مرنے کے لیے پیدائش؟
کمرہ اطمینان بخش حد تک گرم تھا جو کہ باہر موجود سردی کے مقابلے میں ایک خوشگوار تبدیلی تھی، یہاں حرارت برقی ہیٹرز کے استعمال سے پیدا کی جارہی تھی جو کہ ننھے بستروں میں نصب تھے اور ان پر کچھ روز پہلے ہی پیدا ہونے والے گیارہ نومولود بچے لیٹے ہوئے تھے ۔
مگر اس خوشگوار حرارت کو یہ حقیقت سرد کررہی تھی کہ یہ ننھے فرشتے ہل جل نہیں سکتے، وہ تو بس زندہ ہیں، ان کا سینہ سانس لینے سے اوپر نیچے ضرور ہورہا تھا مگر ان میں سے متعدد کے بچ نکلنے کے امکانات بہت کم تھے۔
ایک خاتون کے علاوہ اس وارڈ میں کوئی اور ماں نظر نہیں آرہی تھی، ایک بچی جس کا نام ثناءتھا، خوفناک حد تک ساکت تھی، اس کا سر ایک طرف جھکا ہوا تھا اور دیگر بچوں کی طرح آکسیجن کی ایک پتلی ٹیوب اس کی ناک میں لگی ہوئی تھی۔
وارڈ کے عملے نے بتایا "یہ بچی حمل کے ساتویں ماہ میں پیدا ہوئی تھی اور اسے پیدائشی برانکو نمونیا (ایک قسم کا نمونیہ) ہے، درحقیقت یہ سب بچے شدید بیمار ہیں"۔
سرگودھا کے ڈی ایچ کیو ہسپتال میں رات گئے آٹھ بچوں کی ہلاکت کا معاملہ دہلا دینے والا تھا، پنجاب حکومت نے اسے 'مجرمانہ غفلت' قرار دیا تھا مگر اموات کا سلسلہ رکا نہیں اور منگل کی صبح تک کم از کم اکیس بچے ہلاک ہوچکے تھے۔
ڈاکٹرز کھلے عام اعتراف کرتے ہیں کہ یہ اعدادوشمار تو کچھ نہیں بچوں کی ہلاکتیں سارا سال جاری رہتی ہیں۔
پی ایم اے پنجاب کے نائب صدر اور پی ایم اے سرگودھا کے صدر ڈاکٹر سکندر حیات وڑائچ بتاتے ہیں"روزانہ ہسپتال میں داخل ہونے والے پندرہ میں سے چار بچے ہلاک ہوجاتے ہیں"۔
انہوں نے کہا اس رات کو 45 بچے ہسپتال میں صرف ایک نرس کی نگہداشت میں تھے اور وارڈ بوائز نہیں تھے، یہاں صرف پانچ انکوبیٹرز ہیں اور آکسیجن سپلائی سسٹم کام کررہا ہے مگر یہ کافی نہیں۔
ایک مقامی صحافی جو اس رات کا عینی شاہد بھی تھا نے بتایا" نرس ایک بچے کو کچھ آکسیجن دیتی تھی اور پھر اسے دوسرے کو دینے کے لیے چلی جاتی تھی"۔
ڈاکٹر وڑائچ کے مطابق ایسا نہیں کہ بچوں کا خیال نہیں رکھا جارہا تھا مگر ڈاکٹر زیادہ کچھ کرنہیں سکتے"ڈی ایچ کیو کی نئی عمارت پر لاکھوں روپے لگائے گئے مگر حکومت نے استعمال کے لیے کسی قسم کا نظام نہیں دیا، نئی عمارت میں آکسیجن سپلائی لائنز دستیاب نہیں اور پرانی عمارت میں ہمیں مشینری کی قلت، سہولیات اور عملے کی شدید کمی کا سامنا ہے، ہمارے پاس کافی ڈاکٹرز ہیں مگر نرسوں اور وارڈ بوائز کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، یہاں بستروں کی کمی ہے، یہی وجہ ہے کہ بچوں کو اکثر بستر شیئر کرنا پڑتے ہیں، میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ ڈاکٹر ہی ہے جو ہسپتال کو ورکنگ کنڈیشن میں برقرار رکھے ہوئے ہیں"۔
اور یہ بالکل صحیح ہے ڈی ایچ کیو کی نئی عمارت اگرچہ بہت بڑی اور بے داغ ہے مگر وہ لگ بھگ خالی ہے۔
ڈی ایچ کیو کی پرانی عمارت میں بچوں کا آئی سی یو بہت فرسودہ اور پرانا ہے، اس کے بالکل سامنے پیڈیا ٹرک وارڈ ہے جہاں بیمار بچوں کو ایڈمٹ کیا جاتا ہے۔
اگرچہ ڈی ایچ کیو میں بچوں کی پیدائش نہیں ہوتی تاہم یہ برابر میں موجود مولا بخش ہسپتال کے گائنی کولوجیکل ونگ سے منسلک ہے جہاں کی اسسٹنٹ میڈیکل سپرٹینڈنٹ ڈاکٹر ادیبہ ثمر انکشاف کرتی ہیں کہ ضلع بھر میں بچوں کی پیدائش کے حوالے سے صورتحال بہت خوفناک ہے۔
وہ بتاتی ہیں"ہم قبل از وقت یا بیمار بچوں کو ڈی ایچ کیو لے کر جانے کا مشورہ دیتے ہیں تاہم اس رات کو دنیا سے گزر جانے والے بچوں میں سے کوئی بھی ہمارے ذریعے وہاں نہیں پہنچا تھا"۔
خاندانی منصوبہ بندی ایسوسی ایشن پاکستان کے مطابق ملک میں سالانہ دو لاکھ 25 ہزار 450 بچے ہلاک ہوتے ہیں یا روزانہ 615 نومولود بچے دنیا سے گزر جاتے ہیں، 2012-13 میں بچوں کی ہلاکت کی شرح ایک ہزار میں 74 تھی، تو ڈاکٹروں کی جانب سے ڈی ایچ کیو میں روزانہ چار بچوں کی ہلاکت کا دعویٰ درست ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹر وڑائچ کے مطابق"یہ ایک ٹیچنگ ہسپتال ہے جو خوشاب، بھکر، ڈی آئی خان، جھنگ، منڈی بہاﺅالدین اور میانوالی کے ساتھ ساتھ سرگودھا کے نواح میں واقع چھوٹے دیہات کی ضروریات پوری کرتا ہے، ان اضلاع سے خواتین اسی وقت یہاں آتی ہیں جب صورتحال سنگین ہو کیونکہ فاصلہ کافی زیادہ ہے، کئی بار تو بچے کی پیدائش مقامی مڈوائف کے ہاتھوں ہوچکی تھی، جو یا تو قبل از وقت پیدا ہوتے ہیں یا انہیں پیدائش سے پہلے مناسب نگہداشت نہیں ملتی"۔
خون کے مرض اینیمیا اور پیدائشی دم گھٹنا جیسے امراض بچوں میں موت یا معذوری کا خطرہ بڑھا دیتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت پیدائش سے پہلے ماں کی اچھی نگہداشت کی سفارش کرتا ہے مگر بیشتر خواتین اس سے محروم رہتی ہیں، ڈاکٹر وڑائچ بتاتے ہیں"عالمی ادارہ صحت نے وارڈ میں ہر وقت تین نرسوں کو رکھنے کی بھی سفارش کی ہے مگر کسی وجہ سے حکومت کسی کو بھرتی نہیں کررہی جبکہ اس سانحے کے بعد بھی ایک کے سوا کوئی انکوبیٹر فراہم نہیں کیا گیا، اور وہ بھی ایک دیہی طبی مرکز کا تھا جسے اس کے بغیر مشکلات کا سامنا ہوگا"۔
محکمہ صحت پنجاب کے انفارمیشن آفیسر اخلاق علی خان نے بتایا" محکمہ صحت کو اس معاملے کا سخت نوٹس لینا چاہئے، میں سمجھ سکتا ہوں کہ اب تک نئی عمارت کو استعمال نہیں کیا جاسکا ہے اور ہم نے اس کے لیے کوئی ٹائم فریم تو نہیں دیا مگر اسے فنکشنل بنانے پر کام بہت سست روی سے آگے بڑھ رہا ہے"۔
انہوں نے کہا"اگر ہم بیس انکوبیٹر بھی فراہم کردیں تو وہ 21 ویں بچے کو کہاں رکھیں گے؟ ہمیں ہمیشہ ہی مزید کی ضرورت ہوتی ہے، جہاں تک ہلاکتوں کی بات ہے کہ تو اگر چلڈرن ہسپتال لاہور یا کسی اور ہسپتال کا ریکارڈ دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ سارا اس طرح کی ہلاکتیں کتنی عام ہیں"۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ نجی ہسپتالوں میں بچوں کی پیدائش تو ہوجاتی ہے مگر ان کے پاس نرسریاں اور دیگر سہولیات موجود نہیں ہوتیں اور وہ ان ننھے فرشتوں کو سرکاری ہسپتال لے جانے کا مشورہ دیتے ہیں"سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر کسی کو ایڈمٹ کرنے سے انکار نہیں کرسکتے"۔