وہ محبت ہے جس کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں بلکہ اسے محسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔
شکر کی بات یہے کہ یہاں اداکاری اچھی ہے اور میتھو مک کونہے (جو اپنے کیریئر کے بہترین کردار میں نظر آئے) کے ساتھ ساتھ انٹرسٹیلر میں چند مزید اچھے اداکار بھی شامل ہیں جو نولان کی اس سے پہلے کی فلموں میں بھی موجود تھے جیسے مائیکل کینی (پروفیسر برانڈ) اور اینا بیتھ وے (ایمیلیا برانڈ)۔
دونوں نے ناسا کے عملے کا کردار ادا کیا ہے جو نسل انسانی کو معدوم ہونے سے بچانے کے لیے سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے۔
اگر انٹرسٹیلر ڈائیلاگز میں بے ڈھنگے پن کا شکار نظر آتی ہے تو اس کا تصوراتی خلائی سفر مکمل طور پر سحرزدہ کردینے والا ہے، ہمارے نظام شمسی سے ہٹ کر دیگر سیاروں کی تصویر کشی، ثقب کرم (وارم ہولز) اور یقیناً نسل انسان کے سب سے بڑے دشمن سمجھے جانے والے بلیک ہولز۔
ایک انسان کے لیے بالائی خلاء کو سر کرنا اتنا ہی غیر اہم ہوسکتا ہے جتنا ایک چیونٹی کے لیے کسی سمندر کو عبور کرنا اور انٹرسٹیلر نے اس نکتے کو موثر انداز سے پیش کیا ہے کہ یہ صرف متاثر کن ہی نہیں بلکہ کچھ حد تک خوفزدہ کردینے والا بھی ہے۔
اس کے مناظر کو ہینس زیمر نے زبردست اور متاثر کن موسیقی سے مزئین کیا ہے جبکہ اس فلم میں دکھائی جانے والی سائنس کے کچھ حصے کو سائنسی میدان کے راک اسٹار نیل ڈی گریس ٹائسن نے اس کی توثیق کی ہے (اگرچہ انہوں نے بھی ایک بلیک ہول کے قریب موجود سیارے میں انسانی آبادی کی منطق کا سوال اٹھایا ہے)۔
دیکھنے والوں کے لیے انٹرسٹیلر سے وابستہ امیدوں کو دھچکا اس کے تخیلاتی تیسرے ایکٹ میں لگتا ہے جو یقیناً انسیپشن کے مقابلے میں زیادہ بڑی بحث کا دروازہ کھولے گا۔
بدقسمتی سے فلم کے اختتام کے لیے استعمال کیا جانے والا سائنسی نظریہ کسی جادو کی چھڑی جیسا ہے اور صاف نظر آتا ہے کہ کہانی میں موجود خلاء کو سستی جادوئی ترکیب کی طرح باندھا گیا ہے۔
موشن پکچر ریٹنگ (ایم پی اے اے: ریٹڈ پی جی۔ 13 جس کی وجہ اس میں شامل جان لیوا ایکشن اور سخت زبان کا استعمال ہے)
یہ ریویو سب سے پہلے 30 نومبر کے ڈان سنڈے میگزین میں شائع ہوا۔
نعمان انصاری فری لانس لکھاری ہیں اور کئی اشاعتوں، بشمول امیجز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل اپنے فینٹیسی ناول پر کام کر رہے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: @pugnate
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔