پاک-امریکا نازک تعلقات
پچھلے 13 سال سے امریکہ اور پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کے اتحادی ہیں، لیکن اس پورے عرصے میں وہ ایک دوسرے سے مطمئن نہیں ہوپائے ہیں۔ دونوں ہی یہ سمجھتے ہیں کہ دوسرا فریق مخلص نہیں ہے اور زیادہ سے زیادہ مطالبات کر رہا ہے۔ کئی لوگوں نے اس دوران یہ سوال کیا، کہ کیا دونوں ممالک کے تعلقات میں آنے والے اس اتار چڑھاؤ کی کوئی حقیقی وجہ بھی ہے؟
اس معاملے میں بااثر افراد کا یہی کہنا ہے کہ ہاں، اور وجہ افغانستان ہے۔
اس کے بعد قدرتی طور پر ایک اور سوال پوچھا جارہا ہے، وہ یہ کہ اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلا، اور مغرب کی توجہ دوسرے چیلنجز کی جانب مبذول ہونے کے بعد کیا امریکہ کو پاکستان کی ضرورت رہے گی؟ پاکستان میں کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ ان لوگوں کے مطابق امریکہ نے ہمیں 1989 میں بھی چھوڑ دیا تھا، اور اب ایک بار پھر وہ یہی کرنے جارہا ہے۔
اس کے علاوہ واشنگٹن میں بھی جن لوگوں نے پاکستان کے ساتھ پچھلی دہائی میں پروفیشنلی کام کیا ہے، وہ اب تھک چکے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ پاکستان کے اسٹریٹیجک نظریات کو تبدیل کرنے کے لیے بہت کوشش کی گئی ہے لیکن بدلے میں صرف کھوکھلے وعدے ہی ملے ہیں۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ امریکی ٹیکس دہندگان کے اربوں ڈالر اسلام آباد پر ضائع ہوچکے ہیں۔
واشنگٹن میں موجود ماہرین کا ایک بااثر گروپ یہ سمجھتا ہے کہ اب پاکستان کے ساتھ اب سختی کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں تک کہ متوازن نقطہ نظر بھی یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ جب ایک دفعہ امریکہ کے لیے افغانستان کے لیے براستہ پاکستان سپلائی روٹس کی اہمیت باقی نہ رہے، تو اسے افغانستان میں، اور دہشتگردی کے خلاف عدم تعاون پر پاکستان کے لیے سختی کرنے کی ضرورت ہے، اور وہ ایسا ہی کرے گا۔
تو کیا ہم ایک بار پھر تعلقات کے خاتمے کی جانب بڑھ رہے ہیں؟ یا کم از کم ایک دوسرے سے دشمنی ہی کی جانب؟ شاید نہیں۔ اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی قیادت نے دنیا کو اچھی طرح ان نتائج سے خوفزدہ کردیا ہے، جو پاکستان کے ناکام ہونے کی صورت میں دنیا کو جھیلنے پڑ سکتے ہیں۔
اور اس بات سے بھی اختلاف ممکن نہیں، کہ پاکستان کے منفی تاثر کو عالمی میڈیا نے بہت ہی بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے، اور اس میں پاکستان کی اپنی بھی غلطی ہے۔
پچھلے 13 سالوں میں اسلام آباد کی جانب سے واشنگٹن کو بھیجے گئے پیغامات کو دیکھیں، تو آپ دیکھیں گے کہ سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا گیا ہے کہ دہشتگردی کے خطرے سے بھرپور طور پر نمٹنے کے لیے قابلیت کی کمی ہے؛ یہ کہ چیلنج بہت ہی سخت ہے، اور واشنگٹن کے لیے اس وقت کی حکومت، اور خاص طور پر ملٹری کی سپورٹ کرتے رہنا کیوں ضروری ہے۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ صرف ملٹری ہی وہ ادارہ ہے جو دہشتگردوں کو ریاست پر قبضہ کرنے سے روک سکتا ہے، اور ایٹمی اسلحے کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔
مصالحت کاروں کو بار بار یہ یاد دلایا گیا، کہ اگر واشنگٹن نے ایک بار پھر اسلام آباد سے ہاتھ اٹھایا، تو پاکستان میں امریکہ کے بارے میں منفی تاثرات مزید بگڑیں گے۔
واشنگٹن اس نظریے کے صرف ان حصوں کو تسلیم کرتا ہے، جو اس تعلق کو بنائے رکھنے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔ واشنگٹن یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کے لیے اس کی سپورٹ اہم نتائج کی حامل ہے، پاکستانی ریاست کی ناکامی کوئی خیالی بات نہیں، اور اگر پاکستان کو اکیلا چھوڑ دیا گیا تو اس کے امکانات مزید بڑھ جائیں گے، اور یہ کہ پاکستان بھلے ہی امریکی نقطہ نظر سے کتنا ہی برا پارٹنر ہے، لیکن دوسرے تمام متبادل اس سے بھی زیادہ برے ہیں۔
کوئی بھی یہ بات نہیں مانتا کہ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ پارٹنرشپ میں اپنی ذمہ داری مخلصانہ طور پر نبھائی ہے، کوئی بھی اس کی طرفداری نہیں کرنا چاہتا، لیکن اگر واشنگٹن میں ہونے والی باتوں کو غور سے سنیں، تو آپ کو یہ بھی اندازہ ہوگا کہ کوئی بھی وہ نتائج بھگتنا نہیں چاہتا، جو پاکستان کی سپورٹ ختم کردینے سے سامنے آسکتے ہیں۔
جس مقام پر چیزیں آج موجود ہیں، یہ یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ کی سویلین امداد اور سپورٹ جاری رہے گی، شاید کم سطح پر، کیونکہ واشنگٹن میں مجموعی طور پر بجٹ میں کمی ہورہی ہے، اور اسی طرح ملٹری سپورٹ بھی۔ لیکن جی ایچ کیو اور پینٹاگون کے درمیان پچھلے کئی سالوں میں پیدا ہونے والے تناؤ کے باوجود ملٹری سپورٹ توقعات سے زیادہ مضبوط رہے گی۔
اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے لیے بھی ایسا ہی ہوگا، کیونکہ حقیقتاً ملٹری اور انٹیلیجنس یہ سمجھتی ہیں کہ 1990 کی دہائی میں تعلقات ختم کرنا ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ اور مجھے بھی یہ غلطی دوبارہ دہرائے جانے کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔
سکون کی سانس لیجیے۔ شاید تعلقات کا خاتمہ دونوں ہی فریقوں کے لیے فائدے مند نہیں ہوگا۔ پاکستان اکیلے چھوڑ دیے جانے کے لیے بہت ہی اہم ملک ہے، اور موجودہ معاشی اور سیکیورٹی صورتحال میں پاکستان دنیا کی واحد سپرپاور کے مخالف سائیڈ پر رہ کر باقی نہیں رہ سکتا۔ اور پاکستان سرکار اس بات کو جانتی ہے۔
لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر میں اسلام آباد یا پنڈی میں موجود فیصلہ ساز ہوتا، تو میرا یہ سکون کا سانس شرمندگی اور اضطراب سے بھرپور ہوتا۔ کیونکہ اب تک صرف اپنے ملک کے مسائل کو کیش کرا کر دنیا کو یہ یقین دلایا گیا ہے کہ ہم بہت ہی کمزور اور خطرناک ہیں۔
دوسری جانب دنیا کی کامیابی کی کہانیاں مارکیٹس، سرمایہ کاری کے مواقع، اور کاروباری مواقع کے ذریعے نئے پارٹنرز کو اپنی جانب کھینچ رہی ہیں۔
ہماری سویلین اور ملٹری قیادت کو خود سے یہ پوچھنا چاہیے، کہ کیا وہ مارکیٹ میں کھوٹے سکوں کے حصول کی خاطر رہنا پسند کرتے ہیں؟ بجائے اس کے، کہ ہم پارٹنرز کو اپنی سپورٹ اس لیے کرنے پر مجبور کریں، کہ ہمیں سپورٹ نہ کرنا خطرناک ہے، یہ کیوں نہ کیا جائے کہ پارٹنرز کو یقین دلایا جائے کہ ہمارے پاس پرکشش مواقع موجود ہیں۔
لکھاری واشنگٹن ڈی سی میں ماہرِ خارجہ پالیسی ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 21 اکتوبر 2014 کو شائع ہوا۔
لکھاری کتاب Brokering Peace in Nuclear Environments: US Crisis Management in South Asia کے مصنف ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔