شمالی وزیرستان کا میدانِ جنگ
کبھی دہشتگردی کے مرکز کی حیثیت سے مشہور میران شاہ اب ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوکر رہ گیا ہے۔ پچھلے کئی سالوں میں یہاں ہوٹلوں کی لمبی قطاریں قائم ہوئی تھیں، جہاں غیرملکی جنگجو آرام کرتے تھے۔ اب آرام کرنے کی یہ جگہیں مسلسل فضائی حملوں اور بمباری کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہیں۔
ملبے کے اس ڈھیر کے بیچ میں ایک مسجد بھی موجود ہے، جو عبادت گاہ کے علاوہ اور بھی کاموں کے لیے استعمال ہوا کرتی تھی۔ تہہ خانے میں خفیہ کمرے اس علاقے سے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے مختلف دہشتگرد گروہوں کے لیے جوائنٹ ہیڈکوارٹرز کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ اب بھلے ہی یہ قصبہ اور قریبی دیہات مکمل طور پر فوج کے کنٹرول میں ہیں، لیکن پھر بھی جنگجوؤں کے چھوٹے جتھے پاس کی پہاڑیوں میں موجود ہیں۔
غیر ملکی جنگجوؤں کے ایک اور گڑھ میر علی میں بھی منظر اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ کئی مہینوں سے جاری خوفناک لڑائی نے قصبے کو مکمل طور پر برباد کردیا ہے۔ جن دکانوں سے جنگجوؤں کو آئی ای ڈیز اور خودکش جیکٹیں فراہم کی جاتی تھیں، اب وہ باقی نہیں رہی ہیں، لیکن قصبے میں اب بھی بارودی سرنگیں موجود ہیں۔ ہیلی کاپٹر سے دیکھنے پر پورا علاقہ پہاڑیوں پر پوزیشنیں سنبھالے کچھ فوجیوں کے علاوہ انسانی زندگی کے آثار سے خالی نظر آتا ہے۔
پانچ مہینوں سے جاری آپریشن ضربِ عضب کے بعد اب شمالی وزیرستان ایسا دِکھتا ہے۔ سردیاں آپہنچی ہیں، لیکن لڑائی ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آتے۔ کچھ اونچی پہاڑیاں پہلے ہی برف کی چادر اوڑھ چکی ہیں۔ جنگجو بھی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹ کر اب محدود کارروائیوں کے ذریعے فوجیوں کو مصروف رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایئرفورس کے طیارے جنگجوؤں کے مشتبہ ٹھکانوں پر مسلسل بمباری کرتے رہتے ہیں۔
جس دن ہم شمالی وزیرستان پہنچے، اسی دن ایک جواں سال میجر اور چار دیگر سپاہی دتہ خیل میں ایک سرچ آپریشن کے دوران جاں بحق ہوگئے تھے۔ فوج کو اب حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ایک طویل عرصے تک جس کا خیال رکھا گیا، وہی کمانڈر اب سب سے خطرناک دشمن ثابت ہوا ہے۔
آپریشن کے آغاز سے ایک ماہ قبل گل بہادر نے آٹھ سالہ طویل امن معاہدہ توڑ کر ریاست کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا تھا۔ اس نے اس جنگ بندی کا استعمال اپنے نیٹ ورک کو مضبوط بنانے اور دیگر جنگجو گروپوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کے لیے استعمال کیا۔ مانا جاتا ہے کہ وہ افغانستان جاچکا ہے، لیکن اس کے جنگجو اب بھی دتہ خیل کے علاقے میں لڑنے میں مصروف ہیں۔
شمالی وزیرستان کو عالمی عسکریت پسندی کے گڑھ میں تبدیل کرنے میں حقانی نیٹ ورک کا کردار بھی کم نہیں رہا ہے۔ ایک طویل عرصے تک سیکیورٹی اداروں نے اس گروپ کو تحفظ فراہم کیا، جو کہ اس علاقے سے سرگرم تمام جنگجو گروپوں، بشمول تحریکِ طالبان پاکستان کا سربراہ گروپ ہے۔ حقانی نیٹ ورک کے نشانات اور آثار پورے میران شاہ اور ڈانڈا درپہ خیل میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
یہ میران شاہ بازار کی مسجد کا تہہ خانہ ہی تھا، جہاں اس گروپ نے افغانستان سے اغوا کیے گئے امریکی فوجیوں کو یرغمال بنا کر رکھا تھا۔ آپریشن کے دوران فوجیوں نے یہاں سے افغان پولیس کے زیرِ استعمال ایک امریکی بکتربند گاڑی اور ایک پِک اپ ٹرک بھی برآمد کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ تمام جنگجو اب اس علاقے سے جاچکے ہیں، لیکن فوجیوں کو واضح احکامات ہیں کہ راستے میں آنے والی کسی مزاحمت کو نہ بخشا جائے۔
شمالی وزیرستان مقامی اور غیرملکی، تمام طرح کے جنگجوؤں کے لیے ٹریننگ گراؤنڈ رہا ہے۔ اس ایجنسی سے کارروائیاں کرنے والے گروپوں میں سب سے بڑا گروپ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے جنگجوؤں پر مشتمل تھا، جس پر چین کے سنکیانگ صوبے میں دہشتگرد حملے کرنے کا الزام ہے۔
ایک انٹیلیجنس افسر کے مطابق آپریشن سے پہلے اس گروپ کے کم از کم 200 ممبران اس علاقے میں مقیم تھے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ گروپ ٹی ٹی پی اور دیگر بین الاقوامی جہادی گروپوں کی جانب سے مضبوط سپورٹ کے بغیر کارروائیاں نہیں کرسکتا تھا۔ آپریشن سے ایک ماہ قبل ہی 15 سے 20 چینی لڑکیاں اپنے ہموطنوں سے شادی کرنے کے لیے یہاں آئیں تھیں، اور یقینی طور پر انہیں اس جہادی ماحول میں گھر جیسا ماحول محسوس ہوا ہوگا۔
پھر ان ہزاروں مقامی اور غیر ملکی جہادیوں کے ساتھ کیا ہوا؟ کئی مارے گئے ہیں جبکہ کئی اب بھی پہاڑوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ کچھ کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ وادی شوال جا چکے ہیں جو کہ انتہائی دشوار گزار علاقہ ہے۔ گھنے جنگلات اور غاروں کی صورت میں چھپنے کی قدرتی جگہیں دہشتگردوں کا پتہ لگانا تقریباً ناممکن بنا دیتی ہیں۔
میں اس وادی کے گھنے جنگل والے دور دراز کونے تک 2007 کے فروری میں گیا تھا۔ 300 میٹر آگے برف سے ڈھکی ہوئی پہاڑی پر ڈیورنڈ لائن پر پاکستان کی آخری بارڈر پوسٹ تھی۔ حدِ نگاہ صرف کچھ میٹر جبکہ میلوں تک کوئی آبادی نہیں تھی، جس کی وجہ سے یہ علاقہ دہشتگردوں کے لیے محفوظ جنت کی حیثیت رکھتا ہے۔
سردی کی آمد آپریشن دھیما کرسکتی ہے، لیکن سخت موسم دہشتگردوں کے لیے بھی مشکلات کھڑی کرسکتا ہے۔ ان کے پاس میدانوں میں آنے، یا دیگر علاقوں کی طرف چلے جانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ شوال میں پچھلے کچھ مہینوں سے بڑھ جانے والے امریکی ڈرون حملوں نے بھی عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کو محدود کردیا ہے۔
شمالی وزیرستان آپریشن کئی حوالوں سے منفرد ہے۔ انٹیلیجنس نے جنگجوؤں کی پناہ گاہوں کو درست ٹارگٹ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ فوجی آپریشن کے آغاز سے پہلے انٹیلیجنس کی بنیاد پر ملک بھر میں دہشتگرد نیٹ ورکس کے خلاف کیے جانے والے کریک ڈاؤن نے بھی ردِعمل روکنے میں مدد دی ہے۔
واقعاً ایک دشوار علاقے میں پاک فوج کی جانب سے لڑی جانے والی یہ مشکل ترین جنگ ہے۔ سپاہیوں کا جذبہ اس جنگ کو جیتنے میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ اس آپریشن میں افسران کی بڑی تعداد کے جاں بحق ہونے سے یہ بات واضح ہے کہ یہ جنگ کس طرح لڑی جارہی ہے؛ آگے موجود افسران نے ایک نیا معیار قائم کردیا ہے۔
لیکن بدقسمتی سے ہمارے سیاسی قائدین کے لیے یہ ایک بےمعنی جنگ ہے۔ جیسا کہ ایک افسر نے شکوہ کیا تھا کہ 'اپنے ساتھی سپاہیوں اور جوان افسروں کی لاشیں اٹھانا بہت مشکل ہے، جن میں سے کئی آئی ای ڈیز کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے ہوچکے ہوتے ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ سیاستدانوں کے قاتلوں سے ہمدردی پر مبنی بیانات سننا ہوتا ہے'۔
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر hidhussain@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
zhussain100@yahoo.com
یہ مضمون ڈان اخبار میں 19 نومبر 2014 کو شائع ہوا۔
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔