پی ٹی آئی بمقابلہ پی ایم ایل این: شکست کس کی؟
عام طور پر جب کوئی شخص کسی نوکری سے استعفیٰ دیتا ہے، تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ چھوڑ رہا ہے۔ عام طور پر اس کا باس استعفیٰ منظور کر کے اس شخص کی جگہ کسی اور کو بھرتی کرنے کے لیے موزوں امیدوار کی تلاش شروع کردیتا ہے۔
لیکن 'عام طور پر' ایک ایسا لفظ ہے، جو کہ پاکستان میں صحیح طرح سے سمجھا نہیں جاتا۔
استعفوں کے مذاق کو اب کئی ہفتے ہوچکے ہیں۔ پی ٹی آئی نے عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے قومی اسمبلی سے استعفے دینے کا اعلان کیا، جبکہ صوبائی اسمبلیوں میں موجود رہنے کا فیصلہ کیا۔ اور بھلے ہی انہیں صرف ایک اسمبلی سے استعفے دینے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لیکن پارٹی کا باہری خول بہت مضبوط ہے۔ نیازی صاحب سے ٹکرا کر تنقید وہیں کی وہیں رہ جاتی ہے۔
یہ بھی امید کی گئی تھی کہ پی ایم ایل این یہ استعفے بخوشی قبول کرا کر پی ٹی آئی کو اسمبلی سے باہر بھجوا دے گی، لیکن ایسا بھی نہیں ہوا۔
اس کے بجائے پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این نے خود کو ایک دوسرے قسم کے کھیل میں ملوث کرلیا۔
استعفوں کے معاملے پر دونوں فریقوں کی بیان بازی سن سن کر جب میں تھک چکا، تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس معاملے کو سمپل گیم تھیوری فریم ورک (Simple game theory framework) کے ذریعے دیکھا جائے؟
جو لوگ گیم تھیوری سے واقف نہیں ہیں، ان کے لیے بتاتا چلوں کہ یہ اسٹریٹیجک فیصلہ سازی کا مطالعہ ہے۔
پی ایم ایل این اور پی ٹی آئی کے کیس میں جس چیز نے گیم تھیوری کو شروع کیا، وہ پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ تھا۔
پی ایم ایل این کے پاس اس سے نمٹنے کے لیے دو آپشن ہیں۔ یا تو استعفوں کو منظور کر کے ضمنی انتخابات کا اعلان کر دے، یا پھر اس مرحلے کو طویل کر کے پی ٹی آئی کو تھکا دے۔
اور پی ایم ایل این نے فیصلہ کیا ہے کہ استعفے منظور کرنے کے بجائے محفوظ آپشن کے طور پر اس مرحلے کو طویل کردیا جائے۔ لیکن کیوں؟
پڑھیے: استعفوں کا کھیل
کیونکہ اگر ابھی کے ابھی ضمنی انتخابات کرائے گئے، تو اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں واپس آجائے گی۔ بھلے ہی پی ٹی آئی صرف وہی سیٹیں جیتے گی جو اس نے خود خالی کی تھیں، لیکن اس سے یہ تاثر ابھرے گا کہ حکومت کمزور ہوگئی ہے، اور صرف یہی وجہ ہے کہ حکومت استعفوں کا معاملہ اب تک لٹکائے ہوئے ہے۔
معاملہ اگر تعطل کا شکار رہے، تو پی ٹی آئی کو اس کا فائدہ پہنچے گا۔ عوام میں یہ تاثر جائے گا کہ پی ٹی آئی سسٹم سے باہر ہے، جبکہ اس کے ایم این اے کچھ کام کیے بغیر ہی تمام مراعات سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے۔
اس طرح یہ گیم ڈیڈلاک کا شکار ہے۔ یہ مشہور تصوراتی مسئلے prisoner's dilemma یا قیدی کی دوہری پریشانی جیسا ہی ہے، لیکن صرف ایک فرق ہے۔
اگر دونوں ہی گروپ غلطی کر جائیں، تو فائدہ زیادہ ہے، بہ نسبت تب جب وہ ایک دوسرے سے تعاون کریں۔
اس پورے مرحلے میں وہ گروپ جس کو سب سے کم فائدہ پہنچے گا، وہ عوام ہیں۔
خاص طور پر وہ لوگ جنہوں نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ووٹ دے کر پارلیمنٹ میں بھیجا، وہ اس ڈیڈلاک سے کوئی بھی فائدہ نہیں حاصل کرپائیں گے۔
پی ٹی آئی ممبران کے استعفے منظور نہ کر کے اور ضمنی انتخابات نہ کرا کر پی ایم ایل این ان تمام حلقوں کے رہنے والے لوگوں کو پارلیمنٹ میں نمائندگی سے محروم رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان کے 30 کے قریب حلقے ہیں جو کہ وفاقی حکومت میں نمائندگی سے محروم ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ کسی کو اس سے فرق نہیں پڑ رہا۔
یہ بات نوٹ کرنے کے لیے اہم ہے: اگرپاکستان اور پاکستانیوں کی توجہ سیاسی فائدے حاصل کرنے کے لیے اٹھائے گئے اس مسئلے پر ٹکی رہی، تو کئی سنجیدہ مسئلے ان اہم بحثوں اور توجہ سے محروم ہوجائیں گے، جس کے وہ مستحق ہیں۔
میرا اشارہ نئی توانائی پالیسی کے فائدہ مند ہونے یا نہ ہونے کے تجزیے، حکومت کی جانب سے بجلی پیدا کرنے والوں کو (9 روپے فی یونٹ تک) اونچے ریٹس کی پیشکش، اسٹیٹ بینک کی مدد سے کیے گئے نقصاندہ ٹیک اوور، بڑے شہروں میں قانون اور امن و امان کی صورتحال وغیرہ سے متعلق ہے۔
مزید پڑھیے: پی ٹی آئی کے مقاصد اور طریقے
کوئی بھی اس بات پر بحث نہیں کرنا چاہتا، کہ جن ریٹس پر نئے پاور پراجیکٹس کو گرین سگنل دیے جارہے ہیں، وہ صارفین کے لیے شدید پریشانی کا باعث بنیں گے، جنہیں بجلی کے لیے بے تحاشہ قیمت صرف اس لیے ادا کرنی پڑے گی، کیونکہ کسی کاروباری شخصیت نے پاور پلانٹ لگانے کا فیصلہ کیا، جس سے 1300 میگاواٹ بجلی حاصل کرنے کے لیے 7 ٹرینوں جتنا کوئلہ درکار تھا۔
کوئی بھی ان تجارتی ترجیحات پر بات نہیں کرنا چاہتا، جو کہ چینی مینوفیکچرنگ کمپنیز کو دی جارہی ہیں۔ چینی مینوفیکچرنگ کمپنیاں ایشیائی منڈیوں پر آہستہ آہستہ قبضے کی پوزیشن میں آچکی ہیں، کیونکہ ان کا مقابلہ بہت مشکل ہے۔
اس طرح کے کسی مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی کیونکہ ڈیڈلاک کا چکر زیادہ مزیدار اور تفریح طبع ہے۔
یہ سچ ہے۔ ٹی وی پر سیاستدانوں کے اس کھیل تماشے کو دیکھنا اور سمجھنا اتنا آسان اور پرلطف ہے، آپ کو صرف سائیڈ لینی ہوتی ہے۔ اس کے بعد پروفیشنل اسپورٹس کی طرح آپ اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھاتے رہیں، ان کے جیسے ہی کپڑے اور اشیا خریدنے پر پیسے ضائع کریں، اور جیتنے کی امید کریں تاکہ آپ اپنی ٹیم کی خوشی میں خوش ہوکر اپنی زندگی میں خوش رہیں۔
سادہ الفاظ میں کہا جائے، تو پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این کے درمیان اس پرزنرز ڈلیما میں عوام ہی قیدی ہے۔
عوام نے ان لیڈروں کو خدمت کرنے کے لیے منتخب کیا تھا، اس کے بجائے وہ اپنی جنگیں لڑنے میں مصروف ہیں، جبکہ عوام کو قید کاٹنی پڑ رہی ہے۔
لیکن، یہ صرف ایک گیم ہی تو ہے۔
لکھاری جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر adnanrasool@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔