نقطہ نظر

وڈیروں کا کندھا مت تلاش کریں

عمران خان کو چاہیے کہ وڈیروں پر بھروسہ کرنے کی غلطی نہ کریں، اور نچلی سطح پر حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

چرچا ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سندھ میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس مرتبہ وہ عمرکوٹ یا گھوٹکی میں نہیں، پیپلزپارٹی کے گڑھ لاڑکانہ میں جلسہ کرنے جا رہے ہیں۔ مبصرین آس لگائے بیٹھے ہیں کہ عمران خان نے کامیاب جلسہ کرلیا تو سمجھو لاڑکانہ فتح کرلیا۔

اس جلسے کو کامیاب کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے مخالفین کو اکٹھا کیا جارہا ہے۔ لیکن دراصل یہ جلسہ لاڑکانہ ضلع کے بااثر انڑ خاندان کے بل بوتے پر ہو رہا ہے۔ لاڑکانہ کا انڑ خاندان علاقے میں سماجی اور معاشی طور پر بھی اثر رکھتا ہے۔ 90 کے عشرے میں غلام حسین انڑ پیپلز پارٹی کے ایم پی اے تھے۔ وہ ضلع کونسل لاڑکانہ کے چیئرمین بھی رہے۔ ان پر اور پیپلز پارٹی کے موجودہ شریک چیئرمین آصف علی زرداری پر کراچی کے ایک تاجر مرتضی بخاری کو یرغمال کرنے اور ان کی ٹانگ سے بم باندھ کر بینک سے رقم نکلوانے کا مقدمہ قائم ہوا تھا۔ غلام حسین انڑ دو تین سال جیل میں رہے۔

غلام حسین کے انتقال بعد ان کے بھائی الطاف انڑ نے ان کی جگہ سنبھالی تو پیپلز پارٹی کو اپنے گڑھ لاڑکانہ میں کمزور کرنے کے لیے مشرف اور ارباب غلام رحیم نے الطاف انڑ کی خدمات حاصل کیں اور لاڑکانہ کی کوکھ سے ایک نیا ضلع قمبر شہدادکوٹ بنایا گیا۔ بعد میں الطاف انڑ کے زور پر لاڑکانہ میں زبردستی حکومت کی جہاں الطاف انڑ کے منشی کی پہچان رکھنے والے محمد بخش آریجو کو ضلع ناظم بنایا گیا اور شہدادکوٹ ضلع نواب چانڈیو کے سپرد کیا گیا۔ انہیں بغضِ معاویہ میں ممتاز بھٹو کی بھی حمایت حاصل رہی۔


جانیے: لاڑکانہ کا منظر، جہاں پی پی جیالوں کو جیتنا مشکل


انڑ خاندان اور پیپلز پارٹی کے تعلقات قربت اور دوری کے رہے ہیں۔ گزشتہ سال کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے ڈوکری کی صوبائی نشست پر الطاف انڑ کو ٹکٹ دیا۔ لیکن الطاف انڑ نے پارٹی فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کی روایتی قومی اسمبلی کی نشست پر پیپلز پارٹی کے امیدوار کے مقابلے میں اپنے بھائی غلام عمر اور صوبائی اسمبلی کی ایک اور نشست پر اپنے بیٹے کو کھڑا کیا۔ پارٹی ہدایات کے باوجود الطاف انڑ نے اپنے امیدوار دستبردار نہیں کیے۔

جلسہ گاہ لاڑکانہ سے تبدیل کرکے انڑ خاندان کے آبائی گاؤں علی آباد کرنے کا فیصلہ عمران خان کے حق میں نہیں ہے۔ انڑ خاندان کے آبائی گاؤں میں جلسہ کرنے پر ممتاز بھٹو سمیت پیپلز پارٹی مخالف حلقوں کو تحفظات ہیں۔ وہ علی آباد میں منعقدہ جلسے میں شرکت ایک وڈیرے کی اوطاق پر حاضری بھرنے کے مترادف سمجھ رہے ہیں لہٰذا اس جلسے کی حیثیت سیاسی سے زیادہ ذاتی بن رہی ہے۔

اس کے علاوہ گھوٹکی کی چاچڑبرادری مخدوم شاہ محمود قریشی کی مرید ہے۔ اگر سردار چاچڑ نے بھرپور طریقے سے شرکت کی تو جلسہ عددی اعتبار سے کامیاب ہو سکتا ہے۔

سیاست کے اسٹاک مارکیٹ میں یہ باتیں بھی چل رہی ہیں کہ ممکن ہے کہ ممتاز بھٹو تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کردیں۔ لیکن اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ ممتاز بھٹو کی اہمیت تب تک تھی جب تک وہ سندھ نیشنل فرنٹ کے سربراہ کے طور پر اپنی شناخت رکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے سالہاسال تک پنجاب کی بالادستی کے خلاف اور وفاقی سیاست سے ہٹ کر سیاست کی۔ پیپلز پارٹی سے ان کے اختلاف کا نقطہ آغازبھی یہی تھا۔ وفاقی سیاست میں حصہ لینے، اور نواز شریف کی مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرنے نے ان کی مقبولیت کو دھچکا پہنچایا۔ نواز لیگ میں شمولیت کے ایک سال بعد ہی اس سے علیحدگی نے ان کی سیاسی ساکھ کو مزید متاثر کیا۔

لاڑکانہ میں جو بااثر افراد پی ٹی آئی کی حمایت کررہے ہیں ان کو پاپولر ووٹ کی حمایت موجود نہیں۔ البتہ اگر فرشتے اپنا کام دکھائیں گے تو عمران خان نہیں بلکہ انڑ اپنا کام دکھا سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ نادر مگسی جو سردار خان چانڈیو کی وجہ سے پیپلزپارٹی سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہیں، ان کا ممتاز بھٹو سے اتحاد صوبائی نشست اور بینظیر بھٹو کی روایتی قومی اسمبلی کی نشست پر مسئلہ پیدا کر سکتا ہے۔


پڑھیے: عمران خان کی پانچ غلطیاں


پیپلز پارٹی نے خاص طور پر اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ لاڑکانہ کسی طور پر بھی ہاتھ سے نہ جانے نہ پائے۔ اس کے لیے ترقیاتی منصوبے، ملازمتیں، ٹھیکے وغیرہ دے کر لوگوں کو راضی رکھنے کی کوشش کی۔ لاڑکانہ کو ایک طرف بلوچستان اور دوسری طرف کچے کا علاقہ لگتا ہے اور نصف ضلع ابھی تک قبائلی بندھنوں اور جرائم میں جکڑا ہوا ہے۔ وہاں مڈل کلاس یا عام آدمی کے لیے اپنی شناخت رکھنا یا الگ سے کھڑا ہونا مسئلہ ہے۔ حیدرآباد سے لے کر عمرکوٹ تک تحریکِ انصاف نظر آتی ہے لیکن ابھی تک یہ عوام میں جڑیں نہیں پیدا کر سکی ہے۔

عمران خان نوجوان نسل یا اپر مڈل کلاس جو کہ حالیہ برسوں میں ابھری ہے اور سیا ست کرنا چاہ رہی ہے، کے لیے کشش رکھ سکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپر مڈل کلاس کی تعریف میں آتے ہیں۔ یہ لوگ روایتی وڈیروں کے مخالف ہیں۔ اس کلاس کو نواز لیگ اور فنکشنل لیگ اپنے فولڈ میں نہیں لے پائی ہیں، اور قوم پرست تو یہاں تک نہ پہنچے ہیں اور نہ ہی انتخابی سیاست کرنا چاہ رہے ہیں۔ اگر عمران خان اپنی حکمت عملی درست رکھیں تویہ وہ جگہ ہے جو تحریک انصاف کو مل سکتی ہے۔

لیکن عمران خان ابھی بھی نچلی سطح پر حمایت تلاش کرنے کے بجائے روایتی وڈیروں کا سہارا لے رہے ہیں یہ وہی طریقہ ہے جو نواز لیگ بھی اختیار کرتی رہی ہے۔ یہ وڈیرے اس صورت میں ساتھ رہتے ہیں جب تک اقتدار ہے۔ اس کے بعد پارٹی کا نام نشان وہاں نہیں رہتا۔ اس لیے عمران خان کو چاہیے کہ اگر وہ حقیقی طور پر پارٹی کو مضبوط کرنا، اور پی پی پی کے گڑھ لاڑکانہ میں اسے شکست دینا چاہتے ہیں، تو وڈیروں کا کندھا تلاش کرنے کے بجائے عوام پر بھروسہ کریں اور انہیں یقین دلائیں کہ وہ ان کے لیے وہ سب کچھ کرسکتے ہیں جو دیگر لوگوں نے نہیں کیا۔

سہیل سانگی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔