لائف اسٹائل

ثانیہ سعید: تھیٹر کے عروج کے لیے سرگرم

ہمیں اپنے مقصد کی حمایت کرنی چاہئے اور اس کے لیے کم از کم ایک دوسرے کے ڈراموں کو دیکھنے کے لیے جانا چاہئے۔

پاکستان کی معروف اداکارہ ثانیہ سعید نے ڈان کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے اپنی شخصیت ، اداکاری اور تھیٹر وغیرہ کے تجربات کے حوالے سے بات کی اور جن سے ان کے کردار کے نظروں سے اوجھل پہلو ابھر کر سامنے آتے ہیں۔

شوقیہ یا غیرپیشہ ور تھیٹر کے ساتھ اپنے کام کے تجربے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہیں"ہم نے معیار پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا مگر پھر بھی ہم سب نے کم از کم اس تجربے سے بہت کچھ سیکھا"۔

اگرچہ ثانیہ کھلے دل کی مالک ہیں مگر پھر بھی اپنے مقصد کے ساتھ وہ پرفیکشن یا کمالیت کو ترجیح دیتی ہیں"پرفیکشن ازم کسی بھی کام کے لیے وہ کوشش ہوتی ہے جو آپ اپنی بہترین صلاحیت کے ساتھ کرتے ہیں، ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ کئی بار جب ہم اپنی بہترین کوشش کرتے ہیں تو چیزیں ایسی نہیں ہوپاتی جیسی ہم چاہتے ہیں، ہمارے کام میں مختلف مقامات سے آنے والی مختلف توانائیاں شامل ہوتی ہیں، اس میں بہت متعدد افراد کا حصہ ہوتا ہے، مگر بطور اداکار اور ایک انچارج کے طور یہ میری ذمہ داری ہے کہ اپنی صلاحیت کا ایک سو دس فیصد حصہ لگادوں اور پھر فیصلہ قسمت پر چھوڑ دوں، پھر حالات میں تبدیلی آتی ہے تو کوئی بات نہیں"۔

اپنے حالیہ کوپی کیٹ پروڈکشنز کے ڈرامے میں اداکارہ بنوں گی میں اپنے کردار کے حوالے سے بتاتے ہوئے ثانیہ نے کہا کہ انہوں نے ناظرین کی پہلی صف میں بہت سنجیدہ نظر آنے والے بزرگ شخص کو دیکھا"اس وقت جب سب لوگ ڈرامے کو دیکھتے ہوئے قہقہے لگارہے تھے ، ان بزرگ شخص کے چہرے پر بمشکل ہی مسکراہٹ دوڑ رہی تھی، جب ہمیں پرجوش خراج تحسین مل رہا تھا تو وہ بزرگ میرے پاس آئے اور کہا کہ وہ برسوں سے ڈرامے دیکھ رہے ہیں مگر اس سے زیادہ مزہ انہیں پہلے کبھی نہیں آیا، ان الفاظ نے مجھے حیرت زدہ کرکے رکھ دیا"۔

سوال: ایک تھیٹر گروپ کے ساتھ کام کرنے میں کمرشل مفادات بھی وابستہ ہیں؟

ثانیہ سعید"کتھا کو ہمیشہ سے ہی اچھے ناظرین حاصل رہے ہیں، حالیہ پرفارمنسز کے دوران ہمیں اوسط دور کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ یہ نیا گروپ زیادہ کمرشل مفادات رکھتا ہے، مگر ڈراموں میں ماسوائے اداکاروں کے، کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے"۔

انہوں نے مزید کہا"وہ بھی جانتے ہیں کہ وہ کیا حاصل کررہے ہیں، یہاں ایسے قوانین موجود ہیں جن پر کتھا میں ہمیشہ عمل کیا جاتا ہے، اسی طرح شاہد شفقت اور میں ہمیشہ ہی طے کردہ معیار کے پابندی رہتے ہیں، ہم مزید بہتری بھی لاسکتے ہیں مگر ایسا ریہرسلز سے ہی ممکن ہے، ہم کچھ ایسا نہیں کرنا چاہتے جو ہمیں مضحکہ خیزی کی جانب لے جائے، اگر کوئی چیز راستے سے ہٹ کر ہوگی تو میں اسے کردار کی سوچ کے مطابق محسوس کرنے کی کوشش کروں گی چاہے وہ مزاحیہ ہی کیوں نہ ہو، میں اسے کروں گی، آپ کرداروں کو بدل سکتے ہیں مگر ان کو اچھے طریقے سے پیش کرنا ریہرسل سے ہی ممکن نہیں، براہ راست نہیں اور خاص طور پر پرفارمنس کے دوران تو ایسا بالکل ممکن نہیں"۔

انہوں نے کہا"اگرچہ گروپ(کوپی کیٹس) کو کچھ تحفظات تھے مگر پھر اس نے اس بات کو سمجھا کہ کچھ چیزوں پر ہم کسی صورت سمجھوتا نہیں کریں گے، انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ تخلیق کا کام کا ذمہ سنبھالیں گے کیونکہ ہم اپنے کام سے واقف ہیں، میرا ماننا ہے کہ غیرپیشہ ور افراد کے ساتھ اس طرح مشترکہ کام کیا جانا چاہئے تاکہ ہم تجربے کو شیئر کرسکیں"۔

ان کے بقول"میرے خیال میں یہ ایک توازن ہے جس کا خیال ہر فنکار کو رکھنا چاہئے، ہم سب فنکار ہیں، چاہے مصور ہو، اداکار یا لکھاری، سب جذبات کا اظہار اپنے انداز میں کرتے ہیں اور ایک ہی جیسی چیزیں نئے انداز میں پیش کرتے ہیں، ہم جذبات کو مختلف انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر ناظرین اسے پسند کریں تو یہ زبردست ہوتا ہے، اور اگر وہ ناپسند کریں تو پھر اس پر بحث کا آغاز ہوتا ہے، تو یہ کامیابی یا ناکامی نہیں مگر جب کمرشل خدشات ہو تو زیادہ دھچکا بھی لگ سکتا ہے"۔

کتھا کے بارے میں ثانیہ نے بتایا کہ انہوں نے کبھی کمرشل کامیابی کا پیچھا نہیں کیا"متعدد بار ہم مایوس ہوئے مگر ہماری زیادہ دلچسپی اس حقیقت پر تھی کہ آرٹ کو پروموٹ کرنا ہے، مجھے اپنے دیکھنے والوں کو باشعور بنانا ہے اور میرا اعتماد مسلسل بڑھا ہے"۔

سوال: تھیٹر کا ارتقا؟

ثانیہ" موجودہ دور کا تھیٹر تنوع کے لحاظ سے ارتقائی مراحل سے گزر رہا ہے، ناپا اپنے انداز کا کام کررہا ہے، شیما کرمانی کا اپنا رنگ ہے، کوپی کیٹس پروڈکشن کچھ الگ ہے اور کتھا بھی اکثر تھیٹر ڈرامے کرتا رہتا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ متعدد افراد بھی یہ کام کررہے ہیں تو دیکھنے والوں کے انتخاب کے مواقع بڑھ گئے ہیں" ناظرین بھی اس عمل کے دوران باشعور ہوئے ہیں، وہ رقم اور وقت صرف کرکے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس ڈرامے کو پسند کرنا چاہئے یا نہیں، وہ پہلے سے ہی ذہن بناکر نہیں آتے اور ڈرامے کو دیکھتے ہوئے دس منٹ بعد ہی باہر نہیں نکل جاتے، وہ غلط مواقعوں پر تالیاں یا ہنس کر ڈائیلاگ کو مس کردیتے ہیں مگر یہ سب سیکھنے کے عمل کا حصہ ہے"۔

سوال"حقیقی ڈراموں کی کمی؟

ثانیہ"ہم نے کتھا میں کئی حقیقی ڈرامے کیے ہیں، مجھے کبھی بھی مطابقت اختیار کرنے میں مشکل کا سامنا نہیں ہوا اور میں نے جانا ہے کہ بحث کافی فائدہ مند ہوتی ہے، تھیٹر کے ڈرامے تحریر کرنا کافی پیچیدہ کام ہوتا ہے، یہ ایک مشکل سرکل ہے، کیونکہ لکھنے والوں کے لیے تھیٹر کا حصول بھی مشکل ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ متعدد لکھاریوں نے ٹیلیویژن کا رخ کیا ہے'۔

انہوں نے مزید بتایا کہ یہ سب بیک وقت ہورہا ہے اور اور میں تبدیلی کے لیے وقت درکار ہوگا"اردو ادب میں ڈرامے تحریر کرنا کوئی مضبوط صنف نہیں، یہاں تک کہ ہندوستان میں بھی جہاں تھیٹر زیادہ متحرک ہے، اس کے مقابلے میں ہم ابھی تک یہ طے نہیں کرسکے کہ ہمیں تھیٹر کرنا چاہئے یا نہیں، ہم تھیٹر پر مکمل طور پر یقین نہیں رکھتے کہ یہ سماجی طور پر قابل قبول ہے یا نہیں، کیا یہ کمرشلی طور پر فائدہ مند ہے یا نہیں، تو ہمیں دیکھو اور انتظار کی پالیسی پر عمل کرنے کی ضرورت ہے"۔

آخر میں ثانیہ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ تھیٹر پروفیشنل بھی دیگر افراد کے کام کے بارے میں بہت جلدی میں فیصلے کرلیتے ہیں" میں اس چیز کو پسند نہیں کرتی، میں ہر ایک کی پرفارمنس دیکھتی ہوں، میرا ماننا ہے کہ ہمیں اپنے مقصد کی حمایت کرنی چاہئے اور اس کے لیے کم از کم ایک دوسرے کے ڈراموں کو دیکھنے کے لیے جانا چاہئے اور مشورے دینے چاہئے، اگر وہ کوئی برا تھیٹر بھی ہے تو بھی اس کی حمایت کرنا پاکستان میں تھیٹر کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوگا"۔