نقطہ نظر

پی ٹی آئی کے مقاصد اور طریقے

اگر باضابطہ پاکستان چاہیے اور وزیراعظم عمران خان کے ذریعے چاہیے تو کیوں نا وہ صحیح اقدامات اٹھائے جائیں جو آج ممکن ہیں؟

نواز شریف کو ہٹانا کیا عمران خان کی آخری منزل ہے، یا کسی اور بڑے مقصد کے حصول میں پہلا قدم ہے؟ اگر عمران خان یہ بھی کہتے ہیں کہ نواز شریف کو ہٹایا جانا اس تبدیلی کی جانب پہلا قدم ہے جس کا وہ دعویٰ کیے ہوئے ہیں، تو اب جبکہ نواز شریف کہیں جانے کو تیار نہیں کیا انہیں اب اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مزید طریقے ڈھونڈنے چاہیئں؟ پی ٹی آئی کا یہ اصرار کہ وہ پارلیمنٹ میں واپس نہیں آئے گی، تعمیری نہیں ہے۔ اگر پی ٹی آئی اپنے استعفے واپس لے لیتی ہے تو اس پر شور تو اٹھے گا لیکن اگر عمران خان دیگر نکات کو مدِ نظر رکھے بغیر اپنی قومی اسمبلی کی سیٹیں جانے دیتے ہیں تو اس کا نقصان صرف پی ٹی آئی کو ہی ہوگا۔

اپنے دھرنے کو ختم کر کے طاہر القادری نے اپنی طرف سے ایک اچھا اقدام کیا ہے۔ دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اب وہ اپنی جنگ کسی اور دن لڑیں گے۔ لیکن اپنے دھرنے کو جاری رکھ کر اور قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے کر کیا پی ٹی آئی اپنے آپشنز پر غور کر بھی رہی ہے؟ دھرنے کا مقصد یہ تھا کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت گرا دی جائے۔ لیکن اس کے لیے ایک اور کردار کی بھی ضرورت تھی جو خانہ جنگی روکنے کا بہانہ بنا کر مداخلت کرتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ لیکن اس کے باوجود دھرنا کارآمد رہا کیونکہ اس سے عمران خان کو نواز شریف کے خلاف حد سے زیادہ تنقیدی بیان بازی کا موقع مل گیا۔

عمران خان نے اس موقع سے انتہائی مہارت سے فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے ڈی چوک پر مسلم لیگ ن کے ساتھ وہی کیا جو سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے این آر او کی سماعت کے دوران پی پی پی کے ساتھ کیا تھا، یعنی ذاتی مفادات پر مبنی 1990 کی سیاست اور اسکینڈلز کے بارے میں عوامی یادداشت کو تازہ کردینا۔ لیکن اس کے بعد پی ٹی آئی نے ملک گیے سطح پر جلسوں کا آغاز کیا جنہوں نے عوام کو بڑی تعداد میں اپنی جانب کھینچا۔ لاہور کے جلسے کے بعد اس سب کو کامیابی قرار دے کر دھرنے سے باہر نکلا جاسکتا تھا لیکن عمران خان ڈی چوک پر واپس آگئے اور اصرار کرتے رہے کہ وہ وہیں کھڑے رہیں گے چاہے زندگی گزر جائے، چاہے ان کو اکیلے ہی کھڑا ہونا پڑے۔

اسمبلیوں سے استعفے دینے کا معاملہ شروع سے ہی پریشان کن تھا۔ اگر پی ٹی آئی 2013 کے انتخابات کو غیرشفاف سمجھتی تھی، تو اس نے ان انتخابات کی بنیاد پر اسمبلیوں میں قدم ہی کیوں رکھا اور حکومت ہی کیوں بنائی؟ اور چلیں اگر ان پر یہ حقیقت بعد میں بھی کھلی، تب بھی کیا منطق کا تقاضہ یہ نہیں کہ 2013 کے انتخابات سے منسلک تمام عہدوں سے استعفیٰ دیا جائے، نا کہ صرف قومی اسمبلی سے؟ اگر ایک نااہل پارلیمنٹ ہی اس سب کا سبب تھی، تو کیا پی ٹی آئی کے چلے جانے سے یہ مسئلہ شدید تر نہیں ہوجائے گا؟

اسمبلیوں سے استعفوں کا پی ٹی آئی کا فیصلہ اس کی عملی سیاست کی وجہ سے ہے۔ اس کا مقصد دوہرا تھا۔ پہلا یہ کہ ایک کمزور حکومت پر اس وقت وار کیا جائے جب اس کا مستقبل بھی غیر یقینی ہے، اور دوسرا یہ کہ پارلیمنٹ کو عوام کی نظروں میں غیرقانونی اور غیرمتعلق قرار دیا جائے کیونکہ اس کو شریف کی پشت پناہی حاصل ہے۔ تب سے لے کر اب تک کیا ہوا ہے؟ نواز حکومت نہیں گری، کسی بھی دوسری جماعت نے پی ٹی آئی کی طرح استعفے دے کے مڈ ٹرم الیکشن کا مطالبہ نہیں کیا، اور ملتان کے ضمنی انتخابات نے ثابت کر دیا کہ یہ پارلیمنٹ پی ٹی آئی سمیت سب کے لیے اب بھی اہم ہے۔

اب یہ بات سب پر ہی واضح ہوچکی ہے کہ نواز شریف بری طرح کمزور ہوجانے کے بعد عمران خان کی جانب سے پیدا کیے گئے خطرے سے بچ گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کا تبدیلی کا پیغام اب تک پورے ملک میں پھیل چکا ہے۔ لیکن عمران خان کی ثابت قدمی اور ان کے بیانات ایک طرف رکھ کر دیکھیں، تو جلسوں میں بڑی تعداد میں لوگوں کو لا کر بھی نواز شریف کو باہر نہیں نکالا جاسکتا۔ عمران خان کی سیاست اور بغاوت پر ابھارنے نے پی ٹی آئی کو پنجاب میں مسلم لیگ ن کے خلاف ایک مضبوط امیدوار کے طور پر لا کھڑا کیا ہے۔ لیکن اوپر سے مداخلت کے بغیر یہ سارے فوائد اب صرف اگلے عام انتخابات میں ہی مل پائیں گے، جو کہ ابھی فوراً ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔

اس پورے منظرنامے پر غور کیا جائے تو نا ہی پی ٹی آئی کے استعفوں کی منظوری سے نواز شریف کی حکومت گر جائے گی، اور نا ہی تیس سیٹوں کے خالی ہونے سے مڈ ٹرم الیکشن ہوجائیں گے۔ اگر استعفے قبول کر لیے جاتے ہیں اور ضمنی انتخابات کرائے جاتے ہیں، تو پی ٹی آئی کے پاس ان میں حصہ لینے کے لیے کوئی منطقی دلیل نہیں ہوگی۔ ہم ملتان جیسی صورتحال دوبارہ دیکھیں گے جہاں پی ٹی کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار دوسری جماعتوں کے امیدواروں سے مقابلہ کریں گے۔ پی ٹی آئی کے لیے سب سے اچھا منظرنامہ یہ ہوگا کہ وہ خالی سیٹوں پر دوسروں کو نا جیتنے دے۔ لیکن اس سے کیا پی ٹی آئی بہتر پوزیشن میں آجائے گی؟ جبکہ اس کے پاس آج یہ سیٹیں موجود ہیں۔

استعفوں سے متعلق ایک اور اس سے بڑا مرغی اور انڈے کا معاملہ ہے، جو کہ پی ٹی آئی کے فوری عام انتخابات کے مطالبے میں پوشیدہ ہے۔ پی ٹی آئی اس بات کا جواب کبھی بھی نہیں دے سکی ہے کہ اگر قومی اسمبلی تحلیل کردی جائے اور فوراً ہی انتخابات کرادیے جائیں تو انتخابی اصلاحات کیسے نافذ ہوپائیں گی اور کون الیکشن کمیشن کی ازسرِنو ترتیب کرے گا۔ لیکن اگر اسمبلی تحلیل نہیں کی جاتی، اور انتخابی اصلاحات کا عمل اسی پارلیمنٹ کے ذریعے چلے، تو پی ٹی آئی کے ممبران کی آزاد امیدواروں سے تبدیلی کیا پی ٹی آئی کے اصلاحاتی ایجنڈے کو آگے بڑھائے گی؟

اس کے علاوہ مارچ 2015 میں سینیٹ کے انتخابات بھی ہیں۔ ایک نئی پارٹی ہونے کے ناطے پی ٹی آئی کی سینیٹ میں کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ کیا یہ سینیٹ کے انتخابات کا اس بنیاد پر بائیکاٹ کرے گی کہ سینیٹرز کا انتخاب 2013 کے انتخابات کی بنیاد پر ہوگا؟ اور اگر ایسا نہیں ہوتا، (پارٹی نے کے پی اسمبلی یا حکومت تحلیل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ہے) تو کیا یہ اسی پارلیمنٹ میں اپنے سینیٹرز کو بھیجے گی جہاں سے وہ اپنے تمام قومی اسمبلی کے ممبران کو باہر نکال لینا چاہتی ہے؟

تعمیری سماجی سیاسی تبدیلی کے لیے چاہ اور مواقع پچھلے 70 دن میں کافی حد تک بڑھ گئے ہیں، اور یہ دوسری باتوں کے ساتھ ساتھ عمران خان کی وجہ سے بھی ہے۔ لیکن اگر اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا، تو یہ مواقع ختم بھی ہوسکتے ہیں۔

وکلا تحریک کے دوران ہماری قوم قانون کی حکمرانی کے لیے متحد ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی جس کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کے شکار نظامِ انصاف کو درست کرنے کا ایک بہترین موقع ملا۔ لیکن تحریک کے نزدیک یہ مقصد حاصل کرنے کا صرف ایک ذریعہ تھا، اور وہ تھا افتخار چوہدری کی بحالی۔ ججوں کو ان کی نوکریاں واپس مل گئیں، لیکن نظامِ انصاف وہیں کا وہیں ہے۔ آج عام آدمی قانون کی حکمرانی کے متعلق اتنا شاکی ہے، جتنا وہ 2007 میں بھی نہیں تھا، کیونکہ اس کی امیدوں کو پروان چڑھایا گیا، اور پھر توڑ دیا گیا۔

انتخابی اصلاحات پر کام کرنے سے پہلے نواز شریف کے جانے کا انتظار کرنا ایک بھول ہوگی۔ اگر ایک باضابطہ پاکستان چاہیے، اور وزیر اعظم عمران خان کے ذریعے چاہیے، تو کیوں نا وہ صحیح اقدامات اٹھائے جائیں جو آج ممکن ہیں؟ اپنے حامیوں کو متحرک کرنے کے لیے بیان بازی کا سہارا لینا فائدہ مند تو ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر ایک لیڈر انہی بیانات کو اتنی سنجیدگی سے لینا شروع کردے تو یہ خطرناک ہے۔ امید ہے کہ عمران خان کی بیانات کو حقیقت، اور ذاتی انا کو پارٹی مفاد سے دور رکھنے کی قابلیت اب بھی ختم نہیں ہوئی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر babar_sattar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

sattar@post.harvard.edu

یہ مضمون ڈان اخبار میں 27 اکتوبر 2014 کو شائع ہوا۔

بابر ستار
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔