منتھلی کا چکر
جب پرویز مشرف نے جوشِ آمریت میں پہلی دفعہ افتخار چوہدری (جو بعد میں افتخارِ پاکستان بنے) کو برطرف کیا تو کسی رکشہ ڈرائیور نے ایک سطر کا بڑا سیر حاصل تبصرہ کیا، ’’بھائی صاحب! منتھلی (monthly) کا چکر ہو گا‘‘۔ یہ تبصرہ ایک عام شہری کی نظر میں پاکستانی حکمران طبقے کے کردار کی خوبصورت عکاسی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے اپنے ارد گرد ہر جگہ حکومت سے منسلک لوگوں کی منتھلیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔
ویسے بھی چوٹی کے ریاستی عہدوں اور عہدے داروں کومنتھلیوں کے اس گھن چکر سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا، ہاں البتہ شکلیں مختلف اور گھناؤنی ہوتی ہیں۔ اب پرویز مشرف اور افتخار چوہدری والے معاملے میں سٹیل مل کی بے رحمانہ بلکہ بہیمانہ نجکاری کے خلاف فیصلے کا بھی تھوڑا بہت عمل دخل بتایا جاتا ہے۔ منتھلی تو کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شکل میں طے ہو گی تبھی تو پرویز مشرف مبینہ طور پر اس فیصلے پر اتنے سیخ پا ہوگئے تھے۔
منتھلی اور بیوروکریٹ کا رشتہ بہت گہرا ہے۔ ہمارے بیوروکریٹس کی زندگی میں منتھلی کے چکر کی اہمیت اتنی ہی ہے جتنی ہندواور بدھ مذاہب میں کرم کے چکر کو ہے۔ نہ صرف دنیا بھر میں بیوروکریسی کی کرپشن ایک مسئلہ ہے بلکہ تاریخی طور پر بھی یہ مسئلہ ہر ریاست کو درپیش رہا ہے۔ ہماری اپنی تاریخ میں بھی بیوروکریسی کی کرپشن ایک بڑا مسئلہ رہی ہے۔ مثلاً برصغیر کے نامور ماہر سیاسیات چانکیہ نے تیسری صدی قبل مسیح میں ارتھ شاسترا کے نویں باب میں بیوروکریسی کے کردار کا جائزہ لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح پانی میں تیرتی ہوئی مچھلی کے بارے میں جاننا مشکل ہے کہ اس نے کتنا پانی پیا ہے اسی طرح بیوروکریٹس کے بارے میں معلوم کرنا بہت مشکل ہے کہ ریاست کے لیے ٹیکس اکٹھے کرتے ہوئے وہ کتنے پیسے اپنی جیب میں ڈال لیں۔
پڑھیے: ایک سیاست زدہ سول بیوروکریسی
بیوروکریسی کی کرپشن ہر جگہ اور ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہی ہے لیکن ہمارے ہاں ظلم یہ ہوا کہ اسی دلیل کو ہمارے بیوروکریٹس نے جواز بنا لیا ہے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ باقی ملکوں اور تاریخ کی پرانی ریاستوں میں بھی کرپشن کی سطح یہ نہیں ہو گی جس کے ریکارڈ انہوں نے قائم کیے ہیں۔
پھر ہمارے چھوئی موئی قسم کے بیوروکریٹس کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ بُرا بہت جلدی اور بہت زیادہ مناتے ہیں، خصوصاً سی ایس ایس حضرات۔ رینکر لوگ اور پی سی ایس پاس لوگ کرپشن کی بات پر اتنا سیخ پا نہیں ہوتے، اس لحاظ سے وہ کافی حقیقت پسند ہیں۔ وہ کرپٹ ہیں تو بس ہیں! لیکن سی ایس ایس حضرات خود کو کافی نیک پارسا سمجھتے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ زمینی حقائق ان کی اس خود ستائی سے زیادہ مطابقت نہیں رکھتے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ بہت سے سی ایس ایس افسر ابتدائی سالوں میں بچے رہتے ہیں، بچنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر ’’محتاط‘‘ رہتے ہیں لیکن یہ ’’بیچ بچاؤ‘‘ زیادہ دیر تک چلتا نہیں ہے۔
کچھ دوستوں کے بارے میں اطلاعات ملتی رہتی ہیں جو ابھی تک ’’نا سمجھ‘‘ ہیں، اور زیادہ تر پریشان حال ہیں۔ چند روز پہلے ایک ’’نا سمجھ‘‘ دوست جو ڈی سی انکم ٹیکس ہے، کے بارے میں علم ہوا کہ اس کے ’’سمجھدار‘‘ کمشنر نے اس سے تقریبا تمام ’’اہم‘‘ چارج واپس لے لیے ہیں۔ جو سرکاری گھر اس نے بڑی ’’محنت‘‘ سے سیٹ کیا تھا، اس پر ایک ’’سمجھدار‘‘ ایڈیشنل کمشنر ہاتھ صاف کر چکے ہیں۔ ’’نا سمجھ‘‘ دوستوں کا کہنا ہے کہ محکمہ انہیں ’’سمجھدار‘‘ بنانے پر تُلا ہوا ہے۔
کافی عرصے سے اچھی ریکوری کرنے والے افسروں کے لیے مراعات کی پالیسی منظور ہو چکی ہے، لیکن سینیئر کرپٹ مافیا اس پر عمل نہیں ہونے دیتی کیونکہ اگر جونیئر افسران ریکوری اچھی کر کے حکومت سے مراعات لیں گے تو ان کے لیے ریکوری کیسے ہو گی؟ ایف بی آر میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی سود خوری کے تقاضوں کے تحت کمپیوٹر آگیا ہے، سو بہت سے لوگوں کے لیے مال بنانا تھوڑا مشکل ہو گیا ہے کیونکہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے مال پر ہاتھ صاف کرنا اتنا آسان نہیں جتنا حکومتِ پاکستان اور عوام پاکستان کے مال پر۔
کئی لوگوں کو کفِ افسوس ملتے ہوئے دیکھا کہ ’’حالات دن بدن خراب ہی ہوتے جا رہے ہیں‘‘۔ مطلب وہ فائلوں والی بہاریں اب نہیں رہیں جن کے بابو لوگ کسی زمانے میں بادشاہ ہوا کرتے تھے۔ سیاہ کَرتے یا سفید، اوپر نیچے والوں کا اگر مناسب خیال رکھنے میں کوئی غفلت نہ ہوتی تو کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ کمپیوٹر پر بہت برستے ہیں، لیکن کمپیوٹر بچارے کی بھی کئی کمزوریاں ہیں۔ سب سے بڑی کمزوری تو یہ ہے کہ کمپیوٹر کو کمپیوٹر نہیں چلا سکتا، اسے چلانے کے لیے بہرحال کوئی نہ کوئی انسان درکار ہوتا ہے۔ اور جیسے ہی کوئی انسان کسی سرکاری کمپیوٹر پر بیٹھتا ہے، اس کے اندر کا بابو باہر آجاتا ہے۔
مزید پڑھیے: سول سروس میں اصلاحات کی ضرورت
چند مہینوں سے خبریں آرہی تھیں کہ ایف بی آر جو پورے پاکستان سے ٹیکس اور ویلتھ گوشوارے جمع کرتا ہے، خود اس کے اپنے بہت سے افسران گوشوارے جمع نہیں کروا رہے۔ ان گوشوارے جمع نہ کروانے والوں میں زیادہ تر سینئراور اہم عہدوں پر تعینات افسران تھے۔ صرف اسی بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایف بی آر کی بڑی بڑی مچھلیوں نے کتنا پانی پیا ہوا ہے۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اگر ان کے سامنے کرپشن کا ذکر چھڑ جائے تو بڑے دکھی لہجے میں ماتحتوں کی کرپشن کے بارے میں داستان گوئیاں شروع کر دیں گے۔
کم و بیش یہی حال صوبائی محکمے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کا ہے۔ میں خود کچھ عرصہ اس محکمے سے وابستہ رہا۔ اس محکمے کے بڑے مزے ہیں بشرطیکہ بندہ خوب کرپٹ ہو۔ پراپرٹی ٹیکس، جس کی مد میں اربوں روپے حکومت کے خزانے میں جانے چاہیئں، کا تقریباً تمام ریکارڈ جعلی ہے۔ چار پانچ سال بعد جو سروے ہوتا ہے، وہ ایکسائز کے عملے اور افسران کا مال پانی بنانے کے لیے سیزن سمجھا جاتا ہے۔ لوگوں کو اضافی ٹیکس کا جعلی نوٹس بھیج کر بلیک میل کرنا اور پھر ان سے رشوت لے کر ان کا اصل ٹیکس بھی گول کر دینا تقریباً ایک روایت بن چکی ہے جس کا تمام اہلکار و افسران از حد احترام کرتے ہیں۔
اس افسوسناک صورتحال کو ریکارڈ کمپیوٹرائز کر کے بہت بہتر کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کام میں افسران رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ جعلی ریکوری(suppression) اتنا بڑا فراڈ ہے اورفیلڈ میں جعلی ریکوری کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ الامان۔ کاغذو ں اور اخباری خبروں کی حد تک ریکوری بڑھتی ہے، لیکن زیادہ حصہ جعلی ریکوری کا ہے جو سرکاری خزانے میں کبھی جاتی ہی نہیں۔
ٹیکس انسپیکٹر سے لے کر سیکریٹری ایکسائز تک ہر کسی کو معلوم ہے کہ اربوں روپوں کی جعلی ریکوری ریکارڈ پر ڈالی جاتی ہے لیکن ہر کوئی اپنی اپنی جگہ کارکردگی دکھا رہا ہوتا ہے۔ کیا فرق پڑتا ہے کہ اگر کارکردگی جعلی بھی ہو؟ ریکارڈ کا پیٹ بھرتا ہے اور اہلکاروں و افسروں کی جیبیں، قومی خزانے کے ساتھ کیا ہوتا ہے، اس کی کسی کو فکر نہیں۔
کچھ بہتر لوگ بھی موجود ہیں لیکن وہ چل نہیں سکتے کیونکہ سارے کا سارا محکمہ ان کا دشمن بن جاتا ہے۔ عزت، احترام، عقیدت وغیرہ جیسے رشتے بڑے کمزور ہوتے ہیں، سب سے مضبوط رشتہ ’’مال پانی‘‘ کا ہے۔ اس لیے کرپشن میں لت پت بیوروکریسی میں ایمانداری بہت بڑا جرم بن جاتی ہے۔ اپنی ’’ناسمجھی‘‘ کے زمانے کے کئی قصے سنا سکتا ہوں۔ جب میں فیصل آباد میں پہلی تعیناتی کے موقع پر پہنچا تو مجھے معلوم ہوا کہ کرپٹ باس کیا چیز ہوتا ہے۔ ڈائریکٹر نے پہلے پہل تو میرے پاس ساتھی افسروں کو بھیجا جو بڑے پیار سے سمجھاتے۔
مزید پڑھیے: کرپشن کا ناسور
ایک صاحب کہنے لگے پانی کے آگے اگر بند باندھ دیا جائے تو پانی کو زیادہ عرصہ نہیں روکا جا سکتا، پانی اپنا راستہ تو بناتا ہے۔ آپ پانی کو روکیں گے تو وہ دائیں بائیں اپنا راستہ بنائے گا۔
دوسرے افسر بولے جب آپ میرے پاس دوران اعتکاف تشریف لائے تھے تو دیکھا نہیں تھا کہ میں وہاں بھی اپنی فائلیں خود سائن کرتا تھا؟
ایک ماتحت نے بظاہر بڑا معصومانہ سوال کیا ’’سر ایک بات تو بتائیں، اگر ایک بس فیصل آباد سے لاہور جا رہی ہو، سارے مسافر لاہور کے ہوں، ڈرائیور بھی بس کو لاہور لے جا رہا ہو، ایک شخص اکیلا اس کو چک جھمرے کی طرف موڑ سکتا ہے؟‘‘
یہ ہے اس ماحول کی ایک اندرونی جھلک جو ہمارے چھوئی موئی سے اور دودھ دھلے بابوؤں نے سرکاری محکموں میں پیدا کیا ہوا ہے، جس کے لیے یہ معاشرے سے ستائش کے خواہاں ہیں۔ یہاں پر کئی سوال جنم لیتے ہیں۔ کیا پاکستان ان خطوط پر مزید چل کر اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے؟ کیا بابو لوگوں کی پکڑ کیے بغیر سرکاری محکموں کے ماحول کو بدلا جا سکتا ہے؟ بیوروکریٹس اپنا احتساب خود تو کبھی نہیں کریں گے تو پھر ان کا احتساب کون کرے گا؟
عدنان رندھاوا ایک فری لانس کالم نگار، سابق سفارتکار اور عام آدمی پارٹی پاکستان کے بانی چئیرمین ہیں، اور وکالت کے پیشے سے منسلک ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔