نقطہ نظر

سی ایس ایس کا فرسودہ امتحانی نظام

سی ایس ایس امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے قسمت اور قرآنی سورتیں یاد کرنے کے بعد سب سے بہترین نسخہ رٹا ہے۔

پاکستان میں موجود تمام امتحانی اداروں میں سب سے 'معزز' ادارے فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے تقریباً تین ہفتے پہلے سی ایس ایس امتحانات کے نتائج کا اعلان کیا، جس کا سب کو بے صبری سے انتظار تھا۔

اور جیسے ہی نتائج کا اعلان ہوا، کامیاب ہونے والے سینکڑوں امیدواروں کے سر فخر سے بلند، جبکہ ناکام ہونے والے ہزاروں کے دل اور خواب چکنا چور ہوگئے۔ ان ہزاروں امیدواروں میں تعلیمی لحاظ سے ملک کے قابل ترین لڑکے لڑکیاں بھی شامل ہیں، جو نتائج کے اعلان کے بعد ملک اور اس کے تعلیمی نظام میں موجود خامیوں سے نالاں ہیں۔

سول سروس اپنا تعارف اس طرح کراتی ہے، کہ یہ وہ اہم پہیے ہیں جن پر ریاست کا پورا انجن منحصر ہے۔ اچھا، تو پھر منطق کا تقاضہ یہ ہے کہ ملک کو درپیش حالیہ شدید اور سخت سیاسی چیلنجز کی سڑک پر چلنے کے لیے سب سے قابل پہیے لائے جائیں۔ ٹھیک؟

لیکن منطق اور حقیقت پسندی تو شاید اس قوم کے فلسفیانہ حلقوں میں اب تک اپنی جگہ نہیں بنا پائی ہے۔

اس امتحان نے کئی دہائیوں سے زندگی کے تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات کو پریشان کر رکھا ہے۔

سال 2014 میں 13،170 امیدواروں نے تحریری امتحان دیا جس میں سے صرف 439 امیدوار ہی پاس ہوسکے۔ یہ نمبر بھلے ہی چھوٹا معلوم ہو، لیکن یہ گذشتہ سال کے نتیجے سے پھر بھی بہتر تھا جس میں 11،406 امیدواروں میں سے صرف 235 ہی پاس ہوسکے تھے۔

جو لوگ سی ایس ایس کے نظام سے ناواقف ہیں، ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ تحریری امتحان میں کامیاب ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ سب منتخب ہوگئے ہیں۔ بلکہ یہ وہ امیدوار ہیں جو تمام مضامین کے تحریری امتحانات میں پاسنگ نمبر لینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔


پڑھیے: کاپی پیسٹ کی روایت پہنچی سی ایس ایس کے امتحانی پرچے تک


ایک سی ایس پی افسر کے مطابق منتخب ہونے والے یہ لوگ ملک کی کریم کی بھی کریم ہیں۔ تو یہ کوئی غلط بات نہیں ہے نا؟

اخبارات اکثر روزانہ اس بات پر بڑے بڑے کالم اور مضامین چھاپتے ہیں، کہ کریم کا یہ پیالہ آخر ملک کو کہیں پہنچا کیوں نہیں رہا۔ ہماری بیوروکریسی کی تاریخ اس چیز کا ایک رخ ہے، جسے میں گولڈن ٹرائنگل کہوں گا۔

یہ ان چیزوں کا ٹرائنگل ہے، جسے عام طور پر وہ ادارے کہا جاتا ہے جو ملک کو اس کے آغاز سے اب تک آگے بڑھنے سے روکے ہوئے ہیں۔ منطقی طور پر ہمیں ان اداروں اور ان مراحل پر سوال ضرور اٹھانا چاہیے، جو طاقتور عہدوں کے لیے صرف مخصوص لوگوں کا ہی انتخاب کرتا ہے چاہے ملک کو کوئی بھٹو چلائے یا پھر شریف، یا پھر وردی میں ملبوس سخت اساتذہ۔

ہر سال امیدواروں کی جانب سے ڈھیروں شکایات داخل کرائی جاتی ہیں، جبکہ آپ کے پسندیدہ روزناموں کے صفحات پر لوگ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود عملی اقدامات اور حقیقی اصلاحات کے لیے کوئی آگاہی جنم نہیں لے پاتی۔

اخبارات کے کالموں میں اس معاملے پر جو کچھ بھی چھپتا ہے، وہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن بالکل اسی طرح نظرانداز کردیتا ہے، جس طرح ملک کے دیگر طاقتور ادارے کرتے ہیں۔

سسٹم کتنا خراب ہے؟

یہ ایک ایسا سسٹم ہے، جہاں ہارورڈ، کولمبیا، اور میلبرن یونیورسٹی کے گریجویٹ، اور انگریزی اخبارات کے کامیاب لکھاری بھی انگلش گرامر میں سال بہ سال فیل ہوجاتے ہیں، جبکہ a اور an میں بھی فرق نہ کرپانے والے باآسانی اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔ اور جو خوش قسمتی سے پاس ہو بھی جائیں، تو وہ اکثر اوقات انگلش مضمون کے امتحان میں فیل ہوجاتے ہیں۔

میں نے کئی انگریزی اخبارات کے صحافیوں سے جو انگلش میں ایک سے زیادہ بار فیل ہوئے، پوچھا ہے کہ آخر پاس ہونے کے لیے کیا چیز چاہیے؟

زیادہ تر دفعہ جواب ملتا ہے کہ کامیابی دعاؤں، قسمت، پیپر چیک کرنے والے ایگزامنر، اور اس دن اس کے موڈ پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر آپ سی ایس پی افسران سے مل چکے ہیں تو آپ کو ان میں کئی ایسے بھی ملیں گے جو بغیر گرامر کی غلطی کے صرف تین جملے بھی نہیں بنا سکتے۔

اگر کامیابی کا ایک آزمایا ہوا طریقہ ہے، تو وہ رٹا ہے۔ یہ ایسا طریقہ ہے جو سی ایس ایس امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے قسمت اور قرآنی سورتیں یاد کرنے کے بعد سب سے بہترین نسخہ ہے۔

تاریخیں، کہانیاں، اور اعداد و شمار وغیرہ جو کچھ دہائیوں بعد بیکار ہوجاتی ہیں، اور بھلا دی جاتی ہیں، وہ دلیل اور تجزیے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔


مزید پڑھیے: مِس امپورٹنٹ سوال بتا دیں!


اب جبکہ مغرب تخلیقی صلاحیتوں اور مسائل سلجھانے کی قابلیت پر زیادہ توجہ دیتا ہے، سی ایس ایس امتحان کو اس بات میں زیادہ دلچسپی ہوگی کہ علامہ اقبال نے گول میز کانفرنس میں کتنے ڈینش کریم بسکٹ کھائے تھے۔

کوئی ایگزامنر کو بھی چیک کرے

لیکن اس سب کے باوجود فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو اس بات کے لیے مکمل طور پر موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ 67 سال پہلے جو کالونیل نظام انگریز چھوڑ کر گئے تھے، وہ اب بھی ہمارے معاشرے میں رائج ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تعلیم اور منتخب کرنے کا سسٹم جو ہمارے آقا چھوڑ کر گئے ہیں، اب بھی درست ہے۔

مجھے معلوم ہے کہ میرے اس نکتے کے جواب میں کئی لوگ یہ کہیں گے کہ یہ مضمون پاکستان میں پیدا ہونے والے یا پاکستانی اسکولوں میں پڑھنے والوں کے بارے میں تعصب رکھتا ہے، لیکن میرا نکتہ میرٹ کے بارے میں ہے۔

میں ان ہزاروں پاکستانیوں میں سے صرف ایک ہوں، جو ایسے امتحانی نظام کے فوائد کے قائل نہیں، جس میں ایک پرچے کے اندر گرامر کی آٹھ سے دس غلطیاں ہوں۔ جب امتحانی پرچے میں خود ہی آٹھویں کلاس کے بچے جیسی گرامر لکھی ہو، تو چیکنگ کرنے والے کو کیا الزام دیا جائے؟

مثال کے طور پر سال 2009 میں جنرل نالج کے پیپر 3 سے دو سوالات کا جائزہ لیتے ہیں۔

"Which radio station existed at the time of Pakistan"

"Who drafted the Wardha scheme under the guidance of Ghandi"

آپ دنیا بھر میں کسی بھی لکھائی میں گاندھی کے نام کی یہ اسپیلنگ نہیں دیکھیں گے، اور جس شخص نے time of Pakistan لکھا ہے، اس کی قابلیت کے بارے میں کیا بات کی جائے؟

اگر ملک کی نوجوان نسل کو مایوس ہی کرنا ہے، اور خامیوں سے بھرپور نظام کی مدد سے قابل لڑکے لڑکیوں کو ملک سے باہر جانے پر مجبور ہی کرنا ہے، تو خوش رہیے، ہم یہ کام بہت اچھی طرح کر رہے ہیں۔

ہمیں خود سے یہ سوال پوچھنا ہوگا کہ آخر ہم تعلیم، سائنسی دلائل، ریسرچ، اور نئی کوششوں میں پیچھے کیوں ہیں؟

کیا ہمیں واقعی رٹا لگانے والے افسر چاہیئں، یا مسائل سمجھنے، سلجھانے، تجزیے کی قابلیت رکھنے والے، زبان خیالات اور بحث پر عبور رکھنے والے چاہیئں؟

سوچیئے۔

انگلش میں پڑھیں۔

علی عمیر چوہدری

لکھاری نان پرافٹ تنظیموں اور سرکاری اداروں کے لیے میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔