نقطہ نظر

جا گورِ غریباں پہ نظر ڈال بہ عبرت

صدر ضیاالحق نے اگلے پانچ انتخابات اپنی نگرانی میں کرانے کا اعلان کیا لیکن دو ماہ بعد ہونے والے انتخابات بھی نہ دیکھ سکے۔

آدم زاد بھی عجیب گھامڑ شے ہے، جو ذرا سا عارضی اقتدار، اختیار یا طاقت ملنے پر کپڑوں سے باہر ہو جاتا ہے۔ اپنی اصلیت بھول کر اپنے جیسے انسانوں کو کمتر خیال کرنا شروع کردیتا ہے، ان کی توہین کرتا ہے، ان پر رعب جماتا ہے اور اپنے آپ کو ناگزیر سمجھنے لگتا ہے۔ اس کام میں چھوٹے بڑے کی کوئی تخصیص نہیں۔

کوئی تخت نشیں ہوکر خدائی کا دعویٰ کر بیٹھتا ہے تو کوئی کسی افسر کے در پر دربان تعینات ہوکر ’’پاٹ‘‘ جاتا ہے۔ کوئی وزیر بن کر اپنے اندر کے چھوٹے پن کو طشت ازبام کرنا شروع کردیتا ہے تو کوئی کلرک کی کرسی پر بیٹھ کر اپنی اوقات بھول جاتا ہے۔ کوئی ممبر اسمبلی بن کر لوگو ں کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرتا ہے تو کوئی ٹریفک پولیس کی وردی پہن کر چوک میں جگا بد معاش بن جاتا ہے۔ کہیں کوئی رہنما چند لوگوں کی حمایت دیکھ کر ہتھے سے اکھڑ جاتا ہے تو کہیں کوئی نودولتیا بونگیاں مارنے لگتا ہے۔ جج سارا دن لوگوں کو انتظار میں کھڑا رکھنا اپنے عہدے اور ذات کی شان سمجھتا ہے تو تھانیدار اور محرر سائلوں کو سامنے کھڑا کرکے بات کرنے میں اپنی آن دیکھتے ہیں۔ کوئی مولوی بن کر لوگوں کو اپنے اشارے پر چلانا چاہتا ہے تو کوئی اعلیٰ افسر بن کر ہم وطنوں کو اپنی رعایا خیال کرنے لگتا ہے۔

انسانی خصلت کے اس فلسفے کو سمجھنا آسان نہیں، حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ خدائی کا دعویٰ کرنے والوں کے جسم بھی قبر میں کیڑوں نے بھنبھوڑے اور گداگر بھی رزقِ خاک ہوئے۔ موت نے بادشاہوں کا تکبر بھی مٹی میں ملایا اور رعایا کے دماغی کیڑوں کو بھی سلا دیا۔ پھر بھی، پھر بھی ہر کوئی آپے سے باہر ہو رہا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ گوشت پوست کا بنا ہوا عام انسان چند عارضی اختیارات ملنے یا چند ٹکوں کا مالک بنتے ہی کھٹاک سے اکڑ جاتا ہے، چاہے وہ لوئی 14 ہو یا اپنا کرما۔

لوئی 14 انقلاب سے قبل فرانس کا بادشاہ تھا۔ اس بے وقوف کے دماغ میں یہ کیڑا سما گیا کہ سورج کو اس کے قدموں میں طلوع ہونا چاہیے، لہٰذا اس کے بیڈ روم کو اس طرح سیٹ کیا گیا کہ سوتے وقت اس کے پاؤں مشرق کی طرف ہوتے۔ کھڑکی سے طلوع آفتاب کے وقت پردے ہٹائے جاتے اور سورج ہر روز اس کے ’’قدموں میں طلوع ہوتا‘‘۔ پھر 1745ء کی ایک صبح سورج تو حسب معمول طلوع ہوا مگر لوئی 14 اس دنیا میں نہیں تھا۔ عبرت کے ایسے نمونوں سے کبھی کسی نے سبق نہیں سیکھا۔ سورج آج بھی اسی طرح طلوع ہو رہا ہے اور کئی احمق یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ان کی اجازت سے نکلتا ہے۔

ادھر تنگ دستی اور تنگی حیات کا شکار کرما ہمارے دوست کا نوکر تھا۔ انتہائی غریب اور مسکین طبع۔ اس کے مالک نے خدا ترسی کرتے ہوئے کرمے کو بیرون ملک کسی کمپنی میں مزدور بھرتی کروا دیا۔ کرمے کو جب پہلے مہینے کی ’’بھاری‘‘ تنخواہ ملی تو وہ پاٹ گیا۔ سب سے پہلے اس نے اپنی بیوی کو طلاق بھجوائی۔ چونکہ ان پڑھ تھا، سو اس نے ایک دوست کے ذریعے بیوی کو خط لکھوایا کہ تم اپنے جیسے کسی غریب آدمی سے نکاح پڑھوا لو، ہم اب اپنی کلاس میں شادی کریں گے۔ کرما چھٹی پر گھر آتا تو اس کی ٹرناؤٹ دیکھنے والی ہوتی۔ قیمتی گھڑی، سونے کی انگوٹھیاں، پرفیوم اور نجانے کیا کیا۔ وہ لوگوں سے صرف ہاتھ ملاتا اور معانقے سے گریز کرتا تاکہ بوسکی کی استری خراب نہ ہو۔

المختصر، کرمے نے کچھ بچت نہ کی۔ دو سال کا کنٹریکٹ ختم ہوا تو وہ کھوٹے سکے کی مانند وطن واپس آگیا۔ کچھ عرصے بعد ہم نے اپنے دوست سے کرمے کے متعلق پوچھا تو وہ بولا ’’لاری تے کلینڈر اے‘‘ (مسافر بس پر کلینر ہے)۔ حیرت ہے کیسے کیسے لوئی 14 اپنی ہڈیوں کا سرمہ بنوا بیٹھے۔ کتنے کرمے لاریوں پر کلینڈر ہو گئے۔ کتنے شاہ ایرانوں کو کوئے یار میں قبر کے لیے دو گز زمین بھی نہ ملی۔ کیسے کیسے ضیاء الحقوں کی ہڈیاں بھی نہ مل سکیں مگر کوئی سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں۔

اسی ضیاء الحق نے اپنے آخری دنوں میں ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ اگلے پانچ الیکشنز غیر جماعتی ہوں گے جو ہر پانچ سال کے وقفے سے منعقد ہوں گے۔ ایک صحافی نے پوچھا کہ یہ انتخابات کون کرائے گا؟ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ضیاء الحق نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’آپ کا یہ خادم‘‘۔ مگر کیا ہوا کہ چند روز بعد جہاز’’پَٹ‘‘ گیا اور اگلے آٹھ انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہو چکے ہیں۔

دنیا کی اس بے ثباتی اور بے وفائی کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ جب بیگانہ اسلام دنیا نے اس راز کو پا لیا ہے کہ اقتدار اور طاقت کے احساس سے گردن اکڑا لینا نہیں بلکہ اختیارات کے بوجھ سے اپنے عوام کے سامنے گردن کا جھک جانا ہی اصل انسانیت ہے تو پھر عالم اسلام میں اکیسویں صدی میں بھی متکبر بادشاہتیں، غلیظ آمریتیں اور دو نمبر جمہوریتیں کیوں رائج ہیں؟ جب اغیار نے احترام انسانیت کو شعار کر کے ترقی کی منازل طے کرلی ہیں تو ہمارے ہاں آج بھی ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے اور گردنوں پر سواری کی خواہشات ہی کیوں سکہ رائج الوقت ٹھہری ہیں؟

وہاں ادارے معتبر، یہاں شخصیات کے کلے مضبوط۔ چند لاکھ ووٹوں سے اقتدار کی عارضی امانت مل گئی تو خاندان کے اّسی، اسی افراد کلیدی عہدوں پر فائز کر دیے اور چند ہزار لوگ پیچھے چل پڑے تو اٹھارہ کروڑ لوگوں کی تقدیر کے مالک بن بیٹھے۔ سب ناگزیر ہونے کے دماغی عارضے میں مبتلا ہیں، حالانکہ یہ نہ ہوں تو عوام کی زندگی آسان ہو جائے۔

معزز رہنماؤ اور عظمت کے مینارو! جب ظالم تاریخ نے کسی فرعون، کسی نمرود، کسی شداد، کسی لوئی، کسی اموی، کسی عباسی، کسی مغل، کسی تغلق، کسی تاتاری، کسی سوری، کسی عثمانی، کسی شاہ ایران، کسی ضیاء الحق، کسی صدام، کسی قذافی یا کسی حسنی مبارک کو ناگزیر نہیں بننے دیا تو یار لوگ کس کھیت کی مولی ہیں؟ آخر سب نے مٹی کی ڈھیری ہی تو بن جانا ہے، جیسے آج سیلاب زدگان اور تھر میں بھوک سے مرتے بچے بن رہے ہیں اور یہاں ان کی بے بسی پر فقط بیان بازیوں سے اپنی اپنی سیاسی دکانیں چمکائی جا رہی ہیں۔

بھلے لوگو! بندہ کوئی تو ایسا کام کر جائے کہ لوگ گزرتے ہوئے مٹی کی اس ڈھیری پر دعا ہی پڑھ لیں، ورنہ یہ اقتدار، یہ جاہ و جلال اور یہ دولت سب مایہ ہی تو ہے۔ دیکھئے، جوش ملیح آبادی کے یہ اشعار کیسے رونگٹے کھڑے کر دینے والے ہیں۔

جا گورِ غریباں پہ نظر ڈال بہ عبرت

کھل جائے گی تجھ پر تری دنیا کی حقیقت

عبرت کے لیے ڈھونڈ کسی شاہ کی تربت

پوچھ اس سے کدھر ہے تیری شانِ حکومت

کل تجھ میں گھڑا تھا جو غرور آج کہاں ہے

اے کاسہ ء سر بول، تیرا تاج کہاں ہے؟

وقار خان

لکھاری ایک فری لانس جرنلسٹ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔