عمران خان کی پانچ غلطیاں
ایک ایسے وقت میں جب ہماری سیاست بری سے بدتر، اور چیزیں پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتی جارہی ہیں، عوام ایک سچے اور ایماندار لیڈر کے لیے ترس رہے ہیں۔ کئی لوگوں کے لیے عمران خان ہی وہ سچے اور ایماندار لیڈر ہیں۔
عمران خان کی سی وی میں موجود کئی چیزوں نے انہیں دوسروں سے ممتاز کردیا ہے۔ کئی لوگوں کے نزدیک ان کی سیاسی اور سماجی شخصیت بے داغ ہے، اور ان کے چاہنے والوں میں ان کے کرکٹ مداحوں کی بڑی تعداد کا شامل ہونا بھی ایک بونس ہے۔
لیکن لوگوں اور عمران خان دونوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے، کہ کئی چیزیں عمران خان کو اگر اپنے موقف سے پھر جانے والا نہیں، تو تضادات سے بھرا ہوا ضرور دکھاتی ہیں، اور ان کے کچھ فیصلے ان کے پچھلے فیصلوں کے برخلاف ہوں گے، اور ایسا ہوا بھی ہے۔
میرے پاس عمران خان یا کسی اور سیاستدان کے خلاف اس بارے میں کہنے کے لیے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ میں ان تمام لوگوں کو ہی ملک چلانے کے لیے نااہل سمجھتا ہوں۔
دارالحکومت میں جاری ان طویل دھرنوں نے دونوں ہی فریقوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ہے۔ شریف برادران اب بھی اپنا شاہانہ طرزِ حکومت جاری رکھے ہوئے ہیں، اور لوگ اب اس بات کو آہستہ آہستہ سمجھنے لگے ہیں کہ اس چیز کا کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ وہی سب سماجی برائیاں ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہیں، اور پاکستان اسی مقام پر واپس پہنچ جائے گا جہاں وہ اپنے ہی لوگوں سے خطرے میں ہوگا۔
لیکن آخر ایسا کیا ہوا ہے کہ عمران خان جو عوام میں اس قدر مقبول تھے، صرف پچھلے تین مہینوں میں اب طاقت کے حصول کے لیے لڑتے ہوئے ایک اور سیاستدان بن گئے ہیں؟ میں اس کے لیے صرف پانچ واضح نکات سامنے رکھتا ہوں۔
1۔ آزمائے ہوئے سیاستدانوں کو دوبارہ آزمانا
عمران خان کی سب سے پہلی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے پارٹیاں اور وفاداریاں تبدیل کرنے میں شہرت رکھنے والے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کیا۔ وہ اب بھی ان لوگوں سے گھرے ہوئے ہیں جو انہیں تنہا چھوڑ کر کسی بھی وقت اپنی راہ تبدیل کرسکتے ہیں، اور وہ بھی ایسے وقت میں جب پی ٹی آئی کے کئی ممبرانِ قومی اسمبلی مبینہ طور پر ان کے خلاف ہوتے جارہے ہیں۔
پڑھیے: ناراض پی ٹی آئی اراکین نے نیا گروپ بنا لیا
اس وقت پی ٹی آئی اپنے آپ میں تقسیم ہوچکے ایک گھر کی مانند ہے، اور اگر یہ بھی کافی نہیں تھا، تو اس حقیقت کی جانب بھی نظر کیجیے، کہ اس نے جماعت اسلامی کے ساتھ ہاتھ ملایا ہے، جو اس سے متنازع اقدامات کرا رہی ہے۔ نصاب میں تبدیلی سے لے کر طالبان سے مذاکرات تک، جماعت اسلامی نے پی ٹی آئی کا مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔
2۔ وقت سے پہلے بہت زیادہ کی خواہش
بہت کم لوگوں کے ہی خواب و خیال میں یہ بات ہوگی، کہ عمران خان سیدھا نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کر بیٹھیں گے۔ اس اقدام پر ہر صورت میں ذاتی انتقام کا لیبل لگنا ہی تھا۔
سیاست میں صبر و تحمل، اور قدم قدم پر پلاننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اکھاڑے میں داخل ہونے سے پہلے ہی حریف کو گرایا نہیں جاسکتا۔
عمران خان ایک عرصے سے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ الیکشن میں کتنے بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی، اور وہ الیکشن نتائج کے اعلان کے فوراً بعد سے ہی دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن کوئی فائدہ نہیں۔
انہوں نے دوبارہ انتخابات کا ایک پلیٹ فارم بنایا اور پھر اسے ضائع کردیا۔
مزید پڑھیے: سیاسی گرما گرمی، اور فرشتوں کا کھیل
انہیں دوبارہ انتخابات، یا وسط مدتی انتخابات کے اپنے مطالبے پر قائم رہنا چاہیے تھا، لیکن نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ بہت ہی قبل از وقت تھا۔ اس مطالبے کی وجہ سے مظاہروں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے، جو عمران خان اور ان کے حامیوں کے لیے مایوسی کا باعث ہے۔
3۔ سول نافرمانی کا اعلان
یہ کتنا کارآمد رہا، یہ اس مہم کو دیکھ کر اچھی طرح معلوم کیا جاسکتا ہے۔ پہلے سے ہی تباہی کے دہانے پر پہنچی ہوئی معیشت کو ایک قومی سول نافرمانی کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کے علاوہ جب ریاست ٹیکس نہ دینے کے باعث بنیادی سہولیات بند کرتی، تو لوگ مزید غصے میں آجاتے۔
ایسا نہیں ہے کہ سول نافرمانی کی تحاریک کارآمد نہیں ہوتیں، بلکہ صرف اتنا ہے، کہ اس سول نافرمانی کے لیے نہ ہی مطلوبہ شدت تھی، اور نہ ہی کئی مضبوط وجہ۔ عمران خان نے مایوسی کے عالم میں بہت سارے پتے ایک ساتھ کھیل لیے۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ انہیں کس وقت بریک لگانے ہیں اور چیزوں کو ٹھنڈا کرنا ہے۔
مزید پڑھیے: عمران خان آزادی مارچ میں شرکا کی تعداد پر ناخوش
4۔ اسمبلیوں سے استعفوں کے معاملے پر ضد
عمران خان نے ہمیشہ میانہ رو اور سمجھدار سیاستدان کا کردار ادا کیا تھا، لیکن پی ٹی آئی کے پارلیمنٹیرینز سے استعفے طلب کر کے انہوں نے اپنے اتحادیوں اور دوستوں کو دشمنوں میں تبدیل کرلیا ہے۔
کچھ ممبرانِ قومی اسمبلی نے ان کا یہ مطالبہ تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کیونکہ ان کے نزدیک عمران خان کی وجہ سے ہی وہ اسمبلی میں پہنچے ہیں۔ کچھ نے اپنی رائے کو دبا کر کمپرومائز کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن کچھ نے تو صاف الفاظ میں ان کے اس بے بنیاد مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے کہا، کہ پی ٹی آئی اپنے آپ میں تقسیم ہوتا ہوا گھر ہے، اور عمران خان کا نقصان شریف برادران کا فائدہ ہوگا۔
5۔ ایک بے فائدہ خواہش کے لیے طویل جدوجہد
حکومت مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ پی ٹی آئی کی پارلیمنٹ میں مضبوط نمائندگی ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس ایک اور اچھا موقع ہے کہ وہ مڈ ٹرم انتخابات، اور اس میں شفافیت کے لیے پارلیمنٹ کے ذریعے مطالبہ کرے۔ اس میں دو مہینوں سے جاری دھرنوں، مظاہروں، اور ریلیوں سے کم ہی توانائی لگے گی۔
عمران خان اس بات کو کیوں نہیں سمجھ رہے، کہ دھرنے لاحاصل ہیں؟ وہ آخر کرنا کیا چاہ رہے ہیں؟ شریف برادران نے اپنا سیاسی غلبہ دوبارہ حاصل کرلیا ہے، جبکہ پی ٹی آئی کے اپنے ہی لوگ بکھرنا اور ایک دوسرے سے جھگڑنا شروع ہوگئے ہیں۔
مزید پڑھیے: استعفوں کا کھیل
اگر وہ مزید نقصان سے بچنا چاہتے ہیں، تو انہیں اپنی اسٹریٹجی تبدیل کرتے ہوئے حکومت کے ساتھ تصفیہ کرنا ہوگا، کیونکہ اب انہوں نے تمام آپشن استعمال کرلیے ہیں، یہاں تک کہ ملٹری انٹیلیجنس اور آئی ایس آئی کو بھی بیچ میں لانے کا مطالبہ کردیا ہے، اور اب ان کے پاس کوئی آپشن باقی نہیں بچا ہے۔
اب صرف کچھ وقت کی ہی بات ہے کہ عمران خان کی ہمت بالکل طاہرالقادری کی طرح جواب دے جائے گی۔ لیکن پھر بھی میں اس بات کا بے چینی سے انتظار کر رہا ہوں کہ وہ 30 نومبر کے بعد کیا کریں گے۔
لیکن اس وقت جاری منظرنامے کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ سیاست کا یہ طریقہ ان کے مقاصد کو حاصل کرنے میں مدد نہیں کرے گا۔
میں اپنے آپ کو کوئی سیاسی ماہر، یا عمران خان سے نفرت کرنے والا نہیں سمجھتا۔ لیکن ایک غیرجانبدار نظر سے دیکھتے ہوئے یہ کچھ چیزیں ہیں جنہیں میں نوٹس کیے بغیر نہیں رہ سکا۔ میں نے خود پی ٹی آئی کو ووٹ دیا کیونکہ میں عمران خان کو اس لیے بہتر سمجھتا ہوں کیونکہ انہیں پہلے کبھی آزمایا نہیں گیا ہے۔
اگر مڈ ٹرم انتخابات ہوتے ہیں، اور عمران خان اس میں معجزانہ طور پر جیت بھی جاتے ہیں، تو ان سے میری اونچی امیدیں وابستہ ہوجائیں گی۔
لیکن پھر بھی وہ اس کھیل میں نئے ہیں، اور انہیں اس میں مہارت حاصل کرنے کے لیے اچھی طرح سیکھنا ہوگا۔
لکھاری فری لانس رائٹر اور الیکٹرکل انجینیئر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔