نقطہ نظر

ڈرامہ ریویو : میں بشریٰ

بیٹی اللہ کی رحمت ہے مگر اولاد نرینہ کی خواہش ہمارے معاشرے کی وہ سفاک سوچ ہے جس نے کئی زندگیوں کو عذاب بنا کر رکھ دیا ہے

رب تعالیٰ نے بیٹی کو رحمت کہہ کر مخاطب کیا ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ بیٹی کی پیدائش کی خبر آج بھی اس کے والدین کے لیے ایک مسلسل پریشانی اور بے شمار خدشات کا پروانہ ہوتی ہے-

مگر کیا واقعی والدین کے لئے بیٹیاں بوجھ ہوتی ہیں؟ دراصل والدین کبھی بیٹی کے وجود سے نہیں گھبراتے ہاں مگر اس کے نیک نصیب کی دعا کرنا کبھی نہیں بھولتے کیونکہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں زندگی میں آنے والی پریشانیوں کی ذمہ دار ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی صورت میں ایک لڑکی کا ہی نصیب ہوتا ہے-

یہ ہمارے معاشرے کی وہ سفاک سوچ ہے جس نے لاتعداد لڑکیوں کی زندگیوں کو ایک مسلسل عذاب بنا کر رکھ دیا ہے-

بدنصیبی کے طعنے ان کی شخصیت اور اعتماد کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں اور جب باپ لڑکی کے نصیب سے نالاں ہو تو زندگی ایک نہ ختم ہونے والی سزا لگنے لگتی ہے-

یہی وہ مرکزی خیال ہے جو ڈرامے 'میں بشریٰ' میں پیش کیا گیا ہے یہ ایک ایسی لڑکی (ماورہ حسین) کی زندگی کے گرد گھومتا ہے جو اپنے والدین (صبا حمید) اور (وسیم عباس) کی تیسری بیٹی ہوتی ہے۔

جس کا نام اس کے باپ نے بشریٰ (خوشی کی خبر) محض اس لئے رکھا ہوتا ہے کیونکہ بشریٰ کے بعد وہ اولاد نرینہ کا خواہشمند ہوتا ہے مگر بشریٰ کے بعد مسلسل چار لڑکیوں کی پیدائش سے نہ صرف اس کی لڑکے کی خواہش پر پانی پھر جاتا ہے بلکہ اس کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔

جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ناصر (وسیم عباس) بشریٰ کو اپنی منحوس اور بدنصیب بیٹی تصور کرنے لگتا ہے۔

بشریٰ ہمیشہ اس احساس جرم میں گرفتار رہتی ہے کہ اس کی بدنصیبی کی وجہ سے (ناصر) بیٹے سے محروم ہے اسی احساس کے بوجھ تلے دب کر بشریٰ ہروہ کام کرتی ہے جو ناصر کی بیٹے کی کمی کو پورا کرسکے۔

اس کے برعکس بشریٰ کی ماں کو اس سے کافی امیدیں وابستہ ہیں وہ ہمیشہ بشریٰ کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور یقین دلاتی ہیں کہ ایک دن ضرور وہ اپنے باپ کا سہارا بنے گی اور وہ ناصر کی ناراضگی دور کرسکے گی-

کہانی آگے بڑھتی ہے جب بشریٰ کی بڑی بہن فضا کا شوہر دوسری شادی کرلیتا ہے اور اسے ہمیشہ کے لئے ناصر کے گھر واپس بھیج دیتا ہے، اسی دوران بشریٰ کی دوسری بہن کی شادی کی تیاریاں عروج پر ہوتی ہیں، ان حالات میں ناصر کے لئے زندگی کا دائرہ مزید تنگ ہوجاتا ہے-

بے شمار اخراجات اور ذمہ داریوں کا بوجھ اسے مزید چڑچڑا کر دیتے ہیں، ایسے میں گھر کے ماحول کو ٹھیک رکھنے کی خاطر بشریٰ کی ماں اسے آفس سے لون لینے کے لئے کہتی ہے مگر بشریٰ کی بے انتہا کوشش کے باوجود آفس والے اس کی لون کی درخواست کو نامنظور کردیتے ہیں۔

بشریٰ پہلے ہی دلبرداشتہ گھر میں داخل ہوتی ہے اس پر ناصر کے طعنے کہ بشریٰ کبھی اس کا سہارا نہیں بن سکتی اس کی مایوسی میں مزید اضافہ کردیتے ہیں۔

بشریٰ کی زندگی میں امید کی کرن پیدا ہوتی ہے جب بشریٰ کو ایک اچھی فرم سے انٹرویو کال آتی ہے اور اپنی قابلیت کی بنا پر وہ یہ جاب حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے اس کا باس (موسیٰ) اس کی کارکردگی سے کافی خوش ہوتا ہے اور بہت کم وقت میں بشریٰ کا پرموشن بھی ہوجاتا ہے-

آفس میں بشریٰ کی ملاقات فیصل قریشی (فراز) اور عفان وحید (شایان) سے ہوتی ہے جو کہ آپس میں کزن اور موسیٰ کے دوست کے بیٹے ہوتے ہیں۔

کہانی میں مزید دلچسپی اس وقت پوتی ہے جب ایک طرف بشریٰ کی عزیز سہیلی خودکشی کرلیتی ہے اور اس کی ایک عدد بچی کی پرورش کا ذمہ بشریٰ اٹھا لیتی ہے اور وہیں دوسری جانب فراز اور شایان دونوں ہی بشریٰ کے امیدوار نظر آتے ہیں۔

یہ جاننا شائقین کے لئے کافی دلچسپ ہوگا کہ بشریٰ شایان یا فراز کس سے شادی کر کے اپنی بدقسمتی کے طعنوں کو جھوٹا ثابت کرتی ہے۔

ڈرامے میں اگرچہ ضرورت سے زیادہ افراد کو کاسٹ کیا گیا ہے اور کئی کی پرفارمنس تو کافی ناقص ہے تاہم ماورہ نے بحیثت اداکار بشریٰ کے کردار کو اپنی صلاحیت سے جان بخشی ہے ان کی یہ کوشش قابل ستائش ہے-


ڈرامے کے مرکزی کرداروں میں فیصل قریشی، صبا حمید، وسیم عبّاس، شہریار زیدی اور ماورہ حسین شامل ہیں۔

صنم مہدی نے اس ڈرامے کو تحریر کیا ہے جب کہ اس کے ڈائریکٹر احمد بھٹی ہیں۔

یہ ڈرامہ ہر جمعرات کی شب 8 بجے اے آر وائی ڈیجیٹل پر نشر کیا جاتا ہے اور اب تک اس کی 10 ااقساط نشر جا چکی ہیں۔

نبیہہ رضوی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔