کیا یہ جہاز ڈوب رہا ہے؟
آپ اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں کس طرح پرامید رہ سکتے ہیں جبکہ حالات ایک بھیانک تصویر پیش کر رہے ہوں؟ کیا حب الوطنی اور وطن سے وفاداری کا تقاضہ یہ ہے کہ ایک تصوراتی دنیا میں رہا جائے؟ یا یہ کہ اپنی غلطیوں اور خامیوں کو تسلیم کر کے انہیں درست کرنے کی کوشش کی جائے؟ ہمارے 'حب الوطنوں' کی جانب سے ایک دلیل جو بہت زیادہ پیش کی جاتی ہے، وہ یہ کہ دنیا میں ہمارا امیج اس لیے خراب ہے کیونکہ ہم خود اپنے ملک پر تنقید کرتے ہیں۔ لیکن اشتہار بھلے ہی کتنا ہی خوبصورت اور مہنگا ہو، کیا اس کے سہارے خراب پراڈکٹ بیچی جاسکتی ہے؟
آپ کسی خامی کو درست کیسے کریں گے، جب آپ اس خامی کے وجود کا ہی انکار کرتے رہیں گے؟ آپ ایسے ماحول میں اپنی غلطی کیسے تسلیم کریں گے، جہاں اس بات پر یقین ہو کہ برائی بدنامی کا باعث نہیں، بلکہ اس کے بارے میں بات کرنا اور اسے تسلیم کرنا بدنامی کا باعث ہے۔
ہم لوگ ایسے کب ہوئے، کہ ایک معروضی حقیقت میں اور اس کے تسلیم کرنے میں فرق نہ کرسکیں؟ کیا ہمیں ہم پر اور ہمارے معاشرے پر اثرانداز ہونے والی برائیوں کے بارے میں زیادہ فکرمند ہونا چاہیے، یا اس بارے میں کہ کہیں دوسرے ہماری اس خامی کے بارے میں جان نہ لیں؟
آئیں کچھ واقعات کا جائزہ لیتے ہیں۔
کوٹ رادھا کشن میں مقامی مسجد کے شرپسند مولوی کی جانب سے توہین کا الزام عائد کیے جانے کے بعد گاؤں والوں نے ایک عیسائی جوڑے کو اسی بھٹی میں کوئلے کے ٹکڑوں کی طرح جلا دیا، جہاں کام کرتے ہوئے انہوں نے پوری زندگی گزار دی تھی۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بالکل اسی طرح واقعے کا 'سخت' نوٹس لیا ہے، جس طرح انہوں نے گوجرہ فسادات جس میں آٹھ پاکستانی عیسائی ہلاک ہوگئے تھے، اور لاہور کے جوزف کالونی واقعے جس میں 150 گھر اور دو چرچ جلا کر راکھ کر دیے گئے تھے، کا سخت نوٹس لیا تھا۔ ان دونوں واقعات میں بھی توہینِ مذہب کا الزام عائد کرکے حملے کی راہ ہموار کی گئی۔
گذشتہ ہفتے اطلاعات کے مطابق ایک 12 سالہ ہندو لڑکی انجلی کمار میگھواڑ کو اغوا کر کے زبردستی مسلمان کیا گیا، اور پھر ریاض سیال نامی شخص سے شادی کردی گئی۔ موومنٹ فار سولیڈیریٹی اینڈ پیس کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق ہر سال پاکستان میں 1000 عیسائی اور ہندو خواتین کا مذہب زبردستی تبدیل کرا کر مسلمان مردوں سے شادی کرادی جاتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ چاہے یہ مذہب کا معاملہ ہو، صنف کا، یا سماجی طبقے کا، اگر آپ کا تعلق کسی ناپسندیدہ طبقے سے ہے، تو آپ کا زندہ رہنا مشکل ہے۔
گذشتہ ہفتے واہگہ بارڈر پر حملے میں ساٹھ پاکستانی شہری جاں بحق جبکہ 100 سے زائد زخمی ہوگئے۔ واقعے کی ذمہ داری تین مقامی دہشتگرد تنظیموں نے قبول کی۔ کیا ہماری ریاست نے اس پر تشویش اور غصے کا اظہار کیا؟ ہاں، کیونکہ پینٹاگون کی جانب سے کانگریس کو بھیجی گئی رپورٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ 'جنگجوؤں کا ہدف ہندوستان اور افغانستان ہیں، جبکہ وہ پاکستانی سرزمین سے آپریٹ کر رہے ہیں، اور افغان اور علاقائی استحکام کے لیے شدید خطرہ ہیں'، اور یہ کہ 'پاکستان ان پراکسی قوتوں کو افغانستان میں اپنے کم ہوتے ہوئے اثرورسوخ سے نمٹنے کے لیے، اور ہندوستان کی فوجی برتری کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے'۔
اس رپورٹ پر ہمارا غصہ کیا اس وجہ سے ہے کہ یہ تمام باتیں بے بنیاد ہیں اور پاکستان اپنی قومی سلامتی اور استحکام کے لیے جہادی پراکسیاں استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا؟ یا اس وجہ سے کہ رپورٹ میں ہندوستان کو فوجی لحاظ سے پاکستان سے برتر کہا گیا ہے؟ یا پھر اس وجہ سے کہ رپورٹ میں بلوچستان میں مبینہ ہندوستانی مداخلت کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا؟ یا اس لیے کہ بھلے ہی یہ سب باتیں سچ بھی ہوں، تب بھی امریکا کو ایک دوست کی حیثیت سے ہمارے بارے میں یہ نہیں کہنا چاہیے تھا، وہ بھی تب جب جہادی پراجیکٹ پاکستان اور امریکا کا مشترکہ پراجیکٹ تھا۔
پاکستان کے تمام پڑوسی چاہے دوست ہوں یا دشمن، ہمیں ایک مسئلے اور دہشتگردی کے سرچشمے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ سازشوں کا الزام لگائے بغیر آپ اس حقیقت سے کس طرح نمٹیں گے؟ کیا ہم مکمل یقین کے ساتھ یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہماری ریاست نے اپنی جہادی پراکسیوں کا استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے، اور مذہب سے متاثر دہشتگرد گروپوں سے تعلقات ختم کر کے ان کی مدد اور معاونت کرنی بند کردی ہے؟
کیا اس بات کا کوئی اشارہ موجود ہے کہ ہمارا قومی سلامتی کا نظریہ اب تبدیل ہو چکا ہے، اور ریاست اس بات پر قائل ہوچکی ہے کہ جہادی پراکسیوں کا استعمال پاکستانی شہریوں کی جان خطرے میں ڈال رہا ہے؟
اور ہمارے نظامِ انصاف کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا اس نے گہری نیند سے بیدار ہوکر عام لوگوں کو انصاف فراہم کرنا شروع کردیا ہے؟ پاکستان بھر میں ہوئے لاتعداد دہشتگرد حملوں میں ملزمان کو سزا دیے جانے کی شرح انتہائی کم رہی ہے۔ لیکن ہم قدم بڑھا ہی رہے ہیں۔ ماڈل ٹاؤن سانحے میں ڈنڈے سے گاڑیوں کے شیشے توڑنے والے گلو بٹ کو انسدادِ دہشتگردی کی عدالت نے 11 سال قید کی سزا سنا دی ہے۔ لیکن اسی دن 14 دیگر لوگوں کی جان گئی، کیا ہم اس نقصان کے ذمہ داروں کے تعین میں ہونے والی تاخیر پر پریشان ہیں؟ اس شرمناک واقعے کو دبانے کے لیے قربانی کا ایک بکرا چاہیے تھا، اور گلو بٹ کو اس کام کے لیے منتخب کیا گیا۔
2012 میں سپریم کورٹ نے عوامی مفاد کے ایک کیس میں یہ فیصلہ دیا کہ اسلام آباد کے لیے سیف سٹی پراجیکٹ کا ٹھیکہ پی پی آر اے کے قوانین کے خلاف ورزی میں دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیا کہ وہ خریداری کا مرحلہ شفاف طور پر دوبارہ شروع کرے، اور نیب کو احکامات جاری کیے کہ وہ غیر قانونی ایوارڈ کے ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی کرے۔ مارچ 2014 میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے اسی چینی کمپنی کے ساتھ ٹینڈر کے بغیر ہی ایک نظرِثانی شدہ معاہدے پر دستخط کیے۔ پی پی آر اے کے مطابق حکومت نے دوبارہ شروع کیے گئے پراجیکٹ کے لیے استثنیٰ کی درخواست نہیں کی ہے۔
پی پی پی حکومت کے دوران سپریم کورٹ نے اقربا پروری کے الزامات پر کئی ایگزیکٹو تقرریوں کو کالعدم قرار دیا تھا۔ ان تقرریوں میں اوگرا، ایف بی آر، ایس ای سی پی، اور نیب کے سربراہان بھی شامل ہیں۔ خواجہ آصف کیس میں سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ اعلیٰ اختیارات رکھنے والا ایک سلیکشن کمیشن بنایا جائے، جو اہم ایگزیکٹو تقرریاں شفاف انداز میں کرے۔ یہ کمیشن غیر فعال ہے اور اہم حکومتی عہدے مسلم لیگ ن کی جانب سے قانون کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے قائم مقام بنیادوں پر چلائے جارہے ہیں۔ کیا ان تبدیل ہوتے ہوئے قانونی معیارات کی کوئی توجیہہ پیش کی جاسکتی ہے؟
ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے ملک بھر کی یونیورسٹیوں کو وارننگ جاری کی ہے کہ وہ نظریہ پاکستان اور حکومتِ پاکستان کو چیلنج کرنے والی کسی بھی سرگرمی کی اجازت نہ دیں۔ یوٹیوب پر پابندی پہلے ہی سینسرشپ کی حکومتی خواہش کا اظہار ہے۔ فیس بک کے مطابق حکومت نہ صرف توہینِ مذہب پر مبنی مواد پر پابندی عائد کرنے کی درخواستیں کررہی ہے، بلکہ ریاست کے خلاف تنقید کرنے والے پیجز اور اکاؤنٹس بھی بلاک کرنے کے لیے کہا جارہا ہے۔ کیا لوگوں کی تنقیدی آوازیں دبانے اور نئے خیالات کو روکنے سے بھی زیادہ کوئی خطرناک بات ہوسکتی ہے؟
چاہے ہمارے سیاستدان ہوں، ملٹری ہو، عدلیہ ہو، بیوروکریسی ہو، یا مراعات یافتہ سماجی طبقے، طاقت اور اختیار رکھنے والی اس اشرافیہ کو اس بات کی کوئی جلدی نہیں کہ پاکستان کو آخری کنارے تک پہنچا دینے والی پالیسیوں کو تبدیل کیا جائے۔ یہ اشرافیہ جو بات سمجھنے میں ناکام ہے، وہ یہ کہ بھلے ہی گو نواز گو کا نعرہ نواز شریف کے خلاف معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ بوسیدہ نظام سے فائدہ اٹھانے والے تمام لوگوں کے خلاف بغاوت کا نعرہ ہے۔
لکھاری وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر babar_sattar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
sattar@post.harvard.edu
یہ مضمون ڈان اخبار میں 10 نومبر 2014 کو شائع ہوا۔