ڈرامہ ریویو 'صدقے تمہارے': سادہ رومانس کی کہانی
اب تک 'صدقے تمہارے' ماضی کی گلیوں میں ایک سہانی چہل قدمی کی طرح ثابت ہورہا ہے۔ اگر کسی کو ماضی قریب کا وہ وقت پسند ہے جب موبائل فون اور کمپیوٹر نہیں ہوا کرتے تھے، اور جب ہاتھ سے لکھے گئے خطوط خزانے کی مانند، اور ڈزائنر کپڑوں کا مطلب محلے کے درزی کے سیئے گئے کپڑے ہوتے تھے، تو ان کے لیے 'صدقے تمہارے' واقعے دیکھنے جیسا سیریل ہے۔
سادگی پر مبنی ڈراموں کے بعد ہم ٹی وی اب دلی اور سادہ رومانس کے ہمیشہ آزمائے گئے فارمولے کے ساتھ واپس آیا ہے۔
مومنہ درید، ہمایوں سعید، اور طارق شاہ کی پراڈکشن 'صدقے تمہارے' میں وہ سب کچھ ہے، جو کہ ایک بڑے بجٹ کے سیریل میں ہونا چاہیے، یعنی لوکیشن پر شوٹنگز، جینئن اور رنگ برنگے وارڈروب، بہتر لائٹنگ، اور ناظرین کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے خوبصورت لوگ۔
|
اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈرامہ مشہور لکھاری خلیل الرحمان قمر کی اپنی زندگی کی کہانی ہے، اور حال ہی میں ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ 'ایک سین ایسا نہیں ہے جو ڈرامے کی خاطر ڈالا گیا ہو'۔
پلاٹ
لاہور اور دیہی پنجاب میں سیٹ کیے گئے اس ڈرامے میں سب سے مضبوط عنصر روایتی خاندانی زندگی کی منظرکشی ہے۔
شادیاں، اناؤں کا ٹکراؤ، الجھے ہوئے رشتے کسی بھی دیکھنے والے کے لیے اجنبی نہیں ہوں گے۔ کسی بھی دوسرے خاندان کی طرح 'صدقے تمہارے' میں دکھائے گئے خاندان کے بھی اپنے گڑے مردے ہیں، جو شنو (ماہرہ خان) اور خلیل (عدنان ملک) اکھاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
شنو ایک سادہ سی لڑکی ہے جو ایک چھوٹے گاؤں میں رہتی ہے، اور اس نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، وہ اس بات کو جانتی ہے کہ اس کی منگنی لاہور میں رہنے والے اس کے کزن خلیل سے ہوچکی ہے۔ وہ بمشکل ہی اسے جانتی ہے، لیکن اس کے دل پر اس کی تصویر موجود ہے، اور اس کا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ شاید خلیل اس سے محبت نہ کرے۔
زیادہ تر دوسرے نوجوان لڑکوں کی طرح خلیل بھی شادی سے زیادہ کرکٹ میں دلچسپی رکھتا ہے، لیکن جب وہ خاندان کی ایک شادی میں خوبصورت شنو سے ملتا ہے، تو وہ بھی اس کے سحر میں گرفتار ہوجاتا ہے۔
'ایسا پیار ہوا ہے، کہ لگتا ہے اگر وہ نہ ملی تو دنیا کو جلا کر راکھ کر دوں گا'۔
|
زیادہ تر پریم کہانیوں کی طرح اس کہانی میں بھی ایک ظالم سماج موجود ہے: شنو کے والدین رشیدہ (سمیعہ ممتاز) اور امین خالو (ریحان شیخ) جنہوں نے خلیل کے خلاف فیصلہ کرلیا ہے، اب کسی بہتر آپشن کی تلاش میں ہیں، جو شنو کا ایک اور کزن فیاض (مکرم کلیم) کرسکتا ہے۔
لیکن کہانی اس وقت پیچیدہ ہوجاتی ہے جب شنو اپنی والدہ کا افسردہ اور ناپسندیدہ ماضی ظاہر کرتی ہے۔ رشیدہ کی منگنی ایک وقت میں اپنے دیور محمد صدق کے بھانجے عبدالرحمان سے تھی۔ محمد صدق رشیدہ کی بڑی بہن عنایت کا شوہر تھا اور ان کے چار بچے تھے۔
جب عنایت اپنے پانچویں بچے (خلیل) کی امید سے تھی، تو اس نے رشیدہ کی مدد طلب کی۔ رشیدہ اور محمد صدق کا افیئر شروع ہوگیا، جو بہت جلد ہی ظاہر بھی ہوگیا۔ اس کی وجہ سے عنایت کی طلاق ہوگئی، اور اس کی اگلی شادی عبدالرحمان سے ہوگئی، جو تب تک رشیدہ سے اپنی منگنی توڑ چکا تھا۔
چھ قسطوں کے بعد کہانی اب ایک سنجیدہ موڑ لے رہی ہے، جب رشیدہ اور امین خلیل کے والدین کو گھر بلا کر باقاعدہ طور پر رشتے سے انکار کردیتے ہیں۔
جھلکیاں
بھلے ہی خلیل الرحمان قمر کی لکھی ہوئی اسکرپٹ کسی بھی ڈرامے میں کلیدی اہمیت رکھتی ہے، لیکن اس دفعہ کہانی ماہرہ خان کے گرد گھومتی ہے۔ شنو اس ڈرامے کا دل اور جان ہے، معصوم اور خوبصورت، تیز لیکن خیال رکھنے والی، کوئی بھی اس سے محبت کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ماہرہ کی اداکاری اس کردار کو گہرائی فراہم کرتی ہے، جسے خلیل الرحمان صاحب نے واضح طور پر بہت تفصیل اور محبت سے لکھا ہے۔
یہ اداکاری میں عدنان ملک کا پہلا کردار ہے، اور وہ اسکرین پر ماہرہ کا اچھا جوڑ ثابت ہوئے ہیں۔ وہ دونوں بہترین کیمسٹری رکھتے ہیں، اور زیادہ تر حصے میں عدنان خلیل کے کردار میں پوری طرح سمائے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ڈائریکٹر احتشام الدین اس ڈرامے میں یادوں اور رشتوں کی ایک خوبصورت فضا قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ تمام مناظر رنگین اور شوخ ہیں، جبکہ کردار اپنی جانب توجہ بنائے رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ سائیڈ کردار جیسے کہ فیاض (مکرم کلیم) اور ڈاکٹر مقصود (شامل خان) جنہوں نے خلیل کے دور کے کزن اور دوست کا کردار ادا کیا ہے، نے اچھے مکالمے ادا کیے ہیں، اور دیکھنے والوں کی توجہ حاصل کی ہے۔ خاص طور پر ڈاکٹر مقصود کے کردار میں کچھ بہترین ڈائلاگ موجود ہیں، جنہیں اسکرین پر دیکھنا بہت لبھانے والا ہے۔
مقصود خلیل کو مشورہ دیتا ہے۔
'محبت سے عاجزی سیکھ، غرور نہ سیکھ۔ خدا کی طرف دیکھ، خالہ کی طرف نہ دیکھ۔ جسے محبت ہوجاتی ہے نہ بیٹا، وہ اس طرح نہیں ملتے جیسے تجھے صبح کا ناشتہ مل جاتا ہے۔ دعاؤں سے ملتی ہے'۔
خرابیاں
سحر طاری کردینے والا یہ ڈرامہ اسی ہلچل اور پذیرائی کا مستحق ہے جو اسے مل رہی ہے، لیکن اب تک اس میں خلیل صاحب کے گذشتہ ڈراموں کی گہرائی موجود نہیں ہے۔
زیادہ تر حصے میں ڈائریکٹر ایک بہت ہی نفیس پراڈکٹ بنانے میں کامیاب رہے ہیں، لیکن کم از کم چھٹی قسط میں یہ نفاست کافی کم رہی ہے، جب رشیدہ کی دشمنی کا طویل پسمنظر افشا کیا جاتا ہے۔ ماہرہ کی خودکلامی جیسی گفتگو بھلے ہی مناسب رفتار میں ہے، لیکن اس کے باوجود ایک عام دیکھنے والے کا سر چکرا سکتا ہے۔
ایک ایسے ماحول میں جب ٹی وی چینل لمبے سیریلز کا تقاضہ کر رہے ہیں، ڈائریکٹر یا پروڈیوسر کے لیے یہ بہتر ہوتا کہ وہ تفصیلات کو یادوں کی جھلکیوں کی طرح دکھاتے، یا پوری قسط کو ہی ماضی کی پیچیدہ کہانی بتانے کے لیے وقف کردیتے، بجائے اسکے کہ مرکزی کردار اپنے پچھلے سین کی باتیں دہراتے۔
زیادہ تر کردار قابلِ یقین ہیں، لیکن رشیدہ اور امین تقریباً مضحکہ خیز ولنز کی طرح معلوم ہوتے ہیں۔ اس سیریل کی پرکشش چیزوں میں سمیعہ ممتاز بھی شامل ہیں، لیکن اب تک ان کے کردار میں زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ امید ہے کہ کہانی آگے بڑھنے کے ساتھ ہم کچھ اور گہرائی دیکھیں گے۔
کچھ چھوٹی خامیوں کے علاوہ یہ ڈرامہ ایسا ہے، جو بہترین انٹرٹینمنٹ فراہم کرتا ہے اور سب ہی کو دیکھنا چاہیے۔
صدف حیدر فری لانس لکھاری ہیں، اور ڈراموں اور فلموں کی شوقین ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس sadafsays@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔