دائیں اور بائیں بازو کا مقابلہ
عمران خان بمقابلہ شریف برادران کے درمیان ایک اور راﺅنڈ تیس نومبر کو ہوا۔ اب تک عمران خان کی جانب سے بار بار کیے جانے والے اس دعوے کا نوٹس نہ لینا مشکل ہے کہ مرکزی دھارے کی سیاست تبدیل ہوگئی ہے یعنی جو سیاسی مقابلہ پہلے 'دائیں اور بائیں' کے درمیان تھا اب وہ صرف 'صحیح بمقابلہ غلط' ہوگیا ہے۔
اس بات پر زور دیا جاسکتا ہے کہ عمران خان نے اپنی انگلی نوجوان آبادی کی نبض پر رکھی ہوئی ہے جو ماضی کی روایتی 'دائیں یا بائیں' بازو کی تقسیم سے ناواقف ہے، اور سیاست کو اخلاقی بنیادوں پر دیکھنے کی قائل ہے۔
تاہم بحث کے دوران ہم اس بات کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں کہ صف اول کی سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت سیاسی رویوں کو شکل دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ دائیں اور بائیں بازو کے درمیان نظریاتی جنگ کو تاریخ کے کچرا دان میں ڈال کر عمران خان اور ان کے ساتھی اس بارے میں سیاسی اور دانشورانہ مباحثوں کی زبان بھی بند کرنا چاہتے ہیں اور لوگوں کی توجہ اس بات سے ہٹانا چاہتے ہیں کہ سیاست کا جھکاؤ کس حد تک دائیں جانب ہوگیا ہے۔
دنیا بھر میں دائیں بازو کی جانب جھکاؤ عمل میں آیا ہے، اور پی ٹی آئی، مسلم لیگ نواز، ایم کیو ایم اور دیگر کی عوامی ردعمل کی سیاست کی مثالیں متعدد ممالک میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ 'نظریاتی خاتمہ' کیا واقعی ایک حقیقی پیشنگوئی ہے؟
اب آئیں اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ ملکی نوجوان کس حد تک روایتی سیاست سے اختلاف، اور بائیں بازو کے نظریات اور سیاست کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں۔
ماضی کی طاقتور بائیں بازو کی نیشنل اسٹوڈینٹ فیڈریشن (این ایس ایف) نے گزشتہ دنوں تین برسوں کے دوران پنجاب میں اپنے دوسرے کنونشن کا انعقاد کیا۔ کنونشن شیخوپورہ میں ہوا جس میں صوبے کے متعدد اضلاع سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں طالبعلموں نے شرکت کی تاکہ پارٹی عہدیداران کے انتخاب سمیت موجودہ سیاست اور این ایس ایف کے سندھ، گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کے نمائندگان سے تبادلہ خیال کیا جاسکے۔
دو نسلوں قبل این ایس ایف ملک کے بڑے حصے میں جانا پہچانا نام تھا، پھر وہ دور آیا جب دیگر تنظیموں جیسے اسلامی جمعیت طلباء نے این ایس ایف اور دیگر ترقی پسند گروپس کو میدان سے بے دخل کردیا۔ طلبا کی ایک بڑی تعداد بائیں بازو کے عروج کے دنوں میں تعلیمی اداروں کی سیاست میں حصہ لیتی تھے، لیکن چیزیں اب کافی مختلف نظر آتی ہیں۔
یہ صرف اتفاق نہیں کہ نوجوانوں کی عوامی مفاد کے معاملے میں دلچسپی میں بتدریج کمی واقع ہوئی جس کی وجہ نظریاتی طالبعلم سیاست کا بنجر ہو جانا تھا۔ اسی لیے یہ خوشگوار امر ہے کہ این ایس ایف جیسا طالبعلم گروپ تین دہائیوں کے طویل عرصے کے بعد پھر سے ابھر رہا ہے۔ اب تو یہ وقت ہی بتائے گا کہ یہ مرکزی دھارے میں کس قدر بامقصد جگہ بناسکتا ہے۔
نظریاتی اختلاف جمہوریت کی جڑیں گہری کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سخت گیر عناصر کے برعکس ترقی پسند اپنے نظریاتی مخالفین کو سیاسی نقشے سے مٹانے پر زور نہیں دیتے۔ بائیں اور دائیں بازو کے گروپس 1960 اور 70 کی دہائیوں میں یونیورسٹیوں میں ایک دوسرے سے کئی لڑائیاں لڑیں مگر آج کے دور جیسا تشدد اور بے لگامی کی کیفیت اس وقت نظر نہیں آتی تھی۔ درحقیقت اس وقت سیاسی مقابلہ ہر پیمانے سے صحت مند تھا اور اس کے اثرات یونیورسٹیوں سے باہر نکل کر بھی میدان سیاست پر اثرانداز ہوتے تھے۔
درحقیقت ملک کے اندر جمہوریت پر جاری ظاہری بحث اس وقت زیادہ بامقصد نظر آسکتی ہے جب ہم اس بات کا احساس کرلیں کہ تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کی سیاسی تربیت کس حد تک معاشرے میں سیاست اور نظریات کو فروغ دینے میں مددگار ثابت سکتی ہے۔
اگرچہ اس حوالے سے ایک خوف کا احساس بھی پایا جاتا ہے اور اسی کے نتیجے میں طالبعلم سیاست ایوب اور ضیاء کے آمرانہ ادوار میں مجرمانہ رخ اختیار کرگئی تھی۔
سال 2008 میں مشرف حکومت کے خاتمے کے بعد نومنتخب وزیراعظم نے قومی اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت طلبا تنظیموں پر عائد پابندی فوری طور پر اٹھالے گی۔ نہ صرف یہ کہ اس اعلان پر کبھی عمل نہیں ہوا، بلکہ طالبعلموں کی جانب سے پابندی اٹھانے کے ممکنہ اثرات پر بھی خدشات کا اظہار کیا گیا۔
اس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہی گروپ جو یونیورسٹیوں کی سیاست اور نظریاتی آزادی کا حامی ہونا چاہیے، اس جمہوریت اور آزادی کے حوالے سے خدشات رکھتا ہے۔ اس طرح کا گومگو رویہ حکمران طبقوں نے پیدا کیا ہے، جو سیاسی سرگرمیوں اور ان کی بنیاد میں موجود نظریات کو ختم کرنے پر تلا ہوا ہے۔
تیس نومبر سے پہلے یا بعد میں پاکستان کے تمام طبقے چاہے نوجوان ہوں یا بوڑھے، ان کے دماغوں میں طاقت کی سیاست زبردستی ڈالی جائے گی، جس کا ان کی زندگی پر کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ وہ سیاسی نظریات کے ختم ہوجانے، اور طاقت کے کھیل میں موجود کھلاڑیوں کی اخلاقیات کے بارے میں بیانات سنیں گے۔ اور پھر اس کے بعد ایک اور راؤنڈ کا انتظار کیا جائے گا۔
انہیں ہوسکتا ہے کہ سیاسی نظریات کی فرسودگی کے حوالے سے مزید شاندار الفاظ پر مشتمل تقریریں اور پاور گیم کو اخلاقی لبادہ پہنانے کے اصولوں کو سننا پڑے اور پھر شو ختم ہوجائے گا اور ہمیں ایک اور شو کا انتظار کرنا ہوگا۔
پاکستانی معاشرے کی سطح کے نیچے موجود سماجی برائیاں اور استحصال وغیرہ مزید بدتر ہوجائیں گے، یہی وجہ ہے کہ بائیں بازو چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، یورنیورسٹیوں میں ہو یا نہیں، کبھی بے مقصد نہیں ہوسکتا۔
لکھاری قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں تدریس سے وابستہ ہیں۔
لکھاری قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔