پاکستان

کراچی : اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ، پولیس کا کردار؟

ٹارگٹڈ آپریشن کے بعد شہری 421 دنوں میں 18,519 موبائل فونزسے محروم ہوئے، اس سے قبل اتنے ہی دنوں میں یہ تعداد 11,295 تھی

کراچی: اگرچہ شہرِ قائد میں دہشت گردوں کے خلاف جاری ٹارگٹڈ آپریشن دوسرے سال میں داخل ہو گیا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مشتبہ ملزمان، عسکریت پسندوں اور شر پسندوں کو پکڑنے میں بہت زیادہ مستعدی بھی دکھا رہے ہیں، تاہم یہ ساری پریکٹس اسٹریٹ کرائمز کو روکنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے اور پولیس و رینجرز کے مشترکہ آپریشن کے پہلے 14 مہینوں کے دوران موبائل اور موٹر سائیکل چھیننے کے متعدد کیسز رپورٹ کیے جا چکے ہیں۔

کراچی پولیس کی جانب سے جاری کیے گئے اعداو شمار کے مطابق کراچی کے شہری، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مشترکہ ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیے جانے کے بعد 421 دنوں میں 18,519 موبائل فونز سے محروم ہوئے، جبکہ اس سے قبل اتنے ہی دنوں میں یہ تعداد 11,295 تھی۔

کراچی پولیس کے ایک عہدیدار نے اعدادو شمار کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ 'ستمبر 2013 میں جب اس آپریشن کا آغاز کیا گیا تو کراچی کے شہری ایک دن میں 44 موبائل فونز سے محروم ہو رہے تھے، جبکہ آپریشن شروع کیے جانے سے قبل یہ تعداد 27 تھی'۔

'اسی طرح آپریشن کے 421 دنوں کے دوران 26,040 موٹر سائیکلیں یا تو چھینی گئیں یا پھر چوری ہو گئیں، جبکہ آپریشن سے قبل اتنے ہی دورانیے میں موٹر سائیکلیں چھیننے یا چوری ہونے کے 24,672 واقعات ہوئے'۔

'اس کا مطلب یہ ہے کہ آپریشن کے آغاز کے بعد ہر دن 58 شہری اپنی موٹر سائیکلوں سے محروم ہو رہے ہیں'۔

کراچی پولیس کو بھی اس ٹارگٹ آپریشن میں مستعدی دکھانے کی قیمت، دہشت گردوں کی جانب سے دھمکیوں سے لے کر پولیس مقابلوں، مافیا اور اہم سیاسی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ جیسے مسائل کی صورت میں چکانی پڑ رہی ہے اور اکتوبر 2014 تک محکمہ پولیس اپنے 132 اہلکار کھو چکی ہے۔

جہاں پولیس اور رینجرز کی کارروائیوں کی بدولت کسی حد تک فرقہ وارانہ اور سیاسی بنیادوں پر قتل کی وارداتوں میں کمی آئی ہے وہیں موبائل اور موٹر سائیکل چھیننے سمیت دیگر اسٹریٹ کرائمز کی تعداد میں اضافے نے اس حوالے سے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں، تاہم سیکیورٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رجحان کے پیچھے بھی ایک وجہ ہے۔

سٹیزن پولیس لائیژن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے چیف احمد چنائے کے مطابق 'آپریشن کے دوران چار سنگین جرائم جیسے قتل، اغواء برائے تاوان، بھتہ خوری اور اسٹریٹ کرائمز پر زیادہ توجہ مرکوز کی جاتی ہے'۔

'تین مسائل جیسے قتل، اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری جیسے جرائم سے نمٹنے کے لیے پولیس اور رینجرز کے خصوصی یونٹس کام کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان جرائم کی شرح میں تیزی سے کمی آئی ہے، جبکہ اسٹریٹ کرائمز کو صرف پولیس اسٹیشنز کے ذریعے ہی کنٹرول کیا جاتا ہیے اور ان کی کارکردگی یقیناً اچھی نہیں ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پولیس اسٹیشنزکو اتنے وسائل مہیا نہیں ہیں اور دوسری جانب وہ موبائل اور موٹر سائیکل چھینے کی وارداتوں کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیتے'۔

احمد چنائے کا کہنا تھا کہ 'سی پی ایل سی میں ہم نے متعدد بار ان جگہوں کی نشاندہی کی ہے، جہاں اسٹریٹ کرائمز کی شرح زیادہ ہے اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ان مقامات پر مناسب نفری تعیانت کی جائے اور سنجیدگی سے نگرانی کی جائے، لیکن بدقسمتی سے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا'۔

انھوں نے پولیس تھانوں میں فوری اصلاحات کے نفاذ کی تجویز دینے کے ساتھ ساتھ پولیس تھانوں میں انفرادی سطح پر کارکردگی کی نگرانی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

احمد چنائے کا کہنا تھا کہ 'ہماری پولیس اس مسئلے سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے تاہم اس سلسلسے میں انھیں وسائل مہیا کیے جانے چاہئیں اور تھانوں کی سطح پر پولیس پٹرولنگ کے نظام کو موثر بنایا جانا چاہیے'۔