نقطہ نظر

عورت مرد سے برتر کیوں؟

عورت اور مرد دریا کے دو متوازی کنارے ہوتے ہیں جن کے بغیر زندگی کا بڑھنا ممکن نہیں ہوتا۔

جیسا کہ آپ نے پڑھا ہی ہوگا کہ پاکستان ایک بار پھر صنفی مساوات کی عالمی فہرست میں بدترین ممالک میں سے ایک قرار پایا ہے حالانکہ یہ مساوات کیسے ہوسکتی ہے جب پہلے ہی صنف نازک کو موئے مردوں پر برتری حاصل ہے۔

یقین نہیں آتا؟ اور پھر بھی آپ مساوات کی بات کرتے ہیں تو ایک سوال کا جواب دیں۔ آپ کو اس کا سائنسی تصدیق شدہ جواب مل جائے گا، کیا آپ مرد و خواتین کے شانہ بشانہ چلنے پر یقین رکھتے ہیں اور اگر ہاں تو پھر اگر شانہ بشانہ چلتے ہوئے کوئی کرخت چہرے والا مرد پری چہرہ عورت کو کندھا مار دے تو کیا آپ مساوات کا ثبوت دیتے ہوئے کندھا مارنا پسند کریں گی یا سینڈل کو اتار کر اسے برسانا؟

اس سے بھی بڑھ کر خواتین کی برتری کا ایک ثبوت اس وقت سامنے آتا ہے جب کٹر ترین نظریات والا مرد اگر کسی ہجوم کے سامنے تقریر کرے۔ اس کے پہلے الفاظ کیا ہوں گے؟

سوچیں سوچیں۔ یاد آیا؟ یقیناً خواتین و حضرات ہی وہ دو لفظ ہیں جو کسی بھی تقریر کا آغاز ہوتے ہیں اور یہی صنفِ نازک کی برتری ثابت کرنے کا سائنسی ثبوت بھی ہے کیونکہ مردوں کے تحت الشعور میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ خواتین کو ان پر بالادستی حاصل ہے اس لیے وہ پہلے انہیں مخاطب کرتا ہے اور پھر حضرات کو۔

اگر یہ سائنسی ثبوت بھی کافی نہیں تو یہ تقریر آپ کے چودہ طبق روشن کر کے اس بات کی سچائی کو منوالے گی جو علی عمران ایم ایس ایس ڈی ایس سی کے زبان سے نکلی اور دلوں میں اترگئی۔

وہ محترم فرماتے تھے کہ عورت کو اللہ پاک نے مرد سے برتر بنایا ہے۔ اس کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ اسے مردوں کے مقابلے میں بہتیری سہولتیں حاصل ہیں، مثلاً اسے روزانہ صبح اٹھ کر مردوں کی طرح شیو نہیں کرنا پڑتی۔ سبحان اللہ۔ اس نے عورتوں کو 'فارغ البالی' عطا کردی ہے۔

ایک سائنٹیفک ثبوت یہ ہے کہ مرد ایک اور ایک دو نہیں ہوسکتا مگر عورت ایک اور ایک تین یا چار ہوجاتی ہیں، بعض اوقات تو پانچ بھی ہوجاتی ہیں۔ جناب سمندر پار تو ایک درجن اور ڈیڑھ درجن ہوجانے والی عورتوں کو انعامات تک ملتے ہیں، خطاب ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عورت مرد سے برتر ہے۔۔

تقریر میں مزید فرمایا گیا ہے برتر وہی ہے، جو بیوقوف ہے، جو جتنا بیوقوف اتنا ہی برتر۔ پہلے مرد عورت پر حکومت کرتا تھا طاقت سے۔ اب بیوقوف یعنی برتر بنا کر حکومت کرتا ہے۔۔

برتر بناکر حکومت کرنے میں اسے دوہرا فائدہ ہے یعنی عورت پر دوہری ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں۔ وہ خود انہیں اپنے ساتھ باہر کام کرنے کا موقع دیتا ہے۔ رہ گئی چار دیواریوں کے اندر کی ذمہ داریاں تو عورتیں انہیں عادتاً انجام دیتی ہیں۔

یعنی مرد عورتوں کے دوش بدوش بچوں کو دودھ نہیں پلاتا۔ عورتوں کے ساتھ باورچی خانے میں جھک نہیں مارتا۔ ان کے ساتھ گھر کی صفائی نہیں کرتا، بچوں کے کپڑے نہیں دھوتا۔ بلکہ اس وقت وہ پلنگ پر لیٹ کر چین کی بانسری بجاتا ہے۔ سبحان اللہ۔

عورت اسی لیے مرد سے برتر ہے کہ اس نے دوہری ذمہ داریاں سمیٹ رکھی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مردوں کے مقابلے میں عورتیں نہ تو گنجی ہوتی ہیں اور نہ توندیں رکھتی ہیں۔ سبحان اللہ۔ بلکہ ماشاءاللہ۔

کیا یہ فرمودات خواتین کی برتری ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں؟ اور پھر بھی صنفی مساوات واقعی پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ ہے؟

درحقیقت مردوں کے دلوں سے پوچھیں جو خواتین کو ایسی 'عزت' اور 'برابری' دیتے ہیں جس کی کوئی مثال نہیں۔ اسی برابری کی مثال دیکھنی ہو تو کسی پبلک بس خاص طور پر کراچی کی بسوں میں سفر کرکے دیکھیں۔ خواتین کمپارٹمنٹ پر مرد و خواتین کو باہم دیکھ کر اس برابری کا یقین ہوجائے گا۔

بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جب خواتین کی نشستوں پر مردوں کا قبضہ ہوجاتا ہے اور صنف نازک کی آمد کے باوجود وہ ہٹنے سے انکار کر دیتے ہیں اور پھر بھی شکایت کی جاتی ہے کہ عورتوں سے برابری کا سلوک نہیں ہوتا؟

یہ مثال بھی کافی نہیں تو ایک اور زبردست چیز سوشل میڈیا ہے جہاں مردوں کے مقابلوں میں لگتا ہے کہ لڑکیوں کا غلبہ ہے (اب یہ نہیں پتا اس میں کتنی بنی بنائی لڑکیاں ہیں) اور تو اور گھرسے باہر لڑائی جھگڑے ہوں تو اکثر مردوں کی جگہ یہ خواتین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ دوسری کی ایسی کی تیسی کردیں اور ان کی زبان کی تلوار کا لوہا تو سب ماننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

اور خواتین کی برتری کی ایک واضح مثال تو ہمارے ٹی وی ڈرامے ہی ہیں جس میں مرد تو بیچارے ہی ہوتے ہیں۔ یہ تو عورتیں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے کے لیے گڑھا کھود رہی ہوتی ہیں اور خود ہی گر رہی ہوتی ہیں۔ اور غور کریں جن ڈراموں میں مرد ظالم جن کے روپ میں ہوتا ہے ان میں بھی اسے اکسانے کا کام کسی حسین سراپے کا ہی ہوتا ہے۔

درحقیقت صنفی مساوات کوئی ایسی چیز نہیں جس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق پڑتا ہو۔ عورت اور مرد ایک گاڑی کے دو پہیے یا دریا کے دو کنارے ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے متوازی ہوتے ہیں مگر ان کے بغیر زندگی کا بڑھنا ممکن نہیں ہوتا اور دونوں کو ہی اپنے اپنے شعبوں میں ایک دوسرے پر برتری ہوتی ہے جس کو تسلیم کرنا ہی زندگی کو آسان بناتا ہے۔

فیصل ظفر

فیصل ظفر ڈان ڈاٹ کام کے سابق اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔