نقطہ نظر

جناب اردگان ہم ماؤں کے ساتھ اور بھی بہت کچھ ہیں

اس بات میں کوئی شک نہیں مرد اور خواتین برابر نہیں، مگر فرق صلاحیتوں میں نہیں صرف جسمانی اعتبار سے ہے۔

اپنی ایک حالیہ تقریر کے دوران طیب اردگان نے کہا ہے کہ خواتین اور مرد برابر نہیں ہیں، جبکہ یہ کہہ کر ترکی کے سیکولر عوام کے جذبات کو مزید غصہ دلایا کہ خواتین کو ماں کے فرائض پورا کرنے کے لیے چھوڑ دیا جانا چاہیے اور ان کی "نازک فطرت" کے پیش نظر انہیں بھاری مشینوں پر کام کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

اگرچہ بیشتر حقوق نسواں کے حامی (اور عموماً خواتین) ان کے اس جذبات سے عاری اور قدامت پسندانہ بیان پر مشتعل ہیں تاہم میں ان سے کسی حد تک اتفاق کرتی ہوں، کم از کم ان کے بیان سے جزوی طور پر تو متفق ہوں۔

میرا مطلب ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں مرد اور خواتین برابر نہیں، صلاحیت یا کیرئیر کی ترقی کے حوالے سے نہیں بلکہ جسمانی فرق کے اعتبار سے۔

مثال کے طور پر مرد بچوں کو جنم نہیں دے سکتے اور کوئی سائنسی پیشرفت اس حقیقت کو تبدیل کرنے کے قریب بھی نہیں پہنچ سکی ہے۔ ایک خاتون کا پورا جسم ہی اولاد کی تخلیق اور نگہداشت و تحفظ کے لیے بنا ہے۔ درحقیقت تمام خواتین کا تولیدی نظام اسی وقت تشکیل پاجاتا ہے جب وہ پیدا ہوتی ہیں اور یہی اس بات کا ایک ثبوت ہے۔


پڑھیے: حضرات! خواتین کی ترقی کے لیے کام کریں


اس کے علاوہ بھی دونوں جنسوں کے درمیان متعدد اختلافات موجود ہیں، کچھ بالکل واضح اور کچھ مبہم، جن کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں۔ جو چیز سوچنے کی ہے وہ یہ ہے کہ بھلے ہی ایک خاتون کا جسم بچوں کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہو مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی زندگی کا واحد مقصد بھی یہی ہو۔

ان خواتین کے بارے میں کیا خیال ہے جو حاملہ ہونے کے قابل نہیں ہوتیں؟ کیا جناب اردگان نے کبھی اس افسوسناک حقیقت کے بارے میں سوچا ہے؟ سائنسی طور پر ایک خاتون کا کردار ہوسکتا ہے کہ بچوں کو جنم دینا ہو مگر حقیقت میں خواتین معاشرے کو اس سے بھی زیادہ دے سکتی ہیں اور ان کی زندگیوں میں اس سے بھی زیادہ اہم چیزیں ہوسکتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ میں صنفی مساوات اور حقوق نسواں کی پرزور حامی ہوں۔ اس وقت میں لندن کی ایک معروف لاء فرم میں کام کررہی ہوں، جہاں 64 مرد اور 36 خواتین پارٹنر ہیں، اور ان خواتین پارٹنرز میں سے آدھی سے بھی کم مائیں بنی ہیں۔ ایک خاتون وکیل کو اپنے کریئر کو مضبوط بنانے کے لیے زیادہ دیر تک کام کرنا ہوتا ہے تاہم پھر بھی اکثر ان کے مرد ساتھیوں کے مقابلے میں انہیں نظرانداز کردیا جاتا ہے، اور اسی وجہ سے وہ شادی اور بچوں کے لیے فرم چھوڑنے کا فیصلہ کرلیتی ہیں۔

اسی طرح جو خواتین وکلاء شادی نہ کرنے یا ماں نہ بننے کا فیصلہ کرتی ہیں، انہیں اپنے مرد باسز کو اس بات پر قائل کرنے میں کافی جدوجہد کرنا پڑتی ہے کہ وہ بھی اپنے مرد ساتھیوں کے برابر کام کرسکتی ہیں۔ جمہوری اور "آزاد" ملک ہونے کے باوجود برطانیہ میں صنفی امتیاز کوئی ماضی کا قصہ نہیں۔ یہاں بیشتر پیشوں میں خواتین کو بمشکل ہی اپنے مرد ساتھیوں کے برابر تنخواہ دی جاتی ہے اور انہیں مردوں کے مقابلے میں کریئر میں زیادہ مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

تو یہ نکتہ ثابت کرتا ہے کہ تمام تر قوانین، آزادی کی تحریکوں اور حقوق نسواں سے قطع نظر، جب تک اردگان جیسے مردوں کے اندر موجود مخصوص خیالات کو ختم نہیں کیا جاتا اس وقت تک خواتین مردوں کی اسی تنگ نظری کا شکار ہوتی رہیں گی۔

پاکستان میں خواتین کے پروفیشنل کریئرز اپنانے کے حوالے سےبہت زیادہ حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، اور عام طور پر ان کی ان شعبوں میں کام کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، جو ان کی صنف کے عمومی کردار سے ملتے جلتے ہیں، یعنی ٹیچنگ اور نرسنگ۔

اکثر اوقات جب خواتین شادی کی عمر کو پہنچ جاتی ہیں، اس کے بعد وہ اپنا پیشہ چھوڑ کر برسوں پرانے معمول یعنی گھر کے کام کاج اور ماﺅں کے فرائض ادا کرنے لگتی ہیں۔ اگر وہ اپنا ک آگے بڑھانے کی خواہش کا اظہار کریں تو انہیں سائیڈلائن کردیا جاتا ہے، یا سب سے پہلے شوہر اور پھر سسرالی رشتے داروں کی جانب سے ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔


مزید پڑھیے: پاکستانی خواتین کی موجودہ نسل تبدیلی لائے گی


اکثر اوقات انہیں یہ مقبول جملہ سننا پڑتا ہے کہ "ہمارے گھر کی عورتیں کام نہیں کرتیں"۔

میں ذاتی طور پر ایسی قابل ڈاکٹرز کو جانتی ہوں جو اپنی بلوغت کی زندگی کا آدھا حصہ اعلیٰ تعلیم پر لگانے کے بعد اپنا پیشہ چھوڑ کر پوری توجہ شادی اور گھریلو کاموں پر مرکوز کردیتی ہیں۔ اس سے ان کی تعلیم اور اس پر کی جانے والی تمام تر محنت کے مقصد کی شکست ہوجاتی ہے۔

تاہم وقت گزرنے کے ساتھ خیالات میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی ہے۔

اب ہمارے پاس لڑاکا طیاروں کی خواتین پائلٹس ہیں، خواتین بلند و بالا پہاڑ سر کررہی ہیں اور خواتین عالمی سطح پر آسکرز جیت رہی ہیں۔ ہمیں اس پر فخر ہونا چاہیے کہ ان خواتین نے تمام تر رکاوٹوں کو توڑ کر اس غلط تصور کو پاش پاش کیا ہے کہ ہمارا کردار صرف ماں کی ذمہ داریاں نبھانے تک محدود ہے۔

مجھے غلط نہ سمجھیں۔ میں خود ایک ماں ہوں اور اس حقیقت کو تسلیم، سراہتی اور اس کے ہر پہلو سے محبت کرتی ہوں، مگر میں اس کردار تک محدود ہوکر نہیں رہ گئی۔ میں نے اسے اپنی شخصیت کی واحد شناخت کے طور پر قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔

ہمیں اس حقیقت سے منہ نہیں موڑنا چاہیے کہ پاکستان میں خواتین تعلیم کے لگ بھگ ہر شعبے میں مردوں سے آگے نکل رہی ہیں۔ ہمارا معاشرہ زبردست فرق پیدا کرسکتا ہے اگر ہم خود کو طیب اردگان جیسی منفی ذہنیت سے نکالنے میں کامیاب ہوجائیں تو، ورنہ ہم آگے بڑھنے کے بجائے مزید پیچھے چلے جائیں گے۔

انگلش میں پڑھیں

فائزہ اقبال

فائزہ اقبال کنگز کالج لندن سے ایل ایل بی گریجویٹ ہیں جبکہ انہوں نے ناٹنگھم یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ حاصل کررکھا ہے۔

کراچی کی ایک لا فرم میں کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد اب وہ لندن کی ایک کارپوریٹ فرم کے لیے کام کررہی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔