نقطہ نظر

دوستی نا سہی، مگر دُشمنی بھی کیوں؟

امید ہے کہ اگلی سارک کانفرنس تک پاکستان اور ہندوستان کے مابین تنازعوں کے حل کے لیے خاطر خواہ پیشرفت ہوچکی ہوگی۔

ایک وقت تھا جب 2002 میں فوجی صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرف بِنا کسی طے شُدہ ارادے کے سارک کانفرنس میں تقریر کرنے کے بعد ہندوستانی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے پاس گئے اور ہاتھ ملانے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا۔

ویسے تو سارک کی گیارہویں کانفرنس میں شرکت کے لیے جانے سے قبل ہندوستانی وزیر اعظم واجپائی کا کہنا تھا کہ پاکستانی صدر سے کانفرنس کی سائیڈ لائنز پر کسی بھی قسم کی ملاقات کا کوئی چانس نہیں۔ مگر پاکستانی صدر کی جانب سے دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے بعد ہندوستانی وزیر اعظم کسرِنفسی سے کام لیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ دوستی کی پینگ لینے کے لیے آمادہ ہوگئے۔

2002 میں مشرف اور واجپائی کے درمیان ہاتھ ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملے کے تین ہفتے بعد ملایا گیا، جب دونوں ملکوں کی افواج کارگل آپریشن کی وجہ سے بارڈرز پر پوزیشنیں سنبھالیں ہوئی تھیں اور دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔

پھر دوبارہ ایسا ہی موقع آیا جب 2013 کے انتخابات میں منتخب ہونے والے ہندوستانی وزیر اعظم نریندرا مودی کے دعوت نامہ پر پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف دہلی گئے اور مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی۔

خوش قسمتی سے اِس وقت دونوں ایٹمی طاقتوں کے مابین حالات اُس نہج پر نہیں جہاں 2002 میں تھے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کنٹرول لائن پر جھڑپوں میں کچھ ہلاکتیں ہوئی ہیں اور پاکستانی سیاستدانوں کی جانب سے کشمیر سے متعلق دیئے گئے بیانات پر ہندوستان میں شدید غم و غصّہ پایا جاتا ہے۔

مگر موجودہ حالات دونوں ممالک کے لیے دوستی آگے بڑھانے کے لیے بہترین موقع ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک میں ہی حکومتیں نئی ہیں اور ان کے پاس اتنا وقت ہے کہ اگر وہ مذاکرات میں کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو طے شدہ باتوں کو عملی جامہ پہنانا دونوں حکومتوں کے لیے ممکن ہوگا۔

ایک اور خوش قسمتی یہ کہ دونوں مواقعوں پر ہی ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت تھی۔ جس کی جانب سے دونوں مواقعوں پر ہی مثبت ردّعمل سامنے آیا۔ اس کے علاوہ بی جے پی اور نواز حکومت کے درمیان فروری 1999 میں لاہور ڈیکلریشن بھی ہو چکا ہے۔

پاکستان میں اقتدار فوجی جرنیل کے پاس ہو یا جمہوری حکومت کے پاس، یہ بات تو مانی پڑے گی کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے ہندوستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بارہا بڑھایا گیا اور موجودہ حالات میں بھی پاکستان ہندوستان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنا چاہتا ہے۔ مگر ہندوستان پاکستانی سفیر کی حریت رہنمائوں سے ہونے والی ملاقات کو بنیاد بنا کر مذاکرات منقطع کیے بیٹھا ہے۔

ویسے تو میزبان ملک نیپال کے وزیرِ خارجہ مہندرا پانڈے نے پیشکش کی ہے کہ نیپال ہندوستان اور پاکستان کے مابین ثالث کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ مگر نیپال کی پیشکش کا صرف تب ہی فائدہ ہوسکتا ہے جب دونوں رہنما اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے کم از کم مذاکرات کا منقطع شدہ سلسلہ ہی دوبارہ سے شروع کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔

اس کے علاوہ ہندوستانی حکومت پاکستان پر ہندوستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگاتی ہے۔ ہندوستان کو پاکستان پر یہ الزام لگاتے وقت یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار ہے اور اب تک 50,000 سے زائد جانیں اس جنگ کی نذر کر چکا ہے۔

اس میں کسی حد تک حقیقت ضرور ہے کہ ماضی میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے رابطے کچھ شدت پسند تنظیموں سے رہے ہیں، مگر ہندوستان کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ پاکستانی فوج اس وقت دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیز کے پاس بھی بلوچستان میں ہندوستانی مداخلت کے شواہد موجود ہیں۔ مگر پاکستانی حکومت نے ان ثبوتوں کی بنیاد پر کبھی بھی مذاکرات کرنے سے انکار نہیں کیا۔

لہٰذا موجودہ حالات و واقعات کو سمجھتے ہوئے دونوں ممالک کے سربراہان کو چاہیے کہ وہ سارک کانفرنس کو غنیمت سمجھیں اور جذبات، احساسات اور امکانات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مذاکرات کی میز کی طرف پیشقدمی کریں۔ کیونکہ جنگ کرنے سے دونوں ممالک تباہ تو ہو سکتے ہیں مگر ترقی نہیں کر سکتے۔

سارک کانفرنس میں شرکت کے لیے جانے سے قبل وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ مگر پہل ہندوستان کو کرنا ہو گی۔

وزیراعظم پاکستان کا یہ مطالبہ ہندوستان کی جانب سے مذاکرات کی معطلی کے اعلان کے بعد جائز لگتا ہے اور اس کی وجہ یہ کہ حریت رہنمائوں کے ساتھ پاکستانی سفیر کی ملاقات کو بنیاد بنا کر مذاکرات کی معطلی بی جے پی حکومت کا جائز اقدام نہیں لگتی۔

اگر ہندوستانی حکومت کو حریت رہنمائوں سے اتنی ہی تکلیف ہے تو ہندوستانی حکومت ان سے سفری دستاویزات اور دیگر سہولیات فوری طور پر واپس کیوں نہیں لیتی۔ دوسرا اگر ہندوستانی حکومت جموں و کشمیر پر اپنا حق سمجھتی ہے تو پھر اسے ڈر کس چیز کا ہے؟

خیر سارک کی انیسویں کانفرنس اگلے سال (ابھی تک کے پروگرام کے مطابق) پاکستان میں ہوگی اور ہمیں یہ امید کرنی چاہیے کہ اس کانفرنس تک پاکستان اور ہندوستان کے مابین کشمیر مسئلہ نا سہی مگر دیگر تنازعوں کے حل کے لیے کوئی خاطر خواہ پیشرفت ہوچکی ہوگی۔

نوید نسیم

بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@

nasim.naveed@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔