نقطہ نظر

جیکسن ہائیٹس ریویو، تارکین وطن افراد کی زندگی کی جھلک

جیکسن ہائیٹس اچھے مصنف، باریک بین ڈائریکٹر اور بہترین اداکاروں کا درست امتزاج ہے اور ہم کچھ بہترین کی توقع کرسکتے ہیں۔

جیکسن ہائیٹس تارکین وطن کی زندگی کے عکس کا ایک ٹکڑا یا آسان الفاظ میں پردیس میں چھوٹا سا دیس، جس میں دیسی افراد کی زندگیوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

عمران بھٹی (نعمان اعجاز) ایک ایسا باتونی ٹیکسی ڈرائیور جس کے کندھوں پر دیگر کی زندگیوں کا بوجھ لدا ہوا ہے، اس کا سونے کے رنگ کے چشمے پہن کر خواب دیکھنے والا بھانجا جمشید(عدیل حسین)، ریسٹورنٹ کی مالکہ مشعل(مرینہ خان) جس کے اپنے آبائی وطن سے تعلق میں تلخی جھلکتی ہے، اسے چاہنے والا رضوان(عدنان جعفر) ، سلمی(امینہ شیخ) جو سخت محنت سے کمانے میں مصروف ہے(مزید یہ کہ تھریڈنگ کی زبردست صلاحیت رکھتی ہے) اور اس کا پرتشدد شوہر سکندر(علی کاظمی)۔

ان سب کی کہانیوں کے پیچھے ایک مایوسی کا احساس پایا جاتا ہے، مجبوری، کمانا، ایک اچھی زندگی یا خواب اور زمین پر گرنا اور ایسے لوگ جنھیں ہم پیچھے چھوڑ آتے ہیں جو ہمارے اندر وطن کی یاد جگاتے ہیں۔

مگر یہ یادیں ان تلخ حقائق کے سامنے کچھ بھی نہیں ہوتیں جو انہیں درپیش ہوتی ہیں۔

اب تک کی کہانی

ایک خوشامدی شخص بننے کی اداکاری کرتا عمران بھٹی اندر سے غصے میں بھرا ہوا ہے، اس کے ملک کا گنوار پن اس کے تکلیف دہ تجسس کا توازن بگاڑ دیتا ہے، اس کی بگڑی انگریجی پنجابی کے تڑکے سے بھری ہوئی ہے اور گرین کارڈ کے آسیب نے اسے مسلسل اپنی بلڈوزر کی طرح پیس دینے والی امریکی بیوی کے سامنے گونگا بنا رکھا ہے۔

ایک امیر اور کامیاب فرد کا اس کا پردہ اس وقت چاک ہوجاتا ہے جب اس کا بھانجا امریکی سرزمین پر قدم رکھتا ہے، اس کے بلند و بالا خوابوں کو اس وقت دھچکا لگتا ہے جب وہ نیویاری پہنچ جاتا ہے، جہاں تکلیف دہ حقائق اس کے سہانے سپنوں کو چکنا چور کرکے مایوسی کی گہری دلدل میں دھکیل دیتے ہیں۔

کچھ عرصہ ما موں کے گھر میں پنگ پانگ گیند کی طرح یہاں وہاں ٹکرانے سے وہ وہاں سے نکل کر ایک ایسے شخص کے ساتھ کرائے پر کمرہ لے لیتا ہے جو کم اجرت پر بھی کام کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے، ایسا بھی نظر آتا ہے کہ جمشید بڑھاپے کی جانب مائل مشعل پر فریقتہ ہے، ایک پاکستانی عیسائی جو اپنی زبان کی تیز دھار دیسی ٹیکسی ڈرائیورز پر آزماتی ہے مگر اپنے بہترین دوست رضوان کے سامنے اسے چپ لگ جاتی ہے۔

رضوان، جیکسن ہائیٹس میں شامل ہندوستانی مسلمانوں کا نمائندہ ) اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھتا ہے جو مراعات کے حقدار ہوتا ہے، مگر اس کے باوجود وہ کسی لڑکی کا دل جیتنے میں کامیاب نہیں ہوپاتا۔

نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے سلمیٰ خود کو تمام بنجامین کے پنجوں سے بچانے میں مصروف ہے، اس کی پرسکون شخصیت ظاہری ہوتی ہے کیونکہ اسے اپنے مجرم شوہر سکندر کی موجودگی سے خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

دلچسپ سائیڈ کریکٹرزجیسے جھگڑالو بچے، شفیق ماں، غیر تسلیم شدہ محبوبہ، سوتیلی بیٹیاں، برا بھلا کہنے والا ڈیڈی، مجموعی طور پر اب تک دکھائی جانے والی دس اقساط میں کہانی کافی سست روی سے آگے بڑھی ہے۔

ہمارا انتخاب

جیکسن ہائیٹس ایسے کرداروں کی آڑھی ترچھی لکیروں کی متاثر کن عکاسی کرتا ہے جو طبقاتی تقسیم کا شکار ہیں، اگرچہ ان کی شخصیت کی تہوں کے انکشافات قابل قدر ہیں تاہم کئی ایسا لگتا ہے جیسے ہم کسی دیوار پر رنگا ہوا چھلکا دیکھ رہے ہیں، اس کی سست رفتار کہانی کو قابل پیشگوئی بنادیتی ہے اور حالات روانی کے برعکس قیاسی طور پر کھولتے نظر آتے ہیں۔

سلمی اور بھٹی صاحب کا بھاگنا ایک دن پرانی روٹی جیسا بدمزہ لگتا ہے، اس سے ملتی جلتی صورتحال اور رشتے دار جن کا خون سبز ہوچکا ہے، کہانی کو باندھے رکھتے ہیں، جشمید کے مشعل اور کتھی کے ایک دوسرے کو کاٹنے والے راستوں پر سفر ہر طرح کے پہلوﺅں کا اظکار کرتا ہے، جبکہ یہاں شیطان کی طرح کی ظالم ساس بھی اٹلانٹک کے اس پار بھی نظر آتی ہے۔

ایک ایسا ڈرامہ جس کا نام نیویارک میں جنوبی ایشیائی حب کے نام پر رکھا گیا ہو، مگر اس کے اندر اس علاقے کا فلیور بہت کم ہی نظر آتا ہے، جیکسن ہائیٹس ہوسکتا ہے کہ لوگ دیہی کھانوں کے لیے جاتے ہو مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ یہ نچلے طبقوں کے تارکین وطن کا گھر ہے، وہاں ہر ایک کسی نہ کسی 'نمبر والا کام' میں ملوث ہے، مگر کیمرہ اس سے بہت دور ہے، یہاں تک کہ ماحول بھی بالکل صاف ستھرا ہے، رضوان کے گھر کو نکال جو اس کی وال اسٹریٹ میں ملازمت کا عکس سمجھا جاسکتا ہے، باقی دیگر کردار بھی کچھ زیادہ ہی امیر نظر آتے ہیں۔

بھٹی صاحب کا گھر دیکھنے میں کسی بالائی متوسط طبقے کا لگتا ہے، سیلون بھی بہت صاف ہے، یہاں تک کہ اس میں دکھایا جانے والا ریسٹورنٹ اتنا ہی صاف ہے جتنا نیویارک کے شاٹس، اس کے مقابلے میں بلقیس کور جنوبی ایشیائی تارکین وطن کی مشکلات کا احساس دلانے کے لیے زیادہ بہتر تھا جس میں فارمیکا کی میزیں، باورچی خانے کے مناظر اور پرتنوع افراد دکھائے گئے تھے۔

اس کے علاوہ جیکسن ہائیٹس کے ساتھ ایک بیزاری یا الگ تھلگ پن کا احساس بھی جڑا ہوا ہے، جو حیرت کی بات نہیں، جب دیسی افراد خود تک ہی محدود رہیں گے، وہ کسی نئے مقام کا حصہ نہیں بنیں گے ، یہ نہیں بتائیں گے کہ کس طرح وہ خوف محسوس کرتے ہیں اور اس سرزمین اور لوگوں کے بارے میں ہمارے نظریے میں توسیع نہیں آئے گی تو اس کے علاوہ اور کیا محسوس ہوگا؟ کسی بیچارے کی شخصی ٹوٹ پھوٹ سے بہتر نہیں تھا کہ ہمیں اس کے تارکین وطن کے تجربے کے بارے میں بتایا جاتا؟ اور ایک حقیقت یہ ہے کہ جیکسن ہائیٹس میں دکھائے جانے والے بیشتر دیسی ریسٹورنٹس کیا اب بنگلہ دیشی نہیں چلارہے؟

پھر بھی اس کئی متاثر کن آئیڈیاز موجود ہیں، مشعل اپنے دیسی عملے کو کم اجرتیں ادا کرتی ہے، ٹیکسی ڈرائیوروں کو غیرملکی ہونے پر تشدد کا سامنا، امریکا میں ملازمت پیشہ دیسیوں کی زندگی کا اشارہ دیتے ہیں، نو مین ویزہ لینڈ کو پراسیس اور کلئیرنس کے دوران اکثر خوشنما الفاظ میں سیکیورٹی اور پس منظر کی چیکنگ قرار دیا جاتا ہے، تائی جی کی دخل اندازی اور ان کے جملے جیسے گورے کی بچی ہے کیا کھودگی پھرے ناچنے والی، مغرب میں اس طرح کے افراد کو درپیش مشکلات کو پیش کرتا ہے۔

میں یہی توقع کرسکتی ہوں کہ ڈرامے کو اس طرح کے کچھ خیالات سے بہتر بنایا جائے گا۔

ڈرامے کی کیا چیز اہم ہے

جیکسن ہائیٹس اچھا تعارف ہے اور یہ کہانیوں کی سونے کی کان ہے، واسع چوہدری مزاح لکھنے مین مہارت رکھتے ہیں، لان موور، بچے پر بیٹھنا، چبھتی آواز، اسٹکر بنادیا، لیفٹ ہینڈ مین، پرسنل بھانجا ہر جگہ چھا جاتے ہیں، وہ یقیناً جانتے ہیں کہ کس طرح اپنے الفاظ کو روشن بنانا چاہئے۔

ڈائریکٹر مہرین جبار چند باصلاحیت افراد میں سے ایک ہیں(ہم ان کے پہلے کے کام کوک کہانی اور رام چند پاکستانی سے واقف ہیں) اور وہ پرتنوع سماجی معاشی پس منظر (دام) پیش کرچکی ہیں، جو اپنے خاص انداز کو استعمال کرتی ہیں، ان کے ہچکاک لمحے کو بھی ضرور دیکھنا چائے۔

اس ڈرامے کی حقیقی مضبوطی اس کی اسٹار کاسٹ ہے، نعمان اعجاز اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریجی کے ذریعے اپنی ٹیکسی کو دوڑاتے ہیں، عدیل حسین اعتماد کی بلندیوں سے مایوسی کی انتہا تک جاپہنچتے ہیں، مرینہ خان کو دیکھنا ہمیشہ ہی اچھا لگتا ہے۔

شائستہ عدنان جعفر ایک مضبوط تاثر چھوڑتے ہیں اور امینہ شیخ کی شخصیت ان کے کردار کے مقابلے کچھ زیادہ پرسکون اور شریفانہ لگتا ہے، جو کہ ایک محنتی ملازمت پیشہ لڑکی پر جچتا بھی ہے، ان کے شوہر یعنی علی کاظمی کی کارکردگی کافی چست و چالاک دکھائے گئے اور بیوی پر کنٹرول والے توانائی سے بھرپور شوہر ہی لگتے ہیں، یہاں تک کہ سپورٹنگ کاسٹ نغمہ، نیلوفر عباسی، ردا اصفہانی سب بہت مضبوط ہے۔

جیکسن ہائیٹس اچھے مصنف، باریک بین ڈائریکٹر اور بہترین اداکاروں کا درست امتزاج ہے، ہم توقع کرسکتے ہیں کہ سب مل کر کچھ ایسا پیش کرسکیں جو ہمارے خیالات کو تحریک دے سکے۔

انگریزی میں پڑھیں۔


صدف صدیقی ایک فری لانس لکھاری، ڈراموں کی شوقین ہیں۔

صدف صدیقی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔