پاکستان بھی ترقی کرسکتا ہے
وہ کم عمر پاکستانی جو 1990 کی دہائی میں یا اس کے بعد پیدا ہوئے ہیں، ملک کی بڑھتی ہوئی غیر فعالیت، اور اقوامِ عالم میں اس کی گرتی ہوئی ساکھ ہی ایک ایسی حقیقیت ہے جس کا سامنا انہوں نے پیدا ہونے سے اب تک کیا ہے۔ بدصورت اور ناقابلِ تبدیل حقیقت۔ لیکن ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا، اور نہ ہی یہ ہمیشہ ایسے ہی جاری رہے گا۔
1990 کی دہائی کے آغاز تک معاشی کارکردگی میں پاکستان کا رکارڈ قابلِ تعریف تھا۔ 1951 سے 1989 تک پاکستان کی معیشت اوسطاً 5.25 فیصد سالانہ کی شرح سے ترقی کرتی رہی، جبکہ اس پورے دور میں مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) 11 گنا سے زیادہ بڑھی، اور فی کس آمدنی بھی کافی اطمینان بخش شرح پر بڑھتی رہی۔ وسیع پیمانے پر کرپشن کا تصور اتنا عام نہیں تھا، اور ادارے، خاص طور پر بیوروکریسی قابل اور غیر سیاسی تھے۔ اس کے نتیجے میں 1960 اور 1970 کے درمیان انفراسٹرکچر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی گئی، جس کی وجہ سے معیشت پاکستان جیسے دوسرے ممالک کے مقابلے میں کافی تیزی سے ترقی کرنے لگی۔
ترقی پذیر دنیا میں اس وقت کے حالات پاکستان سے بالکل مختلف تھے۔ کچھ ممالک کو چھوڑ کر باقیوں میں ترقی کی رفتار بالکل کم تھی۔ شدید مہنگائی، کرنسی کی قدر میں کمی، اور بیرونی قرضے زیادہ تر ممالک کے لیے یہ چیزیں ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئیں تھیں۔ ابھرتی ہوئی مارکیٹس کی دنیا کے پچھلی دو دہائیوں کے چمکدار ستارے، یعنی ترکی، برازیل، انڈونیشیا، میکسیکو، انڈیا، وغیرہ بمشکل ہی ترقی کی جانب قدم بڑھا پارہے تھے، اور ان میں سے کچھ کو تو معاشی طور پر ناقابلِ ترقی (باسکٹ کیس) قرار دے دیا گیا تھا۔
لیکن 1990 کے آس پاس پاکستان، اور دیگر ترقی پذیر ممالک کی قسمت میں تبدیلی آنی شروع ہوئی۔ پاکستان کے لیے یہ تبدیلی خرابی کی جانب، جبکہ دوسرے زیادہ تر ممالک کے لیے یہ ترقی کی جانب تیز رفتار سفر کا آغاز تھا۔
اچھا ہوگا کہ ہم اس وقت کے کچھ باسکٹ کیسز کا مطالعہ کریں، اور یہ دیکھیں کہ وہ اس وقت کن گہرائیوں میں تھے، اور اس کے بعد ان کا راستہ کس طرح تنزلی سے ترقی کی جانب تبدیل ہوا۔
ترکی: ترکی کا تاریخی ورثہ اپنے آپ میں منفرد ہے اور کئی صدیوں پر محیط ہے۔ اور اسی طرح سے تعمیرِ نو کے لیے اس کے اقدامات کی تاریخ ہے۔ لیکن ماڈرن ترکی، یعنی عثمانی دور کے بعد کے ترکی میں 2000 کی دہائی کے اوائل تک بھی معاشی کارکردگی ناہموار رہی۔ 1989 اور 1999 کے درمیان ترکی کی معیشت اوسطاً 3.6 فیصد سالانہ کی شرح سے ترقی کرتی رہی، جبکہ 1980 سے 1999 تک مہنگائی کی شرح اوسطاً 64 فیصد رہی۔
ترکی لیرا کا وقفے وقفے سے اپنی قدر کھوتے رہنا کافی عام تھا، اور سرمائے کی بیرونِ ملک منتقلی بھی اسی حساب سے جاری تھی۔ اس کی بہترین لوکیشن کے باوجود بیرونی سرمایہ کار انتہائی غیر مستحکم معاشی اور سیکیورٹی صورتحال میں اپنا سرمایہ لگانے میں ہچکچکاہٹ کا شکار تھے۔ ترکی اس وقت کردستان ورکرز پارٹی یا پی کے کے کی دراندازی سے بھرپور جنگ میں مصروف تھا۔ صورتحال اتنی خراب تھی کہ جب میں پہلی دفعہ 1985 میں ترکی گیا، تو استنبول ایئرپورٹ پر عوام سے زیادہ سیکیورٹی اہلکار موجود تھے، مسافروں کے سامان کی بار بار تلاشی لی جاتی، اور رات 10 بجے کے بعد صبح تک کے لیے کرفیو نافذ کردیا جاتا۔ جہاز پر سوار ترک مسافروں نے لینڈنگ ہوتے ہی کپتان کی تعریف کی۔ شاید اس لیے کہ وہ زمین تک صحیح سلامت پہنچ جانے پر خوش تھے۔
لیکن آج کے ترکی میں یہ سب کچھ کافی حد تک ختم ہوچکا ہے۔ ترکی کے لیے یہ تبدیلی وزیر اعظم بیولنٹ ایسویٹ کے مقرر کردہ ماہرِ اقتصادیات کمال درویس کی کاوشوں کی وجہ سے ممکن ہوپائی۔ کمال نے ورلڈ بینک میں ایک سینیئر پوزیشن سے استعفیٰ دیا، اور ترکی کی معیشت کو مارکیٹ اصلاحات لا کر ری اسٹرکچر کیا۔ نتیجتاً 2004 سے ترکی کی معیشت اوسطاً 6.7 فیصد سالانہ کی شرح سے ترقی کر رہی ہے (2008-2009) کے علاوہ، جبکہ مہنگائی کی شرح 8.9 فیصد رہی ہے۔
برازیل: ترکی کی طرح برازیل نے بھی 20 ویں صدی کا زیادہ تر عرصہ انتہائی خراب ترین معاشی کارکردگی کے ساتھ گزارا ہے۔ برازیل میں صنعت کاری یا انڈسٹریئلائزیشن کی بنیاد 1950 اور 1960 کے درمیان رکھی گئی تھی، لیکن برازیل کی معاشی قسمت 1990 میں اپنی بدترین سطح پر پہنچ گئی۔ یقین کرنا مشکل ہے کہ اس دور میں برازیل میں مہنگائی کی شرح اوسطاً 1485 فیصد سالانہ تھی، جبکہ بیرونی قرضے اور کرنسی کی قدر میں کمی سے بھی ملک کی معیشت کو نقصان پہنچ رہا تھا۔
لیکن 1994 میں برازیلی تاریخ کی سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر اور سب سے زیادہ دور رس اثرات کی حامل اصلاحات متعارف کرائی گئیں، جنہیں پیانو ریئل کا نام دیا گیا۔ صدر لوئز اناسیو ڈا سلوا نے اصلاحات کے نفاذ کے بعد انہیں جاری رکھا جس کی وجہ سے 2002 کے بعد سے برازیل کی معاشی کایا پلٹ چکی ہے۔
انڈیا: پڑوسی ملک انڈیا میں آزادی کے بعد سے معاشی ترقی کی شرح اتنی کم رہی، کہ دنیا بھر میں ازراہِ مذاق اسے 'ہندو شرحِ ترقی' کہا جانے لگا۔ سیاست دان کام کرنے پر مائل نہیں تھے، جبکہ بیوروکریسی اپنی من مانیوں میں مصروف تھی جس کی وجہ سے معاشی ترقی صرف کچھ ہی لوگوں کے لیے فائدے کا سبب تھی۔
1991 میں انڈیا نے ادائیگیوں کے توازن کے ایک شدید بحران کا سامنا کیا، اور اس کے زرِ مبادلہ کے ذخائر تقریباً ختم ہونے کو تھے، یہاں تک کہ یہ اپنی بیرونی ادائیگیوں کے لیے دیوالیہ ہونے کی سطح تک پہنچ چکا تھا۔ اس سے نکلنے کے لیے انڈیا کو آئی ایم ایف سے ایمرجنسی قرضہ لینا پڑا، جبکہ لیکویڈیٹی کی خاطر اپنے سونے کو تبدیل کرانا پڑا۔ اس کے فوراً بعد اس وقت کے وزیرِ خزانہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے سنجیدہ اصلاحات متعارف کرائیں، جو کہ انڈیا کے معیارات کے مطابق بہت ہی دور رس تھیں۔ لیکن اصلاحات لانے والے ڈاکٹر منموہن سنگھ وزیر اعظم کی حیثیت میں مزید اصلاحات نہ لاسکے۔
اگلی دو دہائیوں میں انڈیا نے عالمی معیشت میں مرکزی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ معاشی سطح پر اپنے تمام مسائل، ناکامیوں، اور خطرات کے باوجود یہ پیچھے جانے کے بجائے آگے بڑھتا جارہا ہے۔ اس وقت اس کا سب سے بڑا پلس پوائنٹ یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی، جو بھلے ہی گجرات میں حکومت کے دوران مسلمانوں کے قتلِ عام کی وجہ سے الزامات کی زد میں ہیں، لیکن ایک اصلاحی لیڈر کے طور پر سامنے آرہے ہیں۔
خلاصہ: پاکستان کے مسائل کا اگر دوسرے ممالک سے موازنہ کیا جائے، تو یہ کسی بھی صورت میں منفرد نہیں ہیں۔ دوسرے ممالک نے ان سے بھی زیادہ سخت معاشی بحران، اور داخلی سلامتی کے چیلنجز کا سامنا کیا ہے۔ صرف ایک مخلص اور وژنری لیڈرشپ ملک کی معاشی قسمت بدل دینے کی قابلیت رکھتی ہے۔ تاریخ سے ایک اور سبق یہ بھی ملتا ہے کہ زیادہ تر کیسز میں ایک ہی شخص ہوتا ہے جو قسمت تبدیل کرتا ہے، چاہے بہتری کی طرف، چاہے خرابی کی طرف۔
لکھاری سابق حکومتی مشیر ہیں اور اس وقت مائیکرواکنامک کنسلٹنسی کے سربراہ ہیں۔