مشرف غداری کیس کا مستقبل کیا ہوگا؟
اسلام آباد : خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس میں سنائے جانے والے فیصلے سے ہوسکتا ہے کہ ریٹائر جنرل کی تنہائی ختم ہوجائے مگر اس سے ٹرائل کے 'منطقی اختتام' میں بھی تاخیر ہوسکتی ہے۔
تین ججز کی جانب سے سنائے جانے والے فیصلے خصوصی عدالت، پراسیکیوشن، وکلائے صفائی کے ساتھ ساتھ قانونی ماہرین اور مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز، مشرف عہد کے ساتھ موجودہ دور میں بھی وفاقی کابینہ میں شامل زاہد حامد اور سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو شریک ملزم کی حیثیت سے مقدمے میں شامل کرنے سے اس ٹرائل کا جلد اختتام ہوتا نظر نہیں آتا اور عدالتی کارروائی کئی ماہ تک جاری رہ سکتی ہے۔
اپنے تحریری حکم میں خصوصی عدالت نے کہا" شریک ملزمان کی حیثیت سے ان افراد کو شامل کرنے سے ہوسکتا ہے کہ اس ٹرائل کا اختتام تاخیر کا شکار ہوجائے مگر اعانت جرم کے الزام کو دیکھتے ہوئے مرکزی ملزم کے ساتھ ان کے مشترکہ ٹرائل کا فیصلہ درست نظر آتا ہے"۔
فوجداری قوانین کے ایک ماہر راجا رضوان عباسی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ مقدمہ ایک بار پھر تفتیشی مرحلے میں اس جگہ واپس چلا گیا ہے جہاں یہ جون 2013 میں کھڑا تھا، اس وقت حکومت کی جانب سے غداری الزامات کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم(جے آئی ٹی) کو تشکیل دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کو اپنی تحقیقات کے آغاز میں عدالت کی جانب سے قرار دیئے گئے شریک ملزمان کو نوٹسز جاری کرنا ہوں گے اور ان کے بیانات ریکارڈ کرنا ہوں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا اگر کوئی فرد نوٹس کا جواب نہیں دیتا اور جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوتا تو تفتیش کار ان کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کرسکتے ہیں"انہیں مسلسل غیرحاضری پر اشتہاری ملزم بھی قرار دیا جاسکتا ہے"۔
ان شریک ملزمان کے بیانات ریکارڈ ہونے اور ان کے خلاف شواہد جمع کرنے کے بعد پراسیکیوشن کی جانب سے پرویز مشرف اور شریک ملزمان کے خلاف شکایت دوبارہ جمع کرائی جاسکتی ہے۔
قانونی ماہر نے کہا کہ خصوصی عدالت اس کے بعد سابق صدر، شوکت عزیز، زاہد حامد اور جسٹس ریٹائرڈ عبدالحمید ڈوگر کو غداری کا ملز ٹھہرا سکتی ہے اور اب تک خصوصی عدالت کی تمام تر کارروائی اسکریپ تصور کی جائے گی۔
راجا رضوان عباسی نے کہا کہ اس کارروائی کو مکمل ہونے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں اور فرد جرم عائد ہونے کے بعد خصوصی عدالت باضابطہ طور پر اس خصوصی کے ٹرائل کا آغاز کرسکے گی، سج کا مطلب ہے کہ پراسیکیوشن کو ایک بار پھر اپنے تمام گواہد عدالت میں پیش کرنا ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس حوالے سے ابھی کوئی بھی پیشگوئی نہیں کرسکتا ہے کہ اس مقدمے کی سماعت کتنے عرصے میں مکمل ہوجائے گی۔
پرویز مشرف کے وکلائے صفائی کی ٹیم کے سربراہ بیروسٹر فروغ نسیم نے ڈان کو بتایا کہ اس پیشرفت کے بعد بھی اگر حکومت ٹرائل کو جاری رکھنے کی خواہش رکھتی ہے تو اسے مکمل ہونے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔
اس مقدمے کی کارروائی کسی بھی شریک ملزم کی موجودگی کے بغیر نہیں ہوسکتی اور پراسیکوشن کے لیے ان سب کی موجودگی کوہر سماعت کے موقع پر یقینی بنانا مشکل ثابت ہوگا۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ ملزمان بھی یہ درخواست کرسکتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں تنہا نہیں تھے بلکہ دیگر سیاستدان بھی فیصلہ سازی کے عمل میں شریک تھے جبکہ اس طرح کے مقدمے میں یہ شریک ملزمان اپنے سابق ساتھیوں کے ساتھ مشترکہ ٹرائل کا مطالبہ بھی کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت عقلمند ہوئی تو میرے موکل کے خلاف الزامات سے دستبردار ہوجائے گی۔
پراسیکیوشن ٹیم کے سربراہ محمد اکرم شیخ اس فیصلے پر کافی الجھن کا شکار نظر آئے اور ڈان سے بات کرتے ان کا کہنا تھا کہ انہیں لگتا ہے کہ عدالتی فیصلہ مجموعی طور پر پرسیکیوشن کے حق میں نہیں"قانون کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے میرا خیال ہے کہ اب ٹرائل کا مرحلہ مکمل ہونے میں تاخیر ہوگی"۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ممکن ہے کہ 'اعانت جرم' کے مرتکب قرار دیئے جانے والے افراد اس فیصلے کے خلاف درخواست دائر کرکے حکم امتناعی حاصل کرلیں۔
جسٹس عبدالحمید ڈوگر ڈان سے بات کرتے ہوئے لگ رہا تھا کہ انہیں یقین نہیں کہ عدالت نے اپنے حکم میں واضح الفاظ میں ان کا نام بھی شامل کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ عدالتی فیصلے کو دیکھنے کے بعد اسے چیلنج کرنے کا فیصلہ کریں گے"میں نے عدالتی حکم کی نقل کے لیے درخواست دی ہے اور اس کا جائزہ لینے کے بعد اپنے اگلے اقدام کا فیصلہ کروں گا"۔
تفتیشی ٹیم کے ذرائع کے مطابق اب حکومت کی کورٹ میں ہے اور اگر وہ چاہئے گی تو ہم مزید کارروائی آگے بڑھاسکتے ہیں۔
ذرائع نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ اگر حکومت چاہے گی تو وہ عدالتی فیصلے پر عمل کرتے ہوئے پندرہ روز کے اندر شریک ملزمان کے خلاف الزامات کو حتمی شکل دے سکتے ہیں۔
ابھی یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی ہی شریک ملزمان کے خلاف تفتیش کرتی ہے یا نہیں۔
گزشتہ برس جون میں نواز لیگ کی حکومت نے چار ایف آئی افسران خالد قریشی، حسین اصغر، مقصودالحسن اور محمد اعظم پر مشتمل ایک ٹیم الزامات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی تھی ، اب یہ چاروں مختلف پوزیشنز پر کام کررہے ہیں۔
تفتیش کے عمل سے واقف ذرائع نے بتایا کہ اگر تاخیر کی خواہشمند ہوئی تو اس معاملے کی تحقیقات کے لیے نئی ٹیم کو تشکیل دے سکتی ہے۔