کراچی کانفرنس: شہر کراچی کے ماضی و حال پر ایک کاوش
کراچی میں ٹریفک کے مسائل کیا ہیں؟ اس کی زمینوں کے اختیارات کن اداروں کے پاس ہیں اورہندو برادری نے کراچی شہر میں صحت و تعلیم کے لیے کیا کیا اہم کردار اد کیے؟ ان سب کی درست معلومات اور دلچسپ حقائق کراچی پر دوسری عالمی کانفرنس میں پیش کیے گئے جو اکیس سے تیئس نومبر تک کراچی آرٹس کونسل میں منعقد کی گئی۔
اس موقع پر ڈاکٹر اسماء ابراہیم نے کراچی کے فراموش کردہ وکٹوریا میوزیم کا تفصیلی احوال پیش کیا اور انہوں نے اسی نوعیت کے ایک اور میوزیم کے قیام کی تجویز بھی پیش کی۔
اس سے قبل ماہرِ آثارِ قدیمہ، ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری نے سندھ میں برفت قبائل کی ہجرت پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج برفت قبیلہ زیریں سندھ کے سب سے بڑے قبیلے میں شمار ہوتا ہے۔
کراچی کی تاریخ کے اس اہم سیشن میں ڈاکٹر ذوالفقار علی کلہوڑو نے کراچی سے 70 کلومیٹر دور مہر وادی میں پتھروں پر کندہ تصاویر کا ذکر کیا اور شرکاء کو ان کی سلائیڈز دکھائیں۔ گڈاپ کے علاقے میں موجود یہ آثارمختلف جانداروں اور سمبلز کو ظاہر کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ذوالفقار نے ان پر مزید تحقیق اور حفاظت پر زور دیا۔ تاہم کانفرنس کے تیسرے روز ایک اہم سیشن میں گل حسن کلمتی نے شرکا کو بتایا کہ گڈاپ میں اب ہزاروں ایکڑ پر ایک بہت بڑا تعمیراتی منصوبہ شروع کیا جارہا ہے۔ اس ہاؤسنگ اسکیم سے نہ صرف ان آثار کے مٹنے کے خدشہ ہے بلکہ نقوش و نگار والی سینکڑوں سال پرانی قبروں اور پانی کے صاف نالوں کی تباہی کا بھی خطرہ ہے جس کے ذریعے آج گڈاپ کے کسان کھیتی باڑی کررہے ہیں۔
دہلی یونیورسٹی سے وابستہ ایک نوجوان طالبعلم، وکلپ کمار نے ممبئی کے بلوچوں کی پاکستانی بلوچ آبادی سے تعلقات اور روابط پر دلچسپ اظہارِ خیال کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ممبئی کے بلوچ پاکستانی بلوچوں سے شادی بیاہ بھی کرتے تھے اور دونوں طرف سے راجپوتانہ اور مکران کے راستے بلوچ آیا اور جایا کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی ایک زمانے میں افریقی سیاہ فام غلاموں کی تجارت کا مرکز بھی رہا تھا۔
ڈاکٹر جی آر ملاح نے کراچی میں انگریزوں کے خلاف پہلی مزاحمت کا ذکر کرتے ہوئے ایک گمنام حریت پسند چاکر نوتک کا ذکر کیا جس نے انگریزوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا اور اسی کے بدلے اسے ڈالمیا کے علاقے میں پھانسی دیدی گئی۔
جدید کراچی کی تعمیر میں شریک تین اہم شخصیات کا ذکر کرتے ہوئے خادم حسین سومرو نے بتایا کہ جی ایم سید، جمشید مہتا اور ہری چند راج بھروانی جدید کراچی کے معمار ہیں۔ بھروانی 1920 کے عشرے میں کے ایم سی کے سربراہ تھے اور انہوں نے کراچی کی بہتری کے لیے بہت کام کیا اور یہاں سے فوج نکالنے کے لیے حکومت پر زور دیا۔ اسی طرح کراچی کی تعمیر و ترقی کے لیے جمشید مہتا کے کام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری جانب جی ایم سید نے اپنی سیکولر سوچ سے لوگوں کو شعور اور آگہی دی۔
کراچی کے مختلف کلچراور آبادیوں پر ایک دلچسپ سیشن کے شروع میں جرمن پروفیسر، ہورگن وسیم نے کراچی میں شیدی برادری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں رنگ اور چہرے کے نقوش کی بنا پر حقارت اور امتیاز کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کو حبشی اور دیگر القاب سے نوازا جاتا ہے۔ وسیم نے شیدی برادری پر مزید تحقیق پر زور دیا۔
حبیب یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر حسن علی خان نے لیاری میں رفاعیہ طریقت کے سلسلے کا تعارف پیش کیا اور ان کے بزرگ زین العابدین کا شجرہ پیر عبدالقادر جیلانی سے جا ملتا ہے۔ اس سلسلے کی چھوٹی مجالس روزانہ اور بڑی مجلس ہر ماہ ہوتی ہے۔ اس میں بکری قربان کرکے اس کی کھال سے دف بنائی جاتی ہے۔ انہوں نے ایک ویڈیو میں دکھایا کہ آسمانی آفات کو اتارنے کے لیے یہ افراد اپنی خانقاہ میں آگ جلاتے ہیں اور اس میں ایک موٹی زنجیر ڈال کر اسے دہکایا جاتا ہے۔ پھر اس زنجیر کو نکال کر اس پر سے تیل گزارا جاتا ہے اور اس تیل کو مختلف جسمانی اور روحانی امراض میں استعمال کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ریاض شیخ نے کراچی میں علمی اور ادبی سرگرمیوں میں چائے اورکافی ہاؤسز کے کردار پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ پرانے شہر میں کیفے جارج، کیفے فریڈرک اور زیلن جیسی ریسٹورینٹس میں شہر کے ادیب، شاعر اور دانشور شریک ہوا کرتے تھے۔
پہلے دن کے آخری سیشن کی صدارت انیس ہارون نے کی اور کراچی کی سیاسی اور سماجی تاریخ میں خواتین کے کردار پر بحث کی گئی۔ اس موقع پر کراچی کی بعض ایسی گمنام خواتین کا تعارف پیش کیا گیا جنہوں نے شہر کی سماجی، سیاسی اور علمی اہمیت میں اپنا نمایاں کردار ادا کیا تھا۔
دوسرا روز
کانفرنس کے دوسرے دن شہر کے سیاسی، سماجی اور سوک مسائل پر زیادہ زور رہا۔ سب سے پہلے یونیورسٹی آف ٹیکساس میں مڈل ایسٹرن اور ایشین اسٹڈیز کے سربراہ کامران اسدر نے اپنا کلیدی مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے محمد خالد اختر کی مشہور تصنیف ’چاکیواڑہ میں وصال‘ کا حوالہ پیش کیا اور بتایا کہ مصنف نے کس طرح سے اس ناول میں قدیم کراچی میں زبانوں اور تہذیبوں کا تعارف پیش کیا ہے۔ انہوں نے شہر میں رحمدلی، بھائی چارے اور برداشت کی ضرورت پر زور دیا۔
منصور رضا نے کراچی میں ٹرانسپورٹ کے بارے میں دلچسپ معلومات اور ان کی بہتری کی تجاویز پیش کیں۔ انہوں نے کہا کہ سرکار عوام کی بنیادی ٹرانسپورٹ کی فراہمی میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شہر کی 56 فیصد آبادی سائٹ ایریا، لانڈھی اور کورنگی انڈسٹریل ایریاز میں روزگار کے لیے جاتی ہیں اور وہاں ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر ہونا چاہیے۔
کراچی کی 60 فیصد آبادی پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتی ہے اور ان میں 60 فیصد تعداد طلبہ و طالبات کی ہوتی ہے۔ شہر میں سواریوں کا سب سے زیادہ حصہ موٹر سائیکلوں کا ہے جو پورے ٹرانسپورٹ کا 51 فیصد حصہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جو لوگ روزگار کے لیے دور دراز علاقوں سے روزانہ بسوں میں آتے جاتے ہیں ان کے اوسطاً 624 گھنٹے سالانہ ضائع ہوجاتے ہیں۔ منصور رضا نے کہا کہ پورے کراچی میں قریباً دس ہزار کلومیٹر طویل سڑکیں ہیں۔
نعمان احمد نے اپنی پریزینٹیشن میں کراچی کے اہم مسئلے کا ذکر کیا جو اراضی کے متعلق ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شہر میں ایک درجن سے زائد ادارے زمینوں کی خرید و فروخت اور الاٹمنٹ کرتے ہیں اور زمینوں کی الاٹمنٹ اورفروخت کے بہت سے متنازع قوانین ہیں جنہیں ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ سال 2002 میں شہر میں زمینیں الاٹ کرنے کا ایک شفاف قانون متعارف کرایا گیا تھا لیکن سال 2006 میں اسے منسوخ کردیا گیا اور اس طرح زمینوں کی درست طریقے سے الاٹمنٹ نہیں ہورہی۔
انہوں نے شہر کے جنوبی حصوں میں زمین حاصل کرنے کے لیے مینگرووز کی بے دریغ کٹائی پر تشویش کا اظہار کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے کراچی کے ماسٹر پلان پر عمل درآمد کی تجویز بھی پیش کی۔
کراچی کے حوالے سے کام کرنے والے ایک اہم صحافی اور مصنف، گل حسن کلمتی نے اوجھا سینی ٹوریم پر اپنا مقالہ پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ مہاراج دیپ چند اوجھا انسٹیٹیوٹ بننے سے قبل یہاں کے ٹی بی کے مریضوں کو دھرم پورہ اور پونا جانا پڑتا تھا جو ظاہر ہے ہر ایک کے بس میں نہ تھا۔ اس کے لیے ان کے بھائی مہاراج سخرام داس اوجھا نے بہت کوشش کی اور اپنے بھائی کے نام پر ٹی بی کا ہسپتال اور انسٹیٹیوٹ قائم کیا۔
گل حسن کلمتی نے بتایا کہ شہر کے قدیم محسنوں کے نا صرف کاموں کو ختم کیا جارہا ہے بلکہ ان کے ناموں کو بھی مٹایا جارہا ہے۔
تیسرا روز
کانفرنس کے تیسرے روز مختلف طالبعلموں کی جانب سے بنائی جانے والی ڈاکیومینٹریز کی نمائش کی گئی جن میں سے اکثر کا موضوع کراچی ہی تھا۔
اس کانفرنس میں جہاں کراچی پر تحقیق کرنے والے بہت سے ماہرین کو بلایا گیا وہیں کراچی پر مسلسل کام کرنے والے بعض بہت معتبر صحافیوں اور ماہرین کی کمی شدت سے محسوس ہوئی۔
ان میں سے ایک نام عثمان دموہی کا ہے جنہوں نے ’کراچی تاریخ کے آئینے میں‘ نامی اہم تحقیقی تصنیف مرتب کی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ چند ماہ قبل ان کی اسی کتاب کی تقریبِ رونمائی آرٹس کونسل میں ہوئی تھی۔ دوسرا نام جناب اجمل کمال کا ہے جن کی کتاب ’کراچی کی کہانی‘ بہت مقبول ہے۔ اسی طرح کراچی پر اہم تاریخی، سیاسی اور سماجی مضامین لکھنے والے اختر بلوچ کی ہے جنہیں کانفرنس میں نظر انداز کردیا گیا۔ چوتھا نام جناب گل حسن کلمتی کا ہے جنہیں صرف اسی وقت بلایا گیا جب ایک مہمان کم پڑگیا تھا اور انہوں نے ’کراچی سندھ کی ماروی‘ نامی مشہور کتاب لکھی ہے۔ اسی طرح غفور کھتری کی کمی بھی محسوس کی گئی جنہوں نے ’کراچی کی کہانی، تاریخ کی زبانی‘ کے نام سے ایک اہم کتاب تحریر کی ہے۔
اگر نظرانداز کر دیے گئے ان لکھاریوں کو بھی مدعو کیا جاتا، تو یقیناً اس کانفرنس میں کئی دیگر اہم پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی جاسکتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود دوسری سالانہ کراچی کانفرنس یقیناً ایک اچھی کاوش ہے پر اس میں مزید عوامی دلچسپی اور ان کی شرکت کی ضرورت ہے۔ کئی مختلف ادوار دیکھنے والے اس شہر کے تاریخی و ثقافتی ورثے کو بچانا ضروری ہے، جبکہ اس شہر کے مسائل کو بھی حل کیا جانا چاہیے تاکہ یہاں کے رہنے والے لوگ اس شہر کو ناپسند کرنے کے بجائے اس کو پسند کریں اور یہاں سے اپنے تعلق پر فخر کریں۔