پاکستان

'ہلاکت کا سبب ایبولا نہیں ڈینگی تھا'، وزارتِ صحت

فیصل آباد کے ذوالفقار احمد میں ایبولا وائرس کی موجودگی کی تردید کرتے ہوئے ڈینگی کو ہلاکت کی وجہ قرار دے دیا گیا ہے۔

فیصل آباد: قومی وزارتِ صحت نے صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال میں منگل کو ہلاک ہونے والے مریض میں ایبولا وائرس کی موجودگی کی تردید کردی ہے۔

نمائندہ ڈان نیوز کے مطابق نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کو آرڈینیشن (این ایچ ایس آر سی) اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے مشترکہ طور پر تصدیق کی ہے کہ ایبولا وائرس کے شبہ میں زیرِ علاج مریض ذوالفقار احمد کی ہلاکت دراصل ڈینگی کی وجہ سے ہوئی، جو ہیپٹائٹس سی کا بھی مریض تھا۔

ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ہیلتھ پنجاب اسد رفیق نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ فیصل آباد میں مریض کی ہلاکت ایبولاوائرس کی وجہ سے نہیں ہوئی۔

واضح رہے کہ فیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال میں زیرِعلاج مریض ذواالفقار احمد منگل کو دم توڑ گیا، جبکہ حکام نے میت ورثا کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا۔

چنیوٹ سے تعلق رکھنے والے 40 سالہ ذوالفقار احمد کوگزشتہ ہفتے شدید بخار کے بعد فیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں ڈاکٹروں نے ذوالفقار کے منہ اور ناک سے خون بہنے پر خطرناک ایبولا وائرس کا شکار ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔

ذوالفقار احمد مغربی افریقہ کے ملک ٹوگو سے ایک ہفتہ قبل پاکستان واپس لوٹے تھے۔

مریض کی ہلاکت سے قبل ڈان ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے الائیڈ ہسپتال کے ڈاکٹر راشد مقبول کا کہنا تھا کہ احمد کے خون کے نمونے لے کر اسلام آباد کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ بھجوادیے گئے ہیں جبکہ نتائج آنے میں کم از کم دو ہفتے کا وقت درکار ہوگا۔

دوسری جانب پنجاب کے محکمہ صحت نے ان رپورٹس کا نوٹس لے لیا ہے۔

ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب کے مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق کا بھی کہنا تھا کہ ذوالفقار احمد کو نمونوں کے نتائج برآمد ہونے تک ایک علیحدہ وارڈ میں منتقل کردیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومتی ٹیمیں چنیوٹ پہنچ چکی ہیں جہاں احمد کے رشتہ داروں کے ٹیسٹ لیے جائیں گے تاکہ ان میں ایبولا کی علامات کا جائزہ لیا جاسکے۔

جبکہ منگل کی صبح تک عالمی ادارہ صحت کی ٹیمیں بھی متوقع طور پر چنیوٹ پہنچ جائیں گی۔


ایبولا وائرس کیا ہے؟


ایبولا انسانوں اور جانوروں میں پایا جانے والا ایک ایسا مرض ہے جس کے شکار افراد میں دو سے تین ہفتے تک بخار، گلے میں درد، پٹھوں میں درد اور سردرد جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور وہ قے، ڈائریا اور خارش وغیرہ کا شکار ہوجاتے ہیں، جبکہ جگر اور گردوں کی کارکردگی بھی متاثر ہوجاتی ہے۔

مرض میں شدت آنے کے بعد جسم کے کسی ایک یا مختلف حصوں سے خون بہنے لگتا ہے اوراس وقت اس مرض کا ایک سے دوسرے فرد یا جانور میں منتقل ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، درحقیقت اسے دورانِ خون کا بخار بھی کہا جاتا ہے اور جب خون بہنے کی علامت ظاہر ہوجائے تو مریض کا بچنا لگ بھگ ناممکن سمجھا جاتا ہے۔

یہ مرض 1976 میں سب سے پہلے سوڈان میں ظاہر ہوا تھا اور 2013 تک اس کے صرف 1716 واقعات سامنے آئے تاہم رواں برس یہ مغربی افریقہ میں ایک وبا کی شکل میں سامنے آیا اور گیانا، سیریا لیون، لائبریا اور نائیجریا اس سے سب سے متاثر ہوئے اور اس کی ویکسین کی تیاری کے لیے کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔