نائنٹیز کا پاکستان - آخری حصہ
یہ اس بلاگ کا دسواں اور آخری حصہ ہے۔ پہلے، دوسرے، تیسرے، چوتھے، پانچویں، چھٹے، ساتویں، آٹھویں اور نویں حصے کے لیے کلک کریں۔
اگست 1998ء میں شریف حکومت نے پندرہویں آئینی ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں متعارف کروایا۔ اس بل کو شریعت بل بھی کہا گیا اور اس ترمیم کی بدولت نواز شریف نے قانونی طور پر خلیفہ بننے کی کوشش کی۔ اس بل کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیموں نے ملک بھر میں احتجاجی مہم چلائی۔ قانونی امور کے ماہرین کے مطابق اس بل کے ذریعے وفاق کو مزید اختیارات دینے اور صوبائی حکومتوں کو کمزور رکھنے کی سعی کی گئی۔ یہ بل قومی اسمبلی نے اکتوبر میں پاس کیا لیکن اسے سینیٹ میں پیش نہیں کیا گیا۔
سیاچن گلیشئر کو دنیا کا بلند ترین میدان جنگ کہا جاتا ہے۔ سیاچن اور سرینگر کو آپس میں ایک ہی سڑک ملاتی ہے، جس کے ذریعے بھارتی فوج کو اسلحہ اور روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء پہنچائی جاتی ہیں۔ پاکستانی فوج کئی سال اس سڑک کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتی رہی لیکن ہمیشہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ آخرکار کسی نے یہ حل نکالا کہ اگر پاکستان لداخ میں واقع کارگل کی چوٹیوں پر قبضہ کر لے تو وہاں سے اس سڑک کو نشانہ بنانا بہت آسان ہو جائے گا۔
اکتوبر 1998ء میں پاکستانی فوج کی ناردرن لائٹ انفنٹری کے دستے خفیہ طور پر کارگل کی چوٹیوں کی جانب روانہ ہوئے۔ ہر سال سردی کے موسم میں بھارتی فوج کے جوان کارگل کا علاقہ شدید برف باری کی وجہ سے خالی کر دیتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق ابتدائی پیش قدمی کے چھ ماہ بعد دو ہزار پاکستانی سپاہی بھارتی سرحد کے اندر دس کلومیٹر تک گھس کے کارگل کی چوٹیوں پر اپنا ٹھکانہ بنا چکے تھے۔ اپریل 1999ء تک فوجی کمانڈو اور جہادی تنظیموں کے ارکان بھی ان دستوں میں شامل ہو چکے تھے۔ مئی کے پہلے ہفتے میں کشمیری چرواہوں نے پاکستانی فوجیوں کو پہچان لیا اور ان کے متعلق اطلاع بھارتی فوج تک پہنچائی۔ 21 مئی کو بھارتی جہازوں نے صورت حال کی تصاویر مرکزی کمان تک پہنچائیں تو انہیں حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔
26 مئی کو بھارتی جنگی طیاروں نے پاکستانی افواج کے ٹھکانوں پر بمباری شروع کر دی۔ بھارتی ذرائع کے مطابق پاکستانی افواج نے کم ازکم ایک سو تیس مقامات پر ٹھکانے قائم کر رکھے تھے۔ پاکستانی دستوں نے اگلے ہفتے کی لڑائی کے دوران دو بھارتی طیارے مار گرائے۔ بھارتی فوج نے بوفورس توپیں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا، جو کامیاب رہا۔ دوسری جانب بھارتی بحریہ نے پاکستان کے تجارتی اور دیگر بحری جہازوں کے لیے ساحلوں تک پہنچنا مشکل بنا دیا۔ اس دوران سفارتی اور حکومتی سطح پر پاکستانی حکومت نے باقاعدہ فوج کی کارگل میں موجودگی سے بے خبری کا اظہار کیا تھا، اور اس کارروائی کی ذمہ داری کشمیری علیحدگی پسندوں پر ڈالی تھی۔
جب بھارتی افواج نے ایک مقام پر مقابلے کے بعد کیپٹن کرنل شیر خان کی لاش تحویل میں لے کر ان کی پاکستانی وردی میں ملبوس تصاویر ٹی وی پر نشر کیں تو پاکستان کے پاس ذمہ داری قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ عالمی سطح پر پاکستان کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور جون کے وسط میں پاکستان پر جنگ ختم کرنے کا دباؤ بڑھنے لگا۔ جب امریکی صدر کلنٹن کو پاکستان کی جانب سے سرگودھا میں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس میزائلوں کی تیار حالت کی اطلاع ملی تو انہوں نے دفعتاََ نواز شریف کو امریکہ طلب کیا۔ 4 جولائی کو وزیراعظم نوازشریف نے واشنگٹن میں جنگ بندی اور پاکستانی فوجوں کی واپسی کا اعلان کیا۔ مئی میں کارگل کے موضوع پر مشرف کے زیر صدارت منعقد شدہ کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد ایئر کموڈور عابد راؤ نے کہا تھا کہ اس آپریشن کے بعد یا تو کورٹ مارشل ہو گا یا مارشل لاء ہو گا۔
ستمبر 99ء میں بلائی جانے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں جنرل مشرف کی حرکات اور ’ممکنہ ارادوں‘ کے متعلق کوئٹہ کے کور کمانڈر جنرل طارق پرویز نے وزیراعظم کو خبر دار کیا، جس کی پاداش میں مشرف نے طارق پرویز کو برخواست کرنے کی سفارش کی۔ اسی اثناء میں مشرف نے اپنے رشتے دار میجر جنرل شاہد عزیز کو DGMO مقرر کیا اور اس عہدے پر مقرر توقیر ضیاء کو کور کمانڈر منگلا تعینات کیا۔ چیف آف جنرل سٹاف جنرل عزیز کی ہدایت پر کمانڈوز کی ایک کمپنی بریگیڈیئر امیر فیصل علوی کی قیادت میں راولپنڈی کے قریب دھمیال میں تعینات کی گئی اور مشرف کے سابقہ بریگیڈ میجر بریگیڈیئر صلاح الدین ستّی کو 111 برگیڈ کی کمان سونپی گئی۔
17 ستمبر 1999ء کو شہباز شریف وزیر اعظم کی ہدایت پر واشنگٹن پہنچے اور امریکی دفترِ خارجہ کے عہدے داروں کے ساتھ ملاقات کے دوران انہیں پاکستان میں جرنیلوں کی ’ممکنہ آمد‘ سے آگاہ کیا۔ شہباز شریف نے امریکی عہدے داروں کو کچھ ماہ قبل کارگل کے موضوع پر حکومت کی ’وفا داری‘ کی یاد دہانی کروائی اور یہ باور کرایا کہ اس حرکت پر فوج بالکل خوش نہیں تھی۔ انہوں نے پاکستان کی جانب سے طالبان حکومت کے ساتھ سخت رویہ اپنانے اور اسامہ بن لادن کی گرفتاری میں امریکہ کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ 20 ستمبر کو ایک امریکی اہلکار نے پاکستان میں جمہوری عمل کی پائیداری کی ضرورت پر زور دیا اور کسی ’غیر آئینی‘ اقدام کی مخالفت کا عندیہ دیا۔
اسی اثنا میں جنرل مشرف نے نواز شریف کے قریب سمجھے جانے والے جنرل سلیم حیدر کا تبادلہ کردیا۔ سیاسی شطرنج کا میدان سج چکا تھا اور دونوں فریقین اپنے مہرے احتیاط سے استعمال کر رہے تھے۔ 10 اکتوبر کو میاں نواز شریف اپنے قریب ترین ساتھیوں سمیت ابو ظہبی کے ایک روزہ دورے پر روانہ ہوئے۔ اس سفر میں ان کے ساتھ ان کے فرزند حسین نواز، تقریر نویس نذیر ناجی اور جنرل ضیاء الدین موجود تھے۔ اس واقعے سے کچھ ماہ قبل مقامی اخبارات میں شریف حکومت کے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا جا چکا تھا اور اپوزیشن سیاست دانوں نے ایک گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس بنایا تھا جس کا یک نکاتی مقصد ’گو نواز گو‘ تھا۔ اس اکٹھ میں پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، تحریک انصاف، مسلم لیگ چٹھہ گروپ اور پاکستان عوامی تحریک شامل تھیں۔
آخری بساط بچھ چکی تھی اور نواز شریف نے مہلک وار کرنے کی تیاری مکمل کر لی تھی۔ جنرل مشرف سری لنکا کی پچاسویں سالگرہ کی تقریب میں شرکت کرنے کولمبو جا چکے تھے اور 12 اکتوبر کو ان کی واپسی متوقع تھی۔ واپسی کی چار گھنٹے کی پرواز کے دوران مشرف کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔ سیاسی قیادت اس امر سے لاعلم تھی کہ کولمبو جانے سے قبل مشرف نے اپنے قریب ترین ساتھیوں سے اپنے گھر پر ملاقات کی تھی اور شرکاء میں جنرل عزیز، جنرل محمود احمد، جنرل شاہد عزیز اور بریگیڈیئر راشد قریشی شامل تھے۔
بارہ اکتوبر کو صبح دس بجے وزیر اعظم اسلام آباد سے اپنے طیارے میں شجاع آباد میں منعقدہ ایک جلسے سے خطاب کے لیے روانہ ہوئے۔ جانے سے پہلے انہوں نے اپنے ملٹری سیکرٹری افتخار علی خان کو ہدایت دی کہ واپسی پر ان سے ملاقات کریں، اس کے علاوہ انہوں نے صدر پاکستان کے ساتھ ملاقات کے لیے وقت مقرر کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ اس سفر میں وزیر اعظم کے ہمراہ حسین نواز، نظیر ناجی اور پی ٹی وی کے سربراہ پرویز رشید تھے۔ طیارہ ملتان ہوائی اڈے پر اتارنے کے بعد جہاز کے عملے کو باہر نکلنے کا حکم دیا گیا اور نذیر ناجی سے ان کا موبائل فون لے لیا گیا۔ نذیر ناجی کو حسین نواز کی لکھی تقریر دکھائی گئی جو اس روز وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کے دوران استعمال کرنی تھی، اور نذیر صاحب نے اس تقریر کا اردو میں ترجمہ کیا اور اس کی نوک پلک سنواری۔
دو گھنٹے بعد طیارہ پنڈی کے چکلالہ ہوائی اڈے پر اترا تو وزیر اعظم نے اپنے ملٹری سیکرٹری کو منصوبے سے آگاہ کیا۔ نواز شریف نے بتایا کہ جنرل طارق پرویز کی برخاستگی کے بعد فوج اور حکومت کے تعلقات میں ابتری آچکی ہے اور انہوں نے جنرل مشرف کی جگہ جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف تعینات کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ افتخار علی خان نے وزیر اعظم کو اس ہنگامی قدم سے باز رہنے کا مشورہ دیا لیکن انہوں نے سنی ان سنی کر دی۔
وزیراعظم کے دفتر میں ان کے سیکرٹری سعید مہدی نے سرکاری کارروائی کے لیے کاغذات تیار کیے۔ سہ پہر کے چار بجے جنرل مشرف کا طیارہ کولمبو کے ہوائی اڈے سے پاکستان کے لیے روانہ ہوا۔ ساڑھے چار بجے وزیر اعظم نے مشرف کی جگہ ضیاء الدین کے تقرر نامے پر دستخط کر دیے اور حتمی فیصلے کے لیے کاغذات ایوان صدر بھجوا دیے۔ پی ٹی وی کے پانچ بجے کے خبر نامے میں مشرف کی جگہ ضیاء الدین کو آرمی چیف بنانے کی خبر نشر کر دی گئی۔ جنرل ضیاء الدین نے مشرف کے حمایتی جرنیلوں عزیز خان اور محمود احمد کی جگہ اپنے قابل اعتماد لوگوں کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے فوج کے کوارٹر ماسٹر جنرل، جنرل اکرم کو عزیز خان کی جگہ بحیثیت چیف آف جنرل سٹاف کمان سنبھالنے کا پیغام بھیجا اور جنرل سلیم حیدر کو محمود احمد کی جگہ دس بریگیڈ کی کمان سنبھالنے کی ہدایت دی۔
جنرل سلیم اس وقت گالف کھیل رہے تھے لہٰذا ان تک پیغام پہنچانے میں کچھ وقت لگا۔ عین اسی وقت جنرل محمود احمد اور عزیز خان ٹینس کھیل رہے تھے اور انہیں اس تبدیلی کی اطلاع پشاور کے کور کمانڈر جنرل سعید الظفر کے ذریعے ملی۔ دونوں جنرل فوری طور پر GHQ پہنچے اور سب سے پہلے پی ٹی وی کو آرمی چیف کی تبدیلی کی خبر چلانے سے روکنے کے لیے ایک میجر اور پندرہ جوانوں کو مرکزی ٹیلی ویژن دفتر بھیجا۔ اس کے بعد انہوں نے کور کمانڈروں سے رابطہ کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ نواز شریف سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔
پی ٹی وی کے شام چھ بجے والے خبر نامے میں مشرف کی سبکدوشی اور جنرل ضیاء الدین کی تقرری کی خبر موجود نہیں تھی۔ وزیر اعظم ہاؤس سے نواز شریف صاحب کے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر جاوید اقبال کو پنجاب ایلیٹ فورس کے ہمراہ پی ٹی وی مرکز بھیجا گیا جہاں برگیڈیئر صاحب کی میجر نثار سے توتو میں میں ہوئی جس کے نتیجے میں میجر نثار اور ان کے ساتھ موجود فوجیوں کو ایک کمرے میں بند کر دیا گیا اور بالآخر سات بجے کے خبرنامے میں مشرف کی برطرفی والی خبر نشر کی گئی۔ اب کی بار جی ایچ کیو میں بیٹھے جرنیلوں نے فوجیوں کی ایک بڑی تعداد ٹیلیویژن مرکز بھیجی جن کی دروازہ پھلانگنے والی تصویر بہت مشہور ہوئی۔
جنرل محمود اور جنرل اورکزئی کی زیر قیادت وزیر اعظم ہاؤس فتح کر لیا گیا۔ مشرف کے طیارے کو پہلے کراچی ہوائی اڈے پر اترنے کی اجازت نہیں دی گئی لیکن فوج نے جلد ہی ہوائی اڈے پر قابو پالیا۔ پی ٹی وی پر ساری رات ملی نغمے اور فوجی ترانے چلتے رہے۔ رات کے آخری پہر اسکرین پر فوجی وردی میں ملبوس ایک صاحب نمودار ہوئے، اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
(ختم شد)
حوالہ جات
Constitutional and Legal History of Pakistan. Hamid Khan
Heights of Madness, Myra McDonald
Pakistan: Eye of the Storm, Owen Bennet-Jones
Count Down October 12, 1999. Hamid Hussain
لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں
پڑھیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔